چند دلچسپ سوالات

سوال: ’’حسب ذیل استفسارات پر روشنی ڈال کر بے پایاں شکریہ کا موقع دیں:

۱۔ اگر آپ کی جماعت پاکستان میں نہ آجاتی تو تحریک اسلامی کے ظہور پذیر ہونے یا بڑھنے کے امکانات کا خاتمہ ہوجاتا۔ کیا آپ اس خیال سے متفق ہیں؟

۲۔ پنچائتی نظام اگر کسی جماعت کے امیر کو ’’صالح‘‘ نمائندہ تجویز نہیں کرسکتا تو اس جماعت کے افراد کیوں کر صالح قرار دیے جا سکتے ہیں؟

۳۔ ایک شیعہ (جوخلفائے ثلاثہ کی حکومت کو غیر اسلامی قرار دیتا ہے) اپنے عقیدہ پر قائم رہتے ہوئے آپ کی تحریک میں شامل ہوسکتا ہے یا نہیں؟

۴۔ کیا ایک صالح نمائندہ اپنے حق میں ووٹ ڈال سکتا ہے۔ شرعی دلیل کیا ہے؟

۵۔ آپ کے تجویز کردہ نظام پنچائیت میں اسمبلی سے باہر اور اندر حلقوں اور عہدوں کی بھر مار اور سر جوڑ کر بیٹھنے کا طریق خلافت راشدہ کے زمانے میں موجود تھا؟ یا خلیفہ وقت عوام کے لیے از خود نمائندے نامزد کرتا تھا؟

۶۔ ہندوستان میں کفر و ارتداد کی مہم تیز ہے۔ کیا ان حالات میں پاکستان کا فرض نہیں کہ وہ بزور شمشیر ہندوستان پر قابض ہو کر آپ کی صالحانہ قیادت کی روشنی میں اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لے آئے؟ اس صورت میں کیا موجودہ مالی اور اقتصادی معاملات اسلامی علم بلند کرنے کے راستے میں کبھی روک تو ثابت نہیں ہوسکتے؟

۷۔ آپ وحی و الہام کے مدعی نہیں ہیں بلکہ ریاست اسلامیہ میں آپ کے لحاظ سے اب وحی و الہام کی گنجائش تک باقی نہیں ہے۔ ان حالات میں آپ محض چند دلائل سے خود کیوں کر مطمئن ہیں کہ آپ کی تحریک ہی صحیح معنوں میں دین کے مزاج کے مطابق ہے اور انقلاب قیادت کا حقیقی تصور آپ کی جماعت کے بغیر نہیں مل سکتا؟ ممکن ہے دوسری جماعتیں صحیح مسلک پر قائم ہوں اور آپ کی ساری بنیاد غلط فہمی پر مبنی ہو۔

جواب: آپ کے سوالات کا انداز دیکھ کر طبیعت نے کچھ انقباض محسوس کیا تھا مگر جب اس مقام کا نام پڑھا جہاں سے یہ خط آپ تحریر فرما رہے ہیں تو اتنی معقولیت اور متانت بھی غنیمت نظر آئی جو آپ کے استفسارات میں پائی جاتی ہے۔ خدا کرے کہ اس میں کچھ اور اضافہ ہو۔

آپ کے سوالات کا مختصر جواب حسب ذیل ہے،

۱۔ جماعتِ اسلامی، پاکستان میں کہیں سے آئی نہیں بلکہ یہاں پہلے سے موجود تھی، البتہ اس کا مرکز یہاں ضرور منتقل ہوا ہے۔ جس طرح متعدد دوسری جماعتوں کے مرکز منتقل ہوئے ہیں۔ ہمیں ایسا کوئی دعویٰ نہیں ہے کہ اس جماعت کے بغیر یہاں تحریک اسلامی کے ظہور پذیر ہونے یا بڑھنے کے امکانات کا خاتمہ ہوجاتا۔ ہم جو کچھ سمجھتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اس مملکت کو عملاً اسلامی مملکت بنانے کے لیے ایک ایسی تحریک اور جماعت کا موجود ہونا ضروری ہے جو پہلے سے منظم اور طاقتور ہوچکی ہو اور الحمد للہ کہ اس ضرورت کو جماعتِ اسلامی نے بڑی حد تک پورا کردیا ہے۔ اگر یہ جماعت پہلے سے منظم نہ ہوچکی ہوتی تو اس امر کی توقع بہت کم تھی کہ فسق و ضلالت کی طاقتیں یہاں نئے سرے سے کسی ایسی تحریک کو اٹھنے اور کسی ایسی جماعت کو منظم ہونے کا موقع دیتیں جو پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا چاہتی ہو۔

۲۔ کیا آپ کو کسی کے ذریعہ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ’’کسی جماعت‘‘ کے امیر کا نام کسی پنچائیت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا یا کیا گیا تھا اور اسے غیر صالح قرار دے کر رد کر دیا گیا تھا؟ اگر ایسی کوئی اطلاع آپ کو ایسی پہنچی ہوتو ضرور مجھے بھی مستفید فرمائیں اور اگر یہ محض ایک قیاس آرائی ہے جو آپ نے اپنی جگہ بیٹھ کر فرمائی ہے تو آپ کو مجھ سے سوال کرنے کی بجائے اپنے انداز فکر کی اصلاح کرنی چاہیے۔ علم و واقفیت کے بغیر آپ کا اس طرح کے قیاسات قائم کرنا بجائے خود ہی کوئی بھلا کام نہ تھا، کجا کہ آپ خود اس شخص کے سامنے اپنے اس قیاس کو پیش کر رہے ہیں جسے حقیقت حال معلوم ہے۔

۳۔ جماعتِ اسلامی کا عقیدہ اور نصب العین جماعت کے دستور میں لکھ دیا گیا ہے۔ ہر وہ شخص جو اس عقیدے اور نصب العین کو قبول کرکے نظم جماعت کی پابندی کرے، جماعت میں داخل ہوسکتا ہے۔

۴۔ ایک صالح نمائندے کا خود اپنے حق میں ووٹ ڈالنا اسلامی نقطہ نظر سے کوئی پسندیدہ کام نہیں ہے۔ مگر موجودہ زمانے کے الیکشن میں حصہ لے کر آدمی کو جن مکروہات میں چارو ناچار مبتلا ہونا پڑتا ہے، یہ بھی انہی میں سے ایک ہے اور اس طرح کے مکروہات کی حیثیت اتنی شدید بھی نہیں ہے کہ ان کی وجہ سے انتخابات جیسے اہم کام سے علیحدہ رہنا درست سمجھا جائے۔

۵۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ ہمارے تجویز کردہ پنچائتی نظام میں حلقوں اور عہدوں کی بھر مار کہاں ہے؟ ہم صرف ایک عہد ان لوگوں سے لیتے ہیں جبکہ انہیں پنچائیت میں چن لیا جاتا ہے۔ اس پر لفظ ’’بھرمار‘‘ کا اطلاق کیسے ہوسکتا ہے۔ خلافت راشدہ میں کسی طریقہ کا موجود نہ ہونا اس کے ناجائز یا غیر اسلامی ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ آپ کے پاس اس طریقے کے ناجائز ہونے کی کوئی دلیل ہوتو ارشاد فرمائیں۔ خلفائے راشدین کو اگر ایک جائز کام کی ضرورت پیش نہیں آتی تو انہوں نے اسے نہیں کیا۔ ہمیں ضرورت پیش آئی ہے تو ہم اسے کرسکتے ہیں۔

آپ کا یہ سوال بالکل عجیب ہے کہ کیا سر جوڑ کر بیٹھنے کا طریق خلافت راشدہ کے زمانے میں موجود تھا۔ آپ اس سوال پر ذرا دوبارہ غور فرمائیں، کیا یہ واقعی پوچھنے کے قابل سوال تھا؟

آپ کا یہ ارشاد کہ خلیفہ وقت از خود عوام کے لیے نمائندے نامزد کردیتا تھا، تاریخ کے ناقص مطالعہ کا نتیجہ ہے۔ اس زمانے میں قبائلی نظام موجود تھا۔ شیوخ قبائل آپ سے آپ قبیلے کے نمائندے ہوتے تھے۔ اگر الیکشن بھی ہوتا تو وہی لوگ چنے جاتے ۔ اس لیے خلفا انہی حضرات کو مشورے کے لیے طلب کرلیا کرتے تھے۔

۶۔ پاکستان کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ خود اپنی حدود میں اسلامی احکام کا اجراء اور ضلالت و ارتداد کی تحریک کا استیصال کرے۔ اس کے بعد یہ فرض کہ وہ کسی دوسرے ملک کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے پہنچے، طاقت کی شرط کے ساتھ مشروط ہے۔ طاقت ہے تو ایسا ضرور کرنا چاہیے، نہ ہو تو ایسا کرنا فرض نہیں ہے۔ کسی کافر حکومت سے، خواہ وہ اسلام دشمن ہی کیوں نہ ہو، کسی مسلم مملکت کا حسب ضرورت معاہدہ کرنا بھی ممنوع نہیں ہے، اگر یہ ممنوع ہوتا تو نبی ﷺ صلح حدیبیہ کیوں کرتے؟

۷۔ قرآن و حدیث جو شاید آپ کے نزدیک ’’محض چند دلائل‘‘ کی تعریف میں داخل ہیں اور ایک مسلمان کے اطمینان کے لیے کافی نہیں ہیں، میں ان ہی کے مطالعہ سے مطمئن ہوں کہ جماعت اسلامی کی تحریک دین اسلام کے مزاج کے مطابق ہے اور اگر ہم اس تحریک کے تقاضوں کے مطابق صحیح کام کریں تو یقیناً اس کے ذریعے صالح قیادت قائم ہوسکتی ہے۔ دوسری جماعتوں کے بارے میں میری جو رائے ہے، آپ چاہیں تو اسے غلط فہمی خیال کرلیں۔ مگر میں دلائل کی بنا پر رائے قائم کرتا ہوں اور دلائل ہی کی بنا پر اپنی رائے سے ہٹ سکتاہوں۔

وحی میرے نزدیک اب نہیں آسکتی۔ رہا الہام، تو وہ ضروری نہیں ہے۔ ہو تو اچھا ہے، نہ ہو تو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ ہماری رہنمائی کے لیے بالکل کافی ہے۔

(ترجمان القرآن۔ شعبان ۱۳۷۰ھ، جون ۱۹۵۱ء)