غیر محرم قریبی اعزہ سے پردہ کی صورت

سوال: کیا شوہر بیوی کو کسی ایسے رشتہ دار یا عزیز کے سامنے بے پردہ آنے کے لیے مجبور کرسکتا ہے جو شرعاً بیوی کے لیے غیر محرم ہو؟ نیز یہ کہ سسرال اور میکے کے ایسے غیر محرم قریبی رشتہ دار جن سے ہمارے آج کل کے نظام معاشرت میں بالعموم عورتیں پردہ نہیں کرتیں، ان سے پردہ کرنا چاہئے یا نہیں؟ اور اگر کرنا چاہئے تو کن حدود کے ساتھ؟

جواب: شوہرکو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خدا اور رسول اللہﷺ کے احکام کی خلاف ورزی کا بیوی کو حکم دے۔ اور اگر وہ ایسا حکم دے تو ایک مسلمان عورت کا فرض ہے کہ اس کی اطاعت سے انکار کردے۔ سورہ نور کے رکوع۴ میں اللہ تعالیٰ نے ان رشتہ داروں کی فہرست دے دی ہے جن کے سامنے ایک مسلمان عورت اپنی زینت کے ساتھ آسکتی ہے۔ ان کے سوا کسی کے سامنے اظہار زینت کا حکم دینا کسی مسلمان کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔

سسرال اور میکے میں عورتوں کا عموماً جن غیر محرم قریبی رشتہ داروں کے ساتھ رہن سہن ہوتا ہے ان سے پردے کی نوعیت وہ نہیں ہے جو بالکل غیر مردوں سے پردہ کی نوعیت ہے۔ عورتیں اپنے غیر محرم رشتہ داروں کے سامنے بغیر زینت کے سادہ لباس میں، پورے ستر کے ساتھ آ سکتی ہیں، مگر صرف اس حد تک ان کے سامنے رہنا چاہئے جس حد تک معاشرتی ضروریات کے لحاظ سے ناگزیر ہو۔ یہ خلا ملا اور بے تکلفی اور ایک مجلس میں بیٹھ کر ہنسی مذاق کرنا اور تنہائی میں بیٹھنا، جس کا رواج ہماری سوسائٹی میں بڑی کثرت کے ساتھ پایا جاتا ہے، شرعی احکام کے قطعی خلاف ہے، اور بعض رشتہ داروں، مثلاً دیوروں کے ساتھ ایسے تعلقات کی تو حدیث میں صریح ممانعت موجود ہے۔

اس معاملے میں فی الواقع ہماری معاشرت میں بڑی پیچیدگی پیدا ہوگئی ہے۔ شریعت کا جو حکم ہے وہ میں نے بتادیا ہے۔ مگر مسلمانوں میں رواج سے جو غیر شرعی حالات پیدا ہوگئے ہیں ان کو دور کرنے کے لیے بڑی جرات اور عزم کی ضرورت ہے۔ ایک طرف بکثرت مسلمان غیروں سے اتنے پردے کا اہتمام کرتے ہیں جو شریعت کے مطالبات سے بڑھ جاتا ہے۔ دوسری طرف یہی لوگ رشتہ داروں کے معاملےمیں تمام حدود شرعیہ کو توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ اس معاملہ میں اگر کوئی شخص احکام شریعت پر ٹھیک ٹھیک عمل درآمد کرنا چاہے تو شاید بہت سے خاندانی تعلقات کو توڑے بغیر ایسا نہیں کرسکتا۔

(ترجمان القرآن۔ رجب، شعبان ۶۴ ھ ۔ جولائی، اگست ۴۵ء)