مفتوح فاتح کی عدالت میں

سوال: آج کل جنگی مجرموں(War Criminals) کو کیفر کردار تک پہنچانے کا بہت چرچا ہے۔ اسلام کا اس ضمن میں کیا حکم ہے؟

جواب: یہ ’’جنگی مجرم‘‘ کی اصطلاح بھی ایک عجیب اصطلاح ہے جسے یورپ کے مکارانہ اخلاق نے موجودہ زمانے میں ایجاد کیا ہے۔ اس کی اصلیت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ایک قوم جس سے کسی دوسری قوم کی لڑائی محض قومی اغراض کے لیے ہوئی تھی، جنگ میں فتح یاب ہونے کے بعد مفتوح قوم کے جنگی و سیاسی لیڈروں سے انتقام لینا چاہتی ہے۔ لڑائی دونوں طرف سے اقتدار اور منفعت طلبی کی خاطر ہوئی تھی۔ ایک دنیا پر پہلے مسلط ہوچکا تھا اور چاہتا تھا کہ اپنے تسلط کو اور ان فائدوں کو جو اس جابرانہ و ظالمانہ تسلط کی بدولت اسے حاصل ہو رہے تھے، محفوظ رکھے۔ دوسرا بعد میں آیا اور اس نے پہلے کے تسلط و اقتدار کو اپنی راہ میں رکاوٹ دیکھ کر اسے ہٹانا چاہا۔ اس لحاظ سے دونوں کی لڑائی کسی پاکیزہ اخلاقی غرض پر مبنی نہ تھی۔ لیکن اب جبکہ ایک فریق غالب آگیا تو وہ اپنے اس غصہ اور اس انتقامی جذبہ کو جو اس کے دل میں محض اس لیے بھڑکا تھا کہ مخالف فریق نے اس کے اقتدار کو چیلنج کیوں کیا، اخلاق کا رنگ دینے کی کوشش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم تو نہیں مگر ہمارا فریق مخالف ایک ڈاکو اور بدمعاش تھا اور اس نے دنیا کے امن کو غارت کیا۔ (گویا کہ خود انہوں نے دنیا کے امن کو کبھی غارت نہیں کیا تھا) اس نے بستیوں پر ظلم ڈھائے (گویا کہ ظلم وستم ڈھانے کا ارتکاب خود ان سے کبھی نہ ہوا تھا) اور اس نے عہدوپیمان توڑے (گویا کہ یہ ہمیشہ عہدو پیمان کے بڑے پابند تھے)اس لیے اس کے بڑے بڑے لیڈر اور فوجی کمانڈر مجرم ہیں اور انہیں اسیر جنگ کے بجائے اخلاقی مجرم کی حیثیت سے سزا دی جانی چاہیے۔ حالانکہ فی الواقع جس قومی جذبے میں یہ خود سرشار ہیں اور ان کے لیڈر جس جذبے کے تحت اپنی قومی سربلندی کو برقرار رکھنے کے لیے کوشش کرتے رہے ہیں اسی جذبہ سے ان کی مخالف قوم کے لیڈر بھی سرشار تھے اور اپنی قوم کے لیے سربلندی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے، اور کوشش کے طریقوں میں اخلاقی نقطہ نظر سے دونوں کے درمیان کوئی فرق نہ تھا۔ اب اصل غرض تو صرف یہ ہے کہ حریف قوم کے اندر جن لوگوں نے قومی جذبے کو بھڑکایا تھا اور جو اس امر کی قابلیت رکھتے تھے کہ اپنی قوم کو منظم کرکے اور اس کے وسائل کو ترقی دے کر میدان مقابلہ میں استعمال کرسکیں، انہیں ختم کردیا جائے تاکہ یہ قوم ہمارے اقتدار اور ہمارے تسلط علی الارض کو چیلنج کرنے کے قابل نہ ہوسکے، لیکن اس خالص انتقامی جذبہ کی گھناؤنی صورت کو اخلاقی عدل کی خوشنما نقاب سے چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

یہ اخلاقی عدل کا ڈھونگ جس طرح ایک فریق کامیاب ہوجانے کے بعد رچاسکتا ہے، بعینہ اسی طرح دوسرا فریق بھی فتح یاب ہونے کے بعد رچا سکتا تھا اور اس صورت میں بھی اخلاقی حیثیت سے یہ ایک نہایت ذلیل قسم کا مکروہ فریب ہی ہوتا ۔ میں حیران ہوں کہ موجودہ تہذیب نے دنیا کی بڑی بڑی تمدن اور ذی عزت قوموں اور ان کے علما مدبرین سلطنت کے اندر کس قسم کی بے حیائی پیدا کردی ہے اور ان قوموں کے علماء وفضلا اور فلاسفہ نے اخلاق کی اخلاقی حس کو کیسا کند کردیا ہے کہ ایسی ایسی صریح مکارانی باتیں علی الاعلان کی جاتی ہیں اور کسی کو ان کے اندر نہ شرم محسوس ہوتی ہے اور نہ کوئی ان کے گھناؤنے پن کو محسوس کرتا ہے۔ کون صاحب عقل و تمیز آدمی، جو عدل کے معنی کا ذرہ برابر شعور رکھتا ہو، یہ تصور کرسکتا ہے کہ جنگ کا ایک فریق عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر دوسرے فریق کے ساتھ واقعی انصاف کرسکے گا؟ مگر انفرادی زندگی میں کسی مقدمے کا ایک فریق دوسرے فریق کے لیے جج نہیں بن سکتا تو قومی زندگی میں آخر ایک فریق جنگ دوسرے فریق جنگ کے لیے جج کیسے بن سکتا ہے؟

آپ پوچھتے ہیں کہ اسلام کا اس معاملے میں کیا حکم ہے؟ اسلام اس قسم کے مکر کو مکر ہی سمجھتا ہے۔ اس کے نقطہ نظر سے تمام وہ لوگ جو فریقین جنگ میں سے ایک دوسرے کے ہاتھ آئیں، اسیر جنگ ہیں اور اسیران جنگ کے متعلق اسلام کے احکام جو کچھ ہیں وہ واضح طور پر میں اپنی کتاب ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ میں بیان کرچکا ہوں۔ لڑائی کے بعد عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر مجرم کی حیثیت سے دشمن کو بلانا اور اس کا فیصلہ کرنے کے لیے خود بیٹھ جانا بہت بڑے پیمانہ کی اخلاقی بے حیائی کہلاتا ہے۔ اور اسلام وہ دین ہے جو حیا کو محض  شعبۂ اخلاق ہی نہیں بلکہ  شعبۂ ایمان قرار دیتا ہے۔

(ترجمان القرآن۔ ربیع الاول، جمادی الثانیہ ۶۴ھ۔ مارچ، جون ۴۵ء)