ایک گمنام خط کا جواب

سوال: میں نے ایک دوشیزہ کو لالچ دیا کہ میں اس سے شادی کروں گا پھر اس کے ساتھ خلاف اخلاق تعلقات رکھے۔ میں نہایت دیانت داری کے ساتھ اس سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اس لڑکی کے خاندان کی عام عورتیں زانیہ اور بدکار ہیں۔ یہاں تک کہ اس کی ماں بھی۔ اب مجھے خوف ہے کہ اگر میں اس لڑکی سے شادی کرلوں تو وہ بھی بدچلن ثابت نہ ہو۔ ترجمان القرآن کے ذریعے سے مطلع کیجیے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟

جواب: یہ ایک گمنام خط ہے جو ہمیں حال میں موصول ہوا ہے۔ عموماً گمنام خطوط جواب کے مستحق نہیں ہوا کرتے۔ لیکن اس کا جواب اس لیے دیا جارہا ہے کہ ہماری بدقسمت سوسائٹی میں بہت سے ایسے نوجوان ہیں جن کے اندر سائل کی سی ذہنیت پائی جاتی ہے خودبدکار ہیں مگر شادی کے لیے کوئی ایسی لڑکی چاہتے ہیں جو عفیفہ ہو۔ جس ظرف کو انہوں نے خود گندہ کیاہے، اسے دوسروں کے لیے چھوڑدیتے ہیں اور اپنے لیے کوئی ایسا ظرف تلاش کرتے ہیں جسے کسی نے گندہ نہ کیا ہو۔

جناب سائل سے گزارش ہے کہ جس لڑکی کو آپ نے خود شادی سے پہلے خراب کیا ہے، اس کے لیے اب آپ سے زیادہ موزوں کون ہوسکتا ہے؟ اور وہ آپ سے زیادہ اور کس کے لیے موزوں ہوسکتی ہے؟ آپ کو اپنے لیے نیک چلن لڑکی کیوں درکار ہے جبکہ آپ خود بدچلن ہیں۔ جب اس لڑکی نے شادی سے پہلے اپنے جسم کو آپ کو حوالے کیا تھا، کیا اسی وقت آپ کو یہ معلوم نہ ہوگیا تھا کہ وہ بدچلن ہے پھرآپ کو اب یہ اندیشہ کیو ں لاحق ہوا کہ آگے چل کر وہ کہیں بدچلن ثابت نہ ہو؟ کیا آپ کا مطلب یہ ہے آپ سے ملوث ہونا تو نیک نیتی ہے اور بدچلنی صرف دوسروں سے ملوث ہونے کا نام ہے؟ پھر اس کے خاندان کی عورتوں پر آپ کا اعتراض بھی عجیب ہے۔ وہ خواتین کرام جیسی کچھ بھی ہیں، اسی لیے ہیں کہ آپ جیسے معزز اصحاب سے ان کو سابقہ پیش آتا رہتا ہے۔ آپ اگر اس راہ پر بعد میں آئے ہیں تو آخر اپنے پیش روؤں کے انجام دیے ہوئے کارناموں سے اس درجہ نفرت کیوں ظاہر فرماتے ہیں؟ برا نہ مانیے، آپ دانستہ یا نا دانستہ ٹھیک خاندان میں پہنچ گئے ہیں جس کے لیے آپ موزوں تر ہیں اور جو آپ کے لیے موزوں تر ہے۔ کسی دوسرے پاکیزہ خاندان کو خراب کرنے کی بجائے بہتر یہی ہے کہ آپ اسی خاندان میں ٹھہر جائیں جس کو آپ جیسے لوگ پہلے خراب کرچکے ہیں اور جسے خراب کرنے میں آپ کا حصہ بھی شامل ہے۔ آخر میں محترم سائل کو قرآن مجید کی دو آیتیں بھی سن لینی چاہئیں، پہلی آیت یہ ہے:

الزَّانِي لَا يَنكِحُ إلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ (النور۔3)

“زانی مرد نکاح نہیں کرتا مگر ایک زانیہ یا مشرکہ عورت سے، اور زانیہ عورت سے نکاح نہیں کیا کرتا مگر ایک زانی اور مشرک اور ایسا کرنا مومنین پر حرام ہے”

اس آیت میں ‘نکاح نہیں کیا کرتا’ سے مطلب یہ ہے کہ زانی مرد اس لائق نہیں ہے کہ اس کا نکاح زانیہ یا مشرکہ کے سوا کسی اور سے ہو، اور زانیہ عورت کے لیے اگر کوئی شخص موزوں ہے تو زانی یا مشرک مرد، نہ کہ کوئی مومن صالح۔ دوسری آیت یہ ہے:

الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ(النور۔24)

“بدکار عورتیں بدکار مردوں کے لیے ہیں اور بدکار مرد بدکار عورتوں کے لیے، اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے۔”

(ترجمان القرآن- ربیع الاول۔ ربیع الثانی 1370ھ، جنوری، فروری 1951ء)