امانت، قرض، صلہ رحمی

سوال:(۱) امانت رکھنے اور رکھوانے والے کو کیا کیا اصول ملحوظ رکھنے چاہئیں؟

(۲) قرض حسنہ دینے اور لینے میں کن امور کا لحاظ ضروری ہے؟

(۳) صلہ رحمی کا مفہوم کیا ہے اور شریعت میں اس کی اہمیت کس حد تک ہے؟

جواب:(۱) امانت اصل میں دو آدمیوں کے درمیان باہمی اعتماد کی بنا پر ہوتی ہے۔ جو شخص کسی کے پاس کوئی امانت رکھتا ہے وہ گویا اس پر یہ اعتماد کرتا ہے کہ وہ اپنی حد استطاعت تک پوری ایمانداری کے ساتھ اس کی حفاظت کرے گا۔ اور جو شخص اس امانت کو اپنی حفاظت میں لینا قبول کرتا ہے وہ بھی امانت رکھنے والے پر یہ اعتماد کرتا ہے کہ وہ ایک جائز قسم کی امانت اس کے پاس رکھ رہا ہے، کوئی چوری کا مال یا خلاف قانون چیز نہیں رکھ رہا ہے، نہ اس امانت کے ذریعہ سے کسی قسم کا دھوکا یا فریب کر کے اسے نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ پس دونوں پر اس کے سوا کسی اور چیز کی پابندی لازم نہیں ہے کہ وہ اس اعتماد کا پورا پورا حق ادا کریں۔

(۲) قرض دینے اور لینے میں اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ حتٰی الامکان فریقین کے درمیان شرائط قرض صاف صاف طے ہوں، مدت کا تعین ہوجائے، تحریر اور شہادت ہو، جو شخص قرض دے وہ اس قرض کے دباؤ سے کسی قسم کا فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرے۔ مقروض کو احسان رکھ کر نہ ذلیل کرے اور نہ اذیت پہنچانے کی کوشش کرے۔ اور اگر مدت گزر جائے اور فی الواقع مقروض شخص قرضہ ادا کرنے کے قابل نہ ہو تو اس کو جہاں تک ممکن ہو مہلت دے اور اپنے قرض کی وصولی میں زیادہ سختی نہ کرے۔ دوسری طرف قرض لینے والے کو لازم ہے کہ جس وقت وہ قرض ادا کرنے کے قابل ہو اسی وقت ادا کردے اور جان بوجھ کر ادائے قرض میں تساہل یا ٹال مٹول نہ کرے۔

(۳) صلہ رحمی کا مفہوم رشتہ داری کے تعلق کی بنا پر ہمدردی، معاونت، حسن سلوک، خیر خواہی اور جائز حدود تک حمایت کرنا ہے۔ اس کی کوئی حد نہ مقرر ہے، نہ کی جاسکتی ہے، دراصل یہ عام معروفات میں سے ہے جنہیں لوگ خود ہی جانتے ہیں۔ اور صلہ رحمی میں کوتاہی کرنا یا قطع رحمی کرنا ان بڑے گناہوں میں سے جن کی سخت مذمت قرآن و حدیث میں کی گئی ہے۔

(ترجمان القرآن۔ جمادی الاولیٰ ۶۵ھ۔ اپریل ۴۶ء)