وہابی اور وہابیت

سوال: فرقہ وہابیہ کا بانی کون تھا؟ اس کے مخصوص عقائد کیا تھے؟ ہندوستان میں اس کی تعلیمات کس طرح شائع ہوئیں؟ کیا علمائے اسلام نے اس کی تردید نہیں کی؟ اگر کی ہے تو کس طریقہ پر؟ آیا اس فرقہ نے اشاعت اسلام میں حصہ لیا ہے یا مخالفت اسلام میں؟

جواب:وہابی دراصل کسی فرقہ کا نام نہیں ہے۔ محض طنز اور طعن کے طور پر ان لوگوں کے لیے ایک نام رکھ دیا گیا ہے جو یا تو اہل حدیث ہیں، یا محمد ابن عبدالوہاب کے پیرو ہیں۔ اہل حدیث کا مسلک تو قدیم ہے۔ آئمہ اربعہ کے زمانے سے چلا آتا ہے۔ اور یہ ان لوگوں کا گروہ ہے جو کسی امام کی تقلید اختیار کرنے کے بجائے خود حدیث و قرآن سے احکام کی تحقیق کرتے ہیں۔ رہے محمد ابن عبدالوہاب کے پیرو۔ تو وہ دراصل حنبلی طریقہ کے لوگ ہیں۔ ان کی فقہ اور ان کے عقائد وہی ہیں جو امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ کے تھے۔ ہندوستان میں یہ موخر الذکر گروہ غالباً کہیں موجود نہیں ہے۔ جن لوگوں کو یہاں وہابی کہا جاتا ہے وہ دراصل پہلے گروہ کے لوگ ہیں۔ ان لوگوں نے اول اول نہایت اچھا کام کیا اور اب بھی ان میں اچھے افراد پائے جاتے ہیں۔ مگر ان میں بہت سے جاہل اور جھگڑالو آدمی بھی شامل ہوگئے ہیں جو خواہ مخواہ چھوٹے چھوٹے معاملات پر بحث و مناظرہ کا بازار گرم کرتے پھرتے ہیں۔ اور ایسے ہی جاہل خود حنفی کہلانے والے گروہ میں بھی بکثرت موجود ہیں۔ یہ ساری مناظرہ و مباحثہ اور فرقہ بازی کی گرمی بازار انہی دونوں فریقوں کی برکت ہے۔

سوال:’’کیا کسی حدیث میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ نجد سے ایک فتنہ اٹھے گا؟ کیا یہ حدیث مذکورہ بالا فرقہ پر منطق ہوتی ہے؟‘‘

جواب: نجد یا مشرق کی طرف سے ایک فتنہ اٹھنے کی خبر تو حدیث میں دی گئی ہے۔ مگر اس کو محمد ابن عبدالوہاب پر چسپاں کرنا محض گروہ بندی کے اندھے جوش کا نتیجہ ہے۔ ایک فریق جب دوسرے فریق سے لڑنا چاہتا ہے تو ہر ہتھیار اس کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے، حتٰی کہ خدا اور رسولﷺ کو بھی ایک فریق جنگ بنانے میں دریغ نہیں کرتا۔

(ترجمان القرآن۔ رجب، شوال63ھ۔ جولائی، اکتوبر 44ء)