خدا کے حضور دعا میں ہاتھ اٹھانا

سوال:’’ مقامی حلقوں میں میرے خلاف بعد نماز ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے پر بہت لے دے ہو رہی ہے۔ یہاں بہت زیادہ آبادی ایک ایسے مسلک کی پیروکار ہے جن کا امتیازی شعار ہی یہ ہے کہ دعا میں ہاتھ نہ اٹھائے جائیں۔ یہ حضرات میرے خلاف اپنے اعتراض میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اُدْعُوْارَبَّکُمْ تَضَرُّعًاوَخُفْیَۃ کے ارشاد کا تقاضا یہی ہے کہ دعا میں حد درجہ اخفا برتا جائے۔ بخلاف اس کے ہاتھ اٹھانے سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ بدیں وجہ دعا میں ہاتھ اٹھانا قرآن کے منشا کے خلاف ہے۔ نیز احادیث سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ نے کبھی اس کا التزام کیا ہو۔ اب عوام کو دلائل سے تو کچھ مطلب نہیں ہوتا وہ لکیر کی فقیری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ چنانچہ مجھے صاف صاف کہہ دیا گیا ہے کہ میں ان کی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا حق نہیں رکھتا۔ اس حکم کے نافذ کرنے والوں میں بعض حضرات خوب اچھے تعلیم یافتہ بھی ہیں۔ خیر یہ جاہلیت کے کرشمے ہیں۔ مجھے صرف مذکورۃ الصدر آیت کی روشنی میں اصل مسئلے کو سمجھائے۔‘‘؟

جواب: ان حضرات سے دریافت کیجیے کہ اُدْعُوْارَبَّکُمْ تَضَرُّعًاوَخُفْیَۃ(اپنے رب کو پکارو عاجزی کے ساتھ اور چپکے چپکے) کا اگر وہی تقاضا ہے جو آپ لوگ سمجھتے ہیں تو یہ نماز کے لیے بلند آواز سے اذان، پھر اعلانیہ مسجدوں میں لوگوں کا مجتمع ہونا، پھر جماعت سے نماز پڑھنا، پھر نماز میں جہری قرات کرنا، یہ سب کچھ بھی تو پھر اس آیت کے خلاف قرار پائے گا۔ نماز اصل میں تو ایک دعا ہی ہے۔ اگر دعا کے لیے اخفا ایسا ہی لازمی ہے اظہار کی کوئی شکل اس میں ہونی ہی نہ چاہیے، تو ظاہر ہے کہ نماز باجماعت کی پوری صورت ہی اس کے خلاف ہے۔

پھر جو کچھ یہ حضرات فرماتے ہیں وہ حدیث کے بھی خلاف ہے۔ حدیث میں ہم کو نبی کریمﷺ کی یہ ہدایت ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جب دعا مانگی جائے تو ہاتھ اٹھا کر مانگی جائے اور دعا سے فارغ ہو کر چہرے پر ہاتھ مل لیے جائیں۔ابو داؤد، ترمذی اور بیہقی میں اس مضمون کی متعدد روایات موجود ہیں۔ایک حدیث میں حضرت سلمان فارسی سے روایت ہے کہ:

اِنَّ رَبَّکُمْ حَییٌ کَرِیْمٌ یَسْتَحْی مِنْ عَبْدِہٖ اِذَا رَفَعَ یَدَیْہِ اَنْ یَرُدَّھُمَا صِفْراً۔

تمہارا رب بڑا باحیا اور کریم ہے۔ بندہ جب اس کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اسے شرم آتی ہے کہ اس کو خالی ہاتھ واپس کردے۔

دوسری روایت میں حضرت عمرـ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ جب دعا مانگتے تھے تو ہاتھ اٹھا کر مانگتے تھے اور اس کے بعد اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر لیتے تھے۔ حاکم نے مستدرک میں حضرت علی کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ دعا میں ہاتھ اٹھانا اللہ کے آگے عاجزی اور مسکنت کے اظہار کے لیے ہے۔

اس میں شک نہیں کہ نبی کریمﷺ کے زمانہ میں یہ طریقہ رائج نہ تھا جو اب رائج ہے کہ نماز باجماعت کے بعد امام اور مقتدی سب مل کر دعا مانگتے ہیں۔ اس بنا پر بعض علماء نے اس طریقے کو بدعت ٹھہرایا ہے۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اگر اس کو لازم نہ سمجھ لیاجائے، اور اگر نہ کرنے والے کو ملامت نہ کی جائے اور اگر کبھی کبھی قصداً اس کو ترک بھی کر دیا جائے، تو پھر اسے بدعت قرار دینے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ خدا سے دعا مانگنا بجائے خود تو کسی حال میں برا فعل نہیں ہوسکتا۔

(ترجمان القرآن۔ ربیع الاول، جمادی الثانیہ ۶۴ ھ۔ مارچ، جون ۴۵ء)