الکوحل آمیز ادویہ کا استعمال

سوال: اس زمانے میں انگریزی دوا میں جو عام طور پر رائج ہیں ان میں ہر رقیق دوا میں الکوحل(جوہر شراب) شامل ہوتا ہے۔ میں ان سے اجتناب کرتا ہوں۔ لیکن عرض یہ ہے کہ تحریم خمر کے متعلق جو حکم قرآن میں ہے اس میں اگر خمر کا مطلب ’’نشہ آور چیز‘‘ لیا جائے تو دوا میں الکوحل اتنا کم ہوتا ہے کہ نشہ نہیں کرتا اور نہ کوئی اس مقصد سے پیتا ہے نہ اس ترکیب سے اس کو اپنے لیے حلال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔یوں باریک بینی کی جائے تو ڈبل روٹی میں بھی آٹے کا خمیر اٹھنے پر کچھ الکوحل بن جاتا ہے، اور شربت جو بوتلوں میں آتے ہیں ان میں بھی کچھ الکوحل ضرور بن جاتا ہے۔ بلکہ الکوحل تو باسی انگوروں میں بھی بنتا ہے۔ اگر ان صورتوں میں یہی وجہ حرمت نمودار نہیں ہوتی تو آخر صرف دوا ہی کے اندر الکوحل کی شمولیت کیوں اتنی زیادہ قابل توجہ ہو؟

نیز اگر با اعتبار لغت خمر کا مطلب انگوری شراب لیا جائے تو الکوحل انگوری شراب نہیں ہے۔اس لیے انگریزی دوائیں ناجائز نہ ہونی چاہئیں۔ لیکن علماء نے اس زمانے میں جب ایسی ادویات سامنے نہیں تھیں ایسے سخت فتوے دے دیے کہ آج انہیں مختلف مواقع پر چسپاں کرنے سے بڑی مشکل پیش آرہی ہے۔ یہ بھی خیال رہے کہ آج کل یونانی ادویہ مرکبہ کا خالص حالت میں دستیاب ہونا بہت ہی دشوار ہے۔خمیرہ مروارید میں بڑے سے بڑا متقی دوا ساز بھی مروارید کی جگہ صدف ملا دیتا ہے۔ نیز جانیں بچانے کے لیے جب لوگ زیادہ ترقی یافتہ انگریزی طب اور جراحی کے ماہرین کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور ہیں تو آخر وہ یونانی ادویہ تجویز کرکے تو دینے سے رہے! ان سارے پہلوؤں کو ملحوظ رکھ کر آپ اپنی رائے سے آگاہ فرمائیں۔

جواب: خمر اگرچہ انگوری شراب کو کہتے ہیں، لیکن اس سے مراد ہر نشہ اور چیز ہے چنانچہ خمر کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ ’’الخمر ما خامر العقل‘‘ یعنی ہر وہ چیز خمر ہے جو عقل کو ڈھانک لے اور شریعت میں یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ ’’ما اسکر کثرہ فقلیلہ حرام‘‘۔ یعنی جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ پیدا کرے اس کی کم مقدار بھی حرام ہے۔ یہ کم مقدار کی حرمت نشہ کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ کم مقدار استعمال کرلینے سے نفس کے اندر کی وہ رکاوٹ دور ہوجاتی ہے، یا کم ازکم کمزور پڑجاتی ہے، جو حرام چیز کے لیے نفس میں موجود ہوتی ہے۔

پھر یہ بات علمی طریق پر معلوم ہے کہ تمام شرابوں میں وہ اصل چیز جو نشہ پیدا کرنے والی ہے، الکوحل ہی ہے۔ اس لیے کسی صورت میں اس کا استعمال جائز تو نہیں ہوسکتا۔ البتہ ایسے حالات میں جب کہ فن طب کی ترقی مسلمانوں کے ہاں ایک مدت سے بند ہوچکی ہے۔ اور جدید زمانے میں اس فن کی تمام تر ترقیات ایسے لوگوں کے ہاتھوں ہوئی ہیں جو حرام وحلال کی تمیز سے خالی ہیں اور انہوں نے نئے زمانے کی بیشتر موثر دواؤں میں الکوحل کو ایک اچھا محلل پاکر دوا سازی میں بکثرت استعمال کیا ہے، افراد کے لیے اضطرار کی صورت پیدا ہوگئی ہے۔شریعت کسی انسان سے یہ مطالبہ نہیں کرتی کہ وہ اپنی صحت اور اپنی زندگی کی حفاظت کے صرف ان ذرائع پر انحصار کرے جو کسی خاص زمانہ تک دریافت ہوئے ہوں اور اس زمانہ کے بعد دریافت ہونے والے ذرائع خواہ کتنے ہی کارگر اور مفید ہوں، ان سے اجتناب کرکے اپنے آپ کو خطرے میں ڈالے۔ اس لیے افراد تو اضطرار کی بنا پر ان ذرائع میں حرمت کا سبب موجود ہوتے ہوئے بھی ان کو اپنی زندگی کی حفاظت کے لیے استعمال کرسکتے ہیں،لیکن تمام مسلمان بحیثیت مجموعی اس وقت تک اس گناہ کے ذمہ دار بنتے رہیں گے جب تک وہ فن طب اور دوا سازی کی جدید ترقیات کو مسلمان بنا لینے کی اجتماعی کوشش نہ کریں۔

جدید فن طب اور دوا سازی کو مسلمان بنانے سے میری مراد یہ ہے کہ اس فن کی تمام موجودہ اور آئندہ ترقیات کو اسلام کے اصول اخلاق کا پابند بنایا جائے اور دوا سازی کے تمام موجودہ اور آئندہ ترقی پذیر ذرائع کو اسلامی حدود کے سانچے میں ڈھال لیا جائے یہ کام جب تک اجتماعی سعی سے نہ ہوگا افراد تو اضطرار کی وجہ سے معاف ہوتے رہیں گے، لیکن جماعت کے نامہ اعمال میں مسلسل گناہ لکھا جاتا رہے گا۔ اجتماعی گناہوں کی یہ خاصیت ہے کہ ان کی وجہ سے افراد کے لیے انفرادی طور پر اضطرار کی حالت پیدا ہوجاتی ہے، مگر اجتماعی طورپر پوری جماعت گناہ گار قرار پاتی ہے۔

(ترجمان القرآن۔ رجب65 ھ ۔ جون 46ء)