توبہ اور کفارہ

سوال: میں نے ایسے ماحول میں پرورش پائی ہے جہاں اٹھنے بیٹھنے کے آداب سے لے کر زندگی کے بڑے مسائل تک ہر بات میں شریعت کی پابندی ہوتی رہی ہے اور میں اب کالج میں تعلیم پا رہا ہوں۔ ماحول کی اس اچانک تبدیلی سے میں عجیب کشمکش میں مبتلا ہوگیا ہوں۔ بعض غیر اسلامی حرکات مجھ سے سرزد ہوگئی ہیں۔ جب کبھی ایسی کوئی حرکت ہوئی، ضمیر نے ملامت کی اور اللہ تعالیٰ سے عفو کا طالب ہوا۔ مگر پھر برے اثرات ڈالنے والوں کے اصرار اور شیطانی غلبہ سے اس حرکات کا مرتکب ہوگیا۔ اس طرح بار بار توبہ کرکے اسے توڑ چکا ہوں۔ اب اگر چہ اپنی حد تک میں نے اپنی اصلاح کرلی ہے اور بظاہر توقع نہیں کہ میں پھر اس گناہ میں مبتلا ہوں گا، لیکن یہ خیال با ر بار ستاتا ہے کہ کیا میرے وہ گناہ معاف ہوجائیں گے جو میں نے توبہ توڑ کر کیے ہیں؟ نیز یہ بتائیں کہ توبہ توڑنے کا کفارہ کیا ہے؟ اور یہ کہ توبہ شکنی کا علاج کیاہے؟

جواب: گناہ کا علاج توبہ و اصلاح ہے۔ توبہ کرکے آدمی خواہ کتنی بار توڑ دے، اسے پھر توبہ کرنی چاہیے اور نئے سرے سے اصلاح کی کوشش کردینی چاہیے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی پہاڑی راستے پر چلتے ہوئے بار بار پھسل جائے۔ ظاہر ہے کہ اس کے اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کی صورت یہ ہے کہ وہ خواہ کتنی ہی بار پھسلے، ہر بار اسے گر کر پھر اٹھنے اور چڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جو شخص پھسل کر پھر نہ اٹھے اور ہمت ہار کر وہیں پڑا رہ جائے، جہاں وہ گر گیا ہے، وہ کبھی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا۔ اسی طرح اخلاقی بلندی پر چڑھنے والا اگر ہر لغزش پر سنبھل جائے اور راہ راست پر ثابت قدم رہنے کی کوشش جاری رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کی لغزشوں پر گرفت نہ فرمائے گا اور اس کو فائز المرام ہونے سے محروم نہ رکھے گا۔ البتہ گناہ کرکے جو لوگ گناہ گاری کے مقام پرپڑے ہی رہ جائیں، وہ ضرور برا انجام دیکھیں گے۔

آپ کے قلب میں اپنی لغزشوں پر ندامت و شرمساری کا احساس تو ضرور رہنا چاہیے اور عمر بھر اپنے رب سے معافی بھی ضرور مانگتے رہنا چاہیے لیکن یہ شرمساری کبھی آپ کو اپنے رب کی رحمت سے مایوس نہ کرنے پائے۔ کیوں کہ اس طرح کی مایوسی اللہ تعالیٰ سے بدگمانی ہے، اور اس میں یہ بھی خطرہ ہے کہ جب آدمی کو سزا سے بچنے کی امید نہ رہے تو شیطان اسے دھوکہ دے کر بآسانی گناہوں کے چکر میں پھانس دے گا۔

توبہ کو مضبوط بنانے اور توبہ شکنی سے بچنے کے لیے ایک کار گر نسخہ یہ ہے کہ آدمی نفل نماز، نفل روزے اور صدقات نافلہ سے مدد لے۔ یہ چیزیں گناہوں کا کفارہ بھی بنتی ہیں، اللہ تعالیٰ کی رحمت کو انسان کی طرف متوجہ بھی کرتی ہیں، اور انسان کے نفس کو اتنا طاقتور بھی بنا دیتی ہے کہ وہ برے میلانات کا زیادہ اچھی طرح مقابلہ کرسکتا ہے۔

اگر توبہ کے ساتھ آدمی نے قسم بھی کھائی ہو اور پھر اسے توڑدیا ہو تو پھر اس کا کفارہ واجب ہے۔ یعنی دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا کپڑے پہنانا اور اس کی استطاعت نہ ہو تو تین دن کے روزے رکھنا۔

(ترجمان القرآن۔ رمضان، شوال ۱۳۷۱ھ، جون، جولائی ۱۹۵۲)