فرقہ بندی کے معنی

سوال: ’’آپ اپنی جماعت کے لوگوں کو سختی کے ساتھ فرقہ بندی سے منع کرتے ہیں اس ضمن میں میرا سوال یہ ہے کہ آخر صوم و صلوٰۃ و حج وغیرہ ارکان کو کسی نہ کسی مسلک کے مطابق ہی ادا کرنا ہوگا۔ تو پھر بتائیے کوئی مسلمان فرقہ بندی سے کیسے بچ سکتا ہے؟ میرا اپنا یہ خیال ہے کہ بموجب آپ کی رائے کے کہ قرآن و حدیث کے موافق جو مسئلہ ملے اس پر عمل کیا جائے۔ بجز اہل حدیث کے کسی فرقہ کے ہاں جملہ جزیات میں قرآن و حدیث سے مطابقت نہیں پائی جاتی۔ پس میں نے فی الجملہ مسلک اہل حدیث کو اپنے لیے پسند کیا ہے پھر کیا میں بھی فرقہ بندی کے الزام کا مورد ٹھہروں گا ؟‘‘

جواب: فقہ میں اپنی تحقیق یا کسی عالم کی تحقیق کی پیروی کرتے ہوئے کوئی ایسا طرزعمل اختیار کرنا جس کے لیے شریعت میں گنجائش موجود ہو فرقہ بندی نہیں ہے اور نہ اس سے کوئی قباحت واقع ہوسکتی ہے۔ اس طریقے سے مختلف لوگوں کی تحقیقات اور ان کے طرزعمل میں جو اختلاف واقع ہوتا ہے وہ مذموم تفریق و اختلاف نہیں ہے جس کی برائی قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے۔ ایسے اختلافات خود صحابہ کرام اور تابعین میں رہ چکے ہیں۔ دراصل فرقہ بندی جس چیز کا نام ہے وہ یہ ہے کہ فروغ کے اختلافات کو اہمیت دے کر اصولی اختلاف بنادیا جائے اور اس میں اتنا غلو کیا جائے کہ اسی پر الگ گروہ بنیں اور ہر گروہ اپنے مسلک کو بمنزلہ دین قرار دے کر دوسرے گروہوں کی تکفیر و تذلیل کرنے لگیں، اپنی نمازیں اور مسجدیں الگ کرے، شادی بیاہ اور معاشرتی تعلقات میں بھی علیحدگی اختیار کرے اور دوسرے گروہوں کے ساتھ اس کے سارے جھگڑے انہی فروعی مسائل پر ہوں، حتیٰ کہ اصل دین کے کام میں بھی دوسرے گروہوں کے ساتھ اس کا تعاون ناممکن ہوجائے۔ اس قسم کی فرقہ بندی اگر پیدا نہ ہو اور فروع کو صرف فروع کی حیثیت ہی میں رہنے دیا جائے تو مسائل فقیہ میں مختلف مسلکوں کے لوگ اپنے اپنے طریقے پر عمل کرتے ہوئے بھی ایک ساتھ اسلامی نظام جماعت میں منسلک رہ سکتے ہیں۔

(ترجمان القرآن۔ ذیقعدہ، ذی الحج 63ھ ۔ نومبر، دسمبر44ء)