فوٹو کا مسئلہ

سوال:’’میرے ایک فوٹو گرافر دوست کا خیال ہے کہ اسلام نے تصویر کے متعلق جو امتناعی حکم دیا ہے وہ فوٹو پر عائد نہیں ہوتا، بالخصوص جب کہ فحش منظر کا فوٹو نہ لیا جائے۔ کیا اس کو قائم رکھتے ہوئے فوٹوگرافی کو پیشہ بنایا جاسکتا ہے؟ قومی لیڈروں، جلسوں اور جلوسوں کی تصویریں لینے میں کیا حرج ہے؟‘‘

جواب: فوٹو کے متعلق اصولی بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ اسلام جاندار چیزوں کی مستقل شبیہ محفوظ کرنے کو بالعموم روکنا چاہتا ہے کیونکہ انسانی تاریخ کا طویل تجربہ ثابت کرتا ہے کہ یہ چیز اکثر فتنہ کی موجب بنی ہے۔ اب چونکہ اصل فتنہ صورت کا محفوظ ہونا ہے لہٰذا اس سے بحث نہیں کی جائے گی کہ اس کو کس طریقہ سے محفوظ کیا جاتا ہے۔طریقہ خواہ سنگ تراشی کا ہو یا موقلم یا عکاسی کا یا کوئی جو آئندہ ایجاد ہو، بہرحال وہ ناجائز ہی رہے گا۔ کیونکہ یہ سارے طریقے اصل فتنہ کا سبب بننے میں یکساں ہیں۔ پس فوٹوگرافی اور مصوری میں کوئی فرق نہیں کیا جاسکتا۔ اور ممانعت چونکہ جاندار اشیاء کی تصویروں کی ہے، اس لیے تمام تصویریں حرام رہیں گے، خواہ فحش ہوں یا غیر فحش، البتہ فحش تصویر میں ایک وجہ حرمت کی اور بڑھ جاتی ہے۔

اس عام حکم کے اندر اگر کوئی استثناء ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ جہاں تصویر لینے کا کوئی حقیقی تمدنی فائدہ ہو، یا جبکہ تصویر کسی بڑی تمدنی مصلحت کے لیے ناگزیر ہو تو صرف اس غرض کو پورا کرنے کی حد تک یہ فعل جائز ہوگا۔ مثلاً پاسپورٹ، پولیس کا مجرموں کی شناخت کے لیے تصویریں محفوظ کرنا، ڈاکٹروں کا علاج کے لیے یا فن طب کی تعلیم کے لیے مریضوں کی تصویریں لینا، اور جنگی اغراض کے لیے فوٹوگرافی کا استعمال یہ اور دوسرے استعمالات حکم عام سے مستثنٰی قرار پائیں گے، بشرطیکہ وہ غرض جس کے لیے اس استثناء سے فائدہ اٹھایا جارہا ہو، بجائے خود حلال ہو۔ لیکن لیڈروں کی تصویریں اور جلسے اور جلوسوں کی تصویریں کسی طرح بھی جائز اور حقیقی ضرورت کی تعریف میں نہیں آتیں۔ خصوصاً لیڈروں کی تصویریں تو بندگان خدا کو اس خطرہ سے بہت ہی قریب پہنچادیتی ہیں جس کی وجہ سے فوٹو کو حرام دیا گیا ہے۔ یہ کانگریس کے اجلاس میں گاندھی جی کا باون فٹ لمبا فوٹو ، پولینڈ پر روسی قبضے کے بعد اسٹالین کی تصویروں کا پولینڈ کے ایک ایک گاؤں میں درآمد کیا جانا یہ روس میں ہر جگہ اسٹالین اور پولت برو کے ارکان کی تصویروں کا لوگوں کے سروں پر مسلط رہنا اور جرمن سپاہیوں کا ہٹلر کی تصویر کو سینے سے لگائے پھرنا اور پھر ہسپتال میں مرتے وقت اس کی تصویر کو آنکھوں سے لگا کر جان دینا، یا سینما میں شاہ انگلستان کی تصویر سامنے آتے ہی لوگوں کا کھڑا ہوجانا، یہ سکّوں پر بادشاہ کی تصویر کا بطور علامت حاکمیت ثبت کیا جانا، کیا یہ سب بت پرستی کی جڑیں نہیں ہیں؟ آخر اسی لیے تو اسلام نے تصویر کو حرام کیا ہے کہ انسان کے دل و دماغ پرخدا کے سوا کسی دوسرے کی کبریائی کا نقش قائم نہ ہونے پائے۔ میں تو چھوٹے بچوں کی تصویریں لینے کو بھی اسی لیے حرام سمجھتا ہوں کہ معلوم نہیں ان بچوں میں آگے چل کر کس کو خدا بنا لیاجائے اور اس کی تصویر فتنہ کی موجب بن جائے۔ کنھیا جی کی بچپن کی تصویر آج تک پج رہی ہے۔ لہٰذا آپ اپنے دوست کو سمجھادیجیے کہ ان کا پیشہ شریعت کے نقطہ نظر سے جائز نہیں ہے۔ اگر وہ خدا کا خوف رکھتے ہیں تو بتدریج اس پیشہ کو چھوڑ کر کوئی دوسرا ذریعہ معاش تلاش کر لیں۔اور اگر یہ کام کرنا ہے تو اسے خوامخواہ حلال بنانے کی کوشش نہ کریں۔اخلاقی تنزل کا بدترین مرتبہ یہ ہے کہ آدمی جس گناہ میں مبتلا ہو اسے جھوٹی تاویلوں سے ثواب ٹھیرالے۔ اس گڑھے میں گرنے کے بعد پھر آدمی کے سنبھلنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔

سوال: ’’انٹرنس کے امتحان میں پرائیوٹ طالب علم کی حیثیت میں شرکت کے لیے درخواست کے ہمراہ فوٹو ارسال کرنا لازمی ہے۔ پھر کیا ایسی صورت میں فوٹو کھنچوانا جائز ہے؟ مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب سابق صدر جمیعت العلماءنے اس صورت کو جائز فرمایا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ فعل جائز کیونکر ہوسکتا ہے۔

جواب: اس معاملے میں مجھے مفتی مولانا کفایت اللہ صاحب کے فتوے سے اتفاق ہے۔فوٹو کھنچوانا اگر چہ ناجائز ہے لیکن جہاں کسی حقیقی تمدنی نقصان سے بچنے یا کسی حقیقی تمدنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے فوٹو کا استعمال ناگزیر ہو، وہاں صرف اس ضرورت کی حد تک ایسا کرنا جائز ہے۔ امتحانات کے سلسلے میں چونکہ یہ تجربہ ہوا ہے کہ بہت سے لوگ دھوکہ دے کر کسی دوسرے شخص کو اپنے بجائے امتحان دینے کے لیے بھیج دیتے ہیں، اس لیے درخواست کے ساتھ تصویر لگانا لازم کیا گیا ہے۔ اس ضرورت کو تصویر کے سوا کسی دوسرے طریقہ سے پورا کرنا مشکل ہے اور دھوکے اور فریب کا سدباب بھی ضروری ہے۔ لہٰذا اس مقصد کے لیے تصویر کھنچوانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اسی طرح میرے نزدیک پاسپورٹ، تفتیش جرائم، طبی تحقیقات و ضروریات، جہاد اور ناگزیر تعلیمی اغراض کے لیے بھی فن تصویر کا استعمال درست ہے۔ اصول فقہ کا متفق علیہ مسئلہ ہے کہ الضرورات تبیح المخطورات۔ یعنی انسان کی حقیقی ضروریات کے لیے وہ چیزیں جائز ہو جاتی ہیں جو بجائے خود ناجائز ہیں۔

(ترجمان القرآن۔ رجب، شعبان62ھ۔ جولائی، اگست 43ء)