رشوت وخیانت کے متعلق چند مزید مسائل

سوال: رشوت و خیانت کے متعلق ترجمان القرآن کے ایک گزشتہ پرچہ میں رسائل و مسائل کے زیر عنوان آپ نے جن مسائل پر بحث کی ہے انہیں کے متعلق چند مزید سوالات مجھے درپیش ہیں۔ امید ہے کہ آپ ان کے مدلل جوابات سے میرے اور میرے بعض رفقاء کے شبہات کو دور فرما دیں گے۔

سوالات حسب ذیل ہیں:

(۱) ایسے افسروں کو ٹی پارٹیاں دینا بھی کیا رشوت میں شمار ہوگا جن کو حکومت کسی ایک فرد یا جماعت کے کام کی جانچ پڑتال کے لیے وقتی طور پر مقرر کرتی ہے؟یہ لوگ تو غالباً اصطلاحی افسر کی حیثیت نہیں رکھتے، پھر ان کی خاطر و مدارات میں کیا حرج ہے؟

(۲) ایک گروہ کثیر کا خیال ہے کہ موجودہ انگریزی گورنمنٹ کا مال، بالخصوص وہ مال جو پبلک کے مفاد پر صرف نہیں ہوتا بلکہ اسے گورنمنٹ اپنے مفاد اور تحفظ پر صرف کرتی ہے، جس صورت میں لیا جاسکے لے لینا جائز ہے۔یعنی خیانتاً یا بذریعہ رشوت وغیرہ۔اس پر دلیل یہ لائی جاتی ہے کہ سود جس کا لینا قطعی حرام ہے، اعاظم علماء کے فتووں کے مطابق سرکاری بنک سے وصول کر لینا نہ صرف جائزبلکہ ضروری ہے۔ کیونکہ اگر اسے بنک میں چھوڑا جائے تو عیسائی مشنریوں کی وساطت سے وہ خود اسلام کے خلاف استعمال ہوگا۔ پھر فرمایئے کہ وہ جو کسی غلط نظام حکومت کے استحکام میں صرف ہوتا ہے اور جس کے متعلق یہ بھی ظاہر ہے کہ گورنمنٹ کا اپنا نہیں ہے بلکہ رعایا ہی سے بطور غصب لیا گیا ہے، کیوں نہ اسے ہر ذریعہ سے واپس حاصل کیا جائے؟

جواب: آپ نے جو سوالات کیے ہیں ان کا جواب دینے سے پہلے اصولی طور پر یہ بات ذہن نشین کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم جو حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی تمیز پر زور دیتے ہیں اور لوگوں کو اپنی اخلاقی ذمہ داریاں سمجھنے اور انہیں ملحوظ رکھنے کی تاکید کرتے ہیں، اس سے ہماری غرض ہر گز یہ نہیں ہے کہ موجودہ نظام باطل کو ایک ایسی پرہیز گار رعایا فراہم کرکے دیں جو ان کے لیے کم سے کم حد تک وجہ پریشانی ہو۔درحقیقت اس نظام باطل کے طبعی اور لازمی ثمرات یہی ہیں کہ لوگ اخلاقی ذمہ داریوں سے بے پروا اور اپنی خواہشات و ضروریات کو پورا کرنے میں قانون کی گرفت کے سوا ہر دوسری قید سے آزاد ہوں۔ ملازموں کا رشوت خوار اور خائن ہونا اور رعیت کا وسیع معنوں میں چور ہونا اس نظام کا لازمی نتیجہ ہے۔ اس نظام نے انہی صفت کی تخم ریزی کی ہے اور یہ نظام اس کا مستحق ہے کہ اس کے لیے یہی ثمرات اس کی تخم ریزی کے نتیجہ میں پیدا ہوں۔ ظاہر ہے کہ خائنوں، چوروں اور بد اخلاق لوگوں کی قیادت میں پاکیزہ اخلاق رکھنے والے لوگ تو پرورش نہیں پاسکتے۔ پس اخلاق کی گفتگو سے ہماری غرض یہ ہر گز نہیں ہے کہ ان بد سیرت اور بد کردار کارفرماؤں کو ان کی کشت خبیث کے زہریلے ثمرات سے بچائیں اور صالح ثمرات ان کے لیے فراہم کریں۔ ہمیں جو کچھ فکر ہے وہ دراصل خود اپنے اخلاق اور سیرت و کردار کی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس نظام کے برے اثرات سے اپنے بھائیوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو بچائیں اور ان کے اندر ان اعلیٰ در جےکے اخلاق کو نشوونما دیں جن کی بدولت وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں موجودہ بد عمل کارکنوں اور کار فرماؤں کی بہ نسبت صالح تر ٹھہریں اور اللہ تعالیٰ دنیا کی قیادت کے لیے ان کی بہ نسبت ان کو اہل تر قرار دے۔ اس غرض کے لیے ہم ان برائیوں سے بھی لوگوں کو بچنے کا مشورہ دیتے ہیں، جن کا ارتکاب اگرچہ موجودہ نظام کے مقابلہ میں کوئی برائی نہیں ہے بلکہ شاید بھلائی کی تعریف میں آسکتا ہے۔ مگر وہ بجائے خود اخلاق اور شریعت کی نگاہ میں مذموم ہیں۔

اب میں سلسلہ وار آپ کے سوالات کے جوابات عرض کرتا ہوں:

۱۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں، خواہ سرکاری ملازموں کے اپنے مستقل افسر ہوں یا کسی دوسرے محکمہ کے لوگ ہوں جنہیں ان کے کام کی جانچ پڑتال وغیرہ کے لیے مقرر کیا جاتا ہے، ان کے ساتھ مخلصانہ محبت اور شخصی عقیدت و گرویدگی کا تعلق ان کے دلوں میں شاید ایک فی ہزار حالات میں بھی نہیں ہوتا۔ اگر ان سے مفاد وابستہ نہ ہوں تو غالباً کوئی شخص بھی ان کی خاطرومدارت کا خیال تک نہ کرے۔ یہ دعوتیں اور ٹی پارٹیاں سب اس غرض سے ہوتی ہیں کہ ان کے ذریعہ سے کوئی فائدہ، کوئی رعایت یا کم از کم چشم پوشی حاصل کی جائے۔ اس لیے فی الحقیقت یہ بھی اسی طرح رشوت کی تعریف میں آتی ہیں جس طرح عام اور معروف رشوت۔ لیکن جیسا کہ میں نے اوپراپنی اصولی توضیح میں بیان کیا ہے، موجودہ غیر اسلامی حکومت میں اس کے خلاف ہمیں جو کچھ بھی اعتراض ہو، اس بنیاد پر ہے کہ ایسی پارٹیوں کے دینے اور قبول کرنے سے ہمارے اپنے بھائیوں میں ناجائز ذرائع سے کام نکالنے اور لوگوں سے ناجائز فائدے اٹھانے کی بیماری پرورش پاتی ہے ورنہ یہ سارا نظام توحرام سے بنتا، حرام کھاتا اور حرام ہی اگلتا ہے۔

۲۔ اس سوال کو جس طریقہ سے آپ نے پیش کیا ہے اس میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ آپ یا جن لوگوں کا نقطہ نظر یہ ہے، صرف اس پہلو کو مدنظر رکھتے ہیں کہ ایک فریق کے پاس مال کس نوعیت کا ہے، مگر اس پہلو کو پیش نظر نہیں رکھتے کہ دوسرا فریق اس کو حاصل کس حق کی بنا پر کرتا ہے۔ فرض کیجیے کہ ایک شخص کے متعلق مجھے معلوم ہے کہ وہ چور ہے اور اس کے پاس سارا مال چوری کا ہے پھر کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ میرے لیے اس کے ہاں چوری کرنا یا اس کی جیب کترلینا جائز ہے؟ اس میں شک نہیں کہ اگر متعین طور پر مجھے معلوم ہو کہ اس کے قبضہ میں فلاں مخصوص چیز میرے مملوکہ مال سے چرائی ہوئی ہے اور پھر میں کسی وقت اسے حاصل کرلینے پر اپنے آپ کو قادر پاؤں تو میرے لیے اس کا حاصل کرلینا جائز ہوگا۔ لیکن یہ عام مفروضہ ہے صحیح نہیں ہے کہ چور کے مقبوضہ مال کو چرالینا بہرحال ہر شخص کے لیے حلال ہے۔

سود کی جو مثال آپ نے دی ہے وہ یہاں اس لیے منطبق نہیں ہوتی کہ سود ہم بینکر سے چھینتے یا چراتے نہیں ہیں بلکہ وہ خود اپنے قاعدہ کے مطابق اسے نکالتا ہے اور ہم اس لیے مجبوراً اسے لے لیتے ہیں کہ اسے چھوڑنا ڈاکو کے اسلحہ خانہ میں چند اور تلواروں کا چھوڑنا ہے تاکہ وہ ان سے مظلوموں کو ذبح کرنے میں اور زیادہ مدد لے پھر اس سود کو بھی وصول کرکے خود اپنے استعمال میں لانا حلال نہیں ہے بلکہ اسے نادار طبقوں میں تقسیم کردینا چاہئے، اس لیے کہ یہ سارا سود دراصل ان غریبوں ہی کی جیب سے آتا ہے جو کسی دوسرے پر اس بلا کو پھینک دینے کی قدرت نہیں رکھتے۔

یہاں پھر یہ سمجھ لیجیے کہ ہم حکومت کے اموال پر دست درازی کی مخالفت اس لیے نہیں کرتے کہ یہ حکومت کسی ایماندارانہ برتاؤ کی مستحق ہے، بلکہ صرف اس لیے کرتے ہیں کہ خود ہمارے اندر استحقاق کے بغیر فائدہ اٹھانے کی بیماری پرورش نہ پائے۔

(ترجمان القرآن۔ ربیع الاول و آخر ۶۳ھ مارچ، اپریل ۴۴ء)