ریاست اور حکومت کا فرق

سوال: پاکستان کے نظامِ حکومت کی شرعی پوزیشن (قرارداد مقاصد کے زیر اثر) جو کچھ قرار پائی ہے اس کے بارے میں اور ریاست و حکومت میں آپ جو فرق کرتے ہیں اس کے بارے میں میرے دل میں کھٹک ہے۔ خود آپ ہی کے الفاظ نے اس مسئلے کو میرے لیے پیچیدہ بنادیا ہے۔ اسٹیٹ کی تعریف آپ نے یوں کی ہے:

’’لفظ اسٹیٹ، جس کا مترادف ہماری زبان میں ریاست ہے، علم و السیاست کی اصطلاح میں اس نظام کو کہتے ہیں جو ایک متعین رقبہ زمین میں رہنے والی آبادی کو قاہرانہ طاقت سے ضبط میں رکھتا ہو۔‘‘ (سیاسی کشمکش حصہ دوم صفحہ 100)

اگر اسٹیٹ سے مراد وہ نظام ہو جو قاہرانہ طاقت کے ذریعے نافذ ہو تو پھر اسٹیٹ کی وفاداری کا مطلب تو یہ ہوگا کہ ہم اس مروجہ نظام کے وفادار ہیں جو اس وقت ۱۹۴۵ء کے ایک کے نام سے ہم پر مسلط ہے۔ کیا اس قسم کی تفریق قرون اولیٰ میں بھی پائی گئی ہے؟

جواب: ریاست اور حکومت کے فرق کو آپ مسجد اور متولی کی مثال سے بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ ایک محلے کے مسلمان اگر اپنی کسی عمارت کے متعلق فیصلہ کرلیں کہ اسے مسجد بنانا ہے اور اس غرض کے لیے اسے وقف کردیں تو وہ مسجد بن جائے گی۔ اب اگر اس عمارت کی ساخت مسجد کے لیے مناسب نہیں ہے اور واقفین اسے مسجد کے طور پر تعمیر کرنے کا ارادہ کرچکے ہوں تو جب تک اس کے طرزِ تعمیر میں عملاً تغیر نہ ہو وہ عمارت اپنی پہلی ساکھ پر رہے گی۔ لیکن یہ صورتحال اس کو مسجد ہونے کے حکم سے خارج نہ کردے گی۔ اس مسجد کا انتظام اہلِ محلہ جس متولی کے سپرد کردیں گے وہ اس کے نظم و نسق کو عملاً چلائے گا۔ اب اگر وہ اپنی خود رائی سے اہلِ محلہ کی منشاء کے خلاف اس مسجد میں ایسے کام کرنے لگے جو مسجد میں نہیں ہونے چاہئیں تو یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ یہاں چونکہ مسجد کا سا کوئی کام نہیں ہورہا اس لیے یہ عمارت مسجد نہیں ہے بلکہ زیادہ صحیح یہ کہنا ہوگا کہ چونکہ یہ متولی اس عمارت میں آدابِ مسجد کے خلاف کام کررہا ہے اس لیے یا تو اسے درست کرنا چاہیے یا ہٹادینا چاہیے۔

علیٰ ہذا القیاس جب اس ملک کے باشندوں نے اپنی آئینی زبان سے اس عمل کا اعلان کردیا ہے کہ ان کی قومی ریاست الہٰی احکام و ہدایت کے تابع ہوگی تو یہ ایک اسلامی ریاست بن گئی اور اس کی وفاداری ہم پر فرض ہوگئی۔ اگر اس کی ساخت ابھی تک ۱۹۴۵ء کے نقشے پر ہے تو یہ چیز اس کو اسلامی ریاست ہونے سے خارج نہیں کردیتی۔ کیونکہ ہم اس کی ساخت بدلنے کا فیصلہ کرچکے ہیں اور جب تک یہ فیصلہ عملی جامہ نہ پہنے، ساخت کا برقرار رہنا ایک عملی مجبوری ہے۔ مسجد کے متولی کی طرح اس ریاست کا انتظام کرنے والی حکومت اگر غلط طریقے سے انتظام کررہی ہے تو اس وجہ سے اس ریاست کو غیراسلامی قرار دینے کی بجائے ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ یہ حکومت ایک اسلامی ریاست کے انتظام کے لیے موزوں نہیں ہے۔ لہٰذا س کو درست کرنا چاہیے یا بدل دینا چاہیے۔

(ترجمان القرآن ذی الحجہ ۱۳۶۹، اکتوبر ۱۹۵۰ء)