نمائش فقر کا مطالبہ

سوال: آپ حضرات موجودہ برسرِ اقتدار طبقہ اور امراء پر سخت تنقید کرتے ہیں اس بنا پر کہ وہ زبان سے ’’اسلام اسلام‘‘ پکارتے ہیں، عوام اور غرباء کی ہمدردی کا راگ الاپتے ہیں مگر ان کے اعمال ان کے اقوال سے سراسر مختلف ہیں لہٰذا خود آپ حضرات کے لیے تو اشد ضروری ہے کہ (جبکہ آپ ایک اسلامی سوسائٹی برپا کرنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں) آپ کے اقوال و افعال میں کامل یکسانیت ہو ورنہ آپ کی تنقید موجودہ امراء اور برسر اقتدار طبقہ پر بے معنی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اپنی جائز کمائی سے اپنے آرام و آسائش کے سامان مہیا کریں، اچھی غذائیں کھائیں، مگر کیا ایک ایسی سوسائٹی میں جہاں ہر طرف بھوک اور افلاس ہو، غریبی اور بے چارگی ہو، خصوصاً ایک داعی کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اچھے ملبوسات استعمال کرے، عمدہ غذائیں کھائے اور ایک پرتکلف زندگی گزارے؟ کیا رسول اللہﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ کی یہی روش تھی جبکہ وہ اسلامی تحریک کو پھیلانے میں مصروف تھے؟ آپ کے بعض ارکان کی ایک حد تک متعیشانہ (Luxurious) طرز زندگی کو دیکھ کر میرے اندر یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ براہِ کرم اس ذہنی خلجان کو دور کریں۔

جواب: مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے جماعت اسلامی کے کن لوگوں کو دیکھا ہے اور ان کی زندگی میں کیا چیز ان کو متعیشانہ (Luxurious) نظر آتی ہے۔ اس لیے آپ کے سوالات کا ٹھیک ٹھیک جواب دینا میرے لیے مشکل ہے جب تک کہ آپ کسی شخص کا اور اس تعیش (Luxury) کا ذکر نہ فرمائیں جو آپ نے اس کی زندگی میں دیکھا ہے۔

رہا صحابہؓ کرام اور نبی کریمﷺ کی زندگیوں کا معاملہ جن کا آپ نے حوالہ دیا ہے، تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ انہوں نے کبھی اپنی زندگی میں مصنوعی درویشی پیدا کرنے کی کوشش نہیں فرمائی، نہ محض اس غرض سے اپنے لباس، مکان خوراک کا معیار کم تر رکھا کہ دیکھنے والے ان کی فقیرانہ شان کو دیکھ کر داد دیں۔ وہ سب بالکل ایک فطری، سادہ اور معتدل زندگی بسر کرتے تھے اور جس اصول کے پابند تھے وہ صرف یہ تھا کہ شریعت کے ممنوعات سے پرہیز کریں۔ مباحات کے دائرے میں زندگی کو محدود رکھیں، رزقِ حلال حاصل کریں اور راہِ خدا کی جدوجہد میں بہرحال ثابت قدم رہیں۔ خواہ اس میں فقروفاقہ پیش آئے یا اللہ تعالیٰ کسی وقت اپنی نعمتوں سے نوازدے۔ جان بوجھ کر برا پہننا جبکہ اچھا پہننے کو جائز طریقے سے مل سکے، اور جان بوجھ کر برا کھانا جبکہ اچھی غذا حلال طریقے سے بہم پہنچ سکے، ان کا مسلک نہ تھا۔ ان میں سے جن بزرگوں کو راہ خدا میں جدوجہد کرنے کے ساتھ حلال روزی فراخی کے ساتھ مل جاتی تھی، وہ اچھا کھاتے بھی تھے، اچھا پہنتے بھی تھے اور پختہ مکانوں میں بھی رہتے تھے۔ خوشحال آدمیوں کا قصداً بدحال بن کر رہنا نبیﷺ نے کبھی پسند نہیں فرمایا، بلکہ آپﷺ نے خود ان کو یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ اپنی نعمت کا اثر تمہارے لباس اور کھانے اور سواری میں دیکھنا پسند کرتا ہے۔

میری سمجھ میں کبھی ان لوگوں کی ذہنیت نہیں آسکی جو خود اپنے لیے تو اللہ تعالیٰ کی ساری نعمتوں کو مباح سمجھتے ہیں اور دوسرے کسی شخص کا بھی اچھا کھانا اور اچھا پہننا ان کی نگاہوں میں نہیں کھٹکتا، مگر جہاں کسی نے اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کا نام لیا، پھر اس کا سادہ لباس اور سادہ کھانا اور معمولی درجے کا مکان اور فرنیچر بھی ان کی نگاہوں میں کھٹکنے لگتا ہے اور ان کا دل یہ چاہنے لگتا ہے کہ ایسے شخص کو زیادہ سے زیادہ بدحال دیکھیں۔ شاید یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں صرف انہی لوگوں کے لیے ہیں جو خدا تعالیٰ کا کام کرنے کی بجائے اپنا کام کرتے ہیں۔ رہے خدا کا کام کرنے والے، تو وہ خدا کی کسی نعمت کے مستحق نہیں ہیں یا پھر شاید ان کے دماغوں پر راہبوں اور سنیاسیوں کی زندگی کا سکہ بیٹھا ہوا ہے اور وہ دین داری کے ساتھ رہبانیت کو لازم و ملزوم سمجھتے ہیں، اس لیے کھاتا پیتا دین دار ان کو ایک عجوبہ نظر آتا ہے۔

اگرچہ جماعت کے بہت سے لوگ اس ذہنیت کے اعتراضات کے ہدف بنے رہتے ہیں، لیکن سب سے بڑھ کر میری ذات ان کا نشانہ بنتی ہے۔ حالانکہ میرا نقطہ نظر اس معاملے میں معترضین کے نقطہ نظر سے بالکل مختلف ہے۔ میرے نزدیک ہر وہ جائز سہولت جو آدمی کو دین کا کام بہتر اور زیادہ مقدار میں انجام دینے کے قابل بنائے، نہ صرف جائز ہے بلکہ اس سے فائدہ اٹھانا افضل ہے اور اسے ترک کردینا نہ صرف ایک حماقت ہے بلکہ اگر اظہار درویشی کی نیت سے ہو تو ریاکاری بھی ہے۔ آپ خود غور کریں کہ ایک شخص اگر ایک موٹر استعمال کرکے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام کرسکتا ہو تو کیوں اسے استعمال نہ کرے؟ اگر وہ سیکنڈ کلاس میں آرام سے سفر کرکے دوسرے دن اپنی منزلِ مقصود پر پہنچتے ہی اپنا کام شروع کرسکتا ہو تو وہ کیوں تھرڈ کلاس میں رات بھر کی بے آرامی مول لے اور دوسرا دن کام میں صرف کرنے کی بجائے تکان دور کرنے میں صرف کردے؟ اگر وہ گرمی میں بجلی کا پنکھا استعمال کرکے زیادہ دماغی کام کرسکتا ہو تو وہ کیوں پسینے میں شرابور ہو کر اپنی قوت کار کا بڑا حصہ ضائع کردے؟ کیا ان سہولتوں کو وہ اس لیے چھوڑ دے کہ خدا کی یہ نعمتیں صرف شیطان کا کام کرنے والوں کے لیے ہیں، خدا کا کام کرنے والوں کے لیے نہیں ہیں؟ کیا انہیں جائز ذرائع سے فراہم کرنے کی قدرت رکھتے ہوئے بھی خواہ مخواہ چھوڑدینا اور کام کے نقصان کو گوارہ کرلینا حماقت نہیں ہے؟ کیا معترضین کا مطلب یہ ہے کہ شیطان کے سپاہی ہوائی جہاز پر چلیں اور خدا کے سپاہی ان کا مقابلہ چھکڑوں پر چل کر کریں؟ کیا وہ چاہتے ہیں کہ کام ہو یا نہ ہو، ہم صرف ان کا دل خوش کرنے کے لیے اپنے آپ کو فقیر بنا کر دکھاتے پھریں۔

(ترجمان القرآن۔ رجب، شعبان ۱۳۷۱ھ ، اپریل، مئی ۱۹۵۲ء)