فرد اور جماعت کی کشمکش

سوال:فرد اور سوسائٹی کے باہمی تعلقات کی نسبت مندرجہ ذیل خیال اسلامی نقطہ نظر سے کہاں تک صائب ہے؟

’’شہد کی مکھیوں، چونٹیوں اور دیمک کے برعکس انسان معاشرے میں زندگی گزارنے کے لیے نہیں بنایا گیا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ حد تک ایک فرد ہے۔ بدرجہ آخر یوں سمجھ لیجیے کہ وہ گلوں میں بٹ کر جینے کی جبلت رکھتا ہے۔ یہی راز ہے فرد اور معاشرے کے غیر مختتم تصادم کا! کوئی مذہب عدم توافق کی اس گرہ کو کھولنے پر قادر نہیں ہے کیوں کہ یہ گرہ کھلنے والی ہے ہی نہیں! کیا خود قرآن مجید نے نہیں کہا کہ ہم نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا ۔(التین: ۴)

اور پھر اسی کے ساتھ یہ بھی … کہ ہم نے انسان کو بڑی مشقت میں پیدا کیا۔(البلد:۴) میری رائے میں ان آیات کی بہترین تاویل یہ ہے کہ ایک مشین… نظام جسمانی… کی حیثیت سے آدمی اشرف المخلوقات ہے۔ لیکن معاشرے کا رکن ہونے کی حیثیت سے وہ معاشرے کے ساتھ ہمہ وقت متصادم رہنے والا ہے‘‘۔

جواب: آپ نے جس خیال پر مجھ سے اظہار خیال کی فرمائش کی ہے، اس کے مصنف نے فرد اور جماعت کی کشمکش کے پیچیدہ مسئلے کو حل کرنے، یا بالفاظ دیگر ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے صحیح رخ (Approach) اختیار نہیں کیا ہے۔ اس نے انسان کو حیوانات کی ایک قسم فرض کرکے یہ طے کرنے کی کوشش کی ہے کہ تنظیم پسند حیوانات اور گلہ پسند حیوانات کے درمیان انسان کا صحیح مقام کیا ہے۔ حالاں کہ یہ زاویہ فکر اس مسئلے کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے سرے سے کوئی نقطہ آغاز ہی نہیں ہے۔ حیوانات اور انسان کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ حیوانات کوئی ذی اختیار مخلوق نہیں ہیں، جو مشاہدات اور تجربات پر غور و فکر کرکے اپنی زندگی کا راستہ خود تجویز کرتے ہیں، بلکہ وہ سراسر جبلت کے تابع ہیں۔ شہد کی مکھیوں نے منظم ہیئت اجتماعی خود اختیار نہیں کی ہے، نہ پیہم تجربات سے بتدریج اس تنظیم کو ترقی دی ہے، بلکہ یہ تنظیم ان کی جبلت میں ودیعت کردی گئی ہے اور وہ جب سے وجود میں آئی ہیں، یکسانی کے ساتھ اسی تنظیمی شکل میں رہتی چلی آرہی ہیں۔ یہی حال گلہ پسند، زوج پسند اور انفرادیت پسند حیوانات کا بھی ہے کہ ہر ایک اپنی جبلت کے مقرر کردہ راستے پر چلا جا رہا ہے اور ان میں سے کسی نوع نے بھی تجربے اور فکر کی بنیاد پر اپنے طریق حیات میں ذرہ برابر کوئی ردو بدل نہیں کیا ہے۔ برعکس اس کے انسان کا حال یہ ہے کہ اس کا ایک ایک فرد ذی ارادہ، ذی اختیار، صاحب فکر اور اخلاقی حیثیت سے شخصاً ذمہ دار واقع ہوا ہے۔ اس کی جبلت کا دائرہ اثر بہت محدودرکھا گیا ہے۔ اس کی فطرت میں چند دواعی اور میلانات ضرور رکھ دیے گئے ہیں۔ مگر ان کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے مخصوص راستہ تجویز کرتے ہوں اور انسان کو اسی خاص راستے پر چلنے کے لیے مجبور کرتے ہوں۔ بلکہ ان کی نوعیت یہ ہے کہ وہ صرف اپنے تقاضے انسان کی عقل و فکر کے سامنے پیش کرتے ہیں اور پھرانسان اپنی عقل و فکر کی مدد سے ان تقاضوں کو پورا کرنے کی صورتیں تجویز کرتا ہے۔ اس کے ساتھ انسان کو یہ قوت بھی ملی ہے کہ وہ تجربات و مشاہدات کی مدد سے اپنی اختیار کردہ عملی صورتوں میں ردو بدل کرتا ہے، اور بتدریج ان کو درست کرنے اور ترقی دینے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان نے اپنی فطرت کے تقاضوں کو سمجھ سمجھ کر ایک جوڑے کی یکجائی معاشرت سے ابتدا کرکے بتدریج، خاندان، قبیلے، قوم، منظم سوسائٹی، اسٹیٹ اور بین الاقوامی روابط تک اپنی زندگی کو ترقی دی اور یہی وجہ ہے کہ مختلف زمانوں اور مختلف ملکوں میں انسان نے اپنی اجتماعی زندگی کے لیے بہت سے مختلف نقشے اختیار کیے اور بار ہا ان نقشوں کو بدلتا اور نئے سرے سے بناتا رہا ہے۔

انسان کی اس مخصوص حیثیت پر اگر آپ غائر نگاہ ڈالیں تو اس گتھی کو سمجھنے کے لیے آپ کو کلید مل سکتی ہے جو فرد اور جماعت کی کشمکش کی شکل میں ہم اور آپ دیکھ رہے ہیں۔ اس گتھی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایک طرف نوع انسانی کا ہر فرد اپنی ایک خودی رکھتا ہے، جس میں تعقل ہے، ارادہ و اختیار ہے، اور شخصی ذمہ داری کا احساس ہے۔ دوسری طرف اس خودی کے حامل افراد ایک ایسی اجتماعی زندگی میں شریک ہونے پر مجبور ہوتے ہیں جس کا پورا نقشہ فطرت نے خود نہیں بنایا ہے بلکہ فطری داعیات کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے مختلف زمانوں اور علاقوں کے لوگوں کے مختلف طریقوں سے یہ نقشے خود بنائے ہیں، اور بتدریج اجتماعی تجربات اور مجموعی میلانات اور خارجی اثرات کے تحت ان نقشوں کی نشونما ہوتی رہتی ہے۔ اس طرح لاکھوں کروڑوں افراد کی جدا جدا خودیوں کا ایسی غیر جبلی اجتماعیت میں(جو بار ہا اپنے بعض پہلوؤں میں خلاف فطرت بھی واقع ہوجاتی ہے) ٹھیک ٹھیک متوازن اور متناسب طور پر نصب ہونا اور اپنی موزوں جگہ پا لینا نہایت مشکل ہوتا ہے اور اسی وجہ سے وہ کشمکش پیدا ہوتی ہے جو فرد اور جماعت کے درمیان ہر جگہ برپا ہے۔ کیوں کہ اس طریقے سے بنی ہوئی اور نشونما پائی ہوئی اجتماعیت میں افراد کی خودیاں بھی اپنی موزوں جگہ نہ پانے کی وجہ سے بے کلی محسوس کرتی ہیں، اور اجتماعی نظام بھی ان بے چین خودیوں کی انفرادی لکدکوب کے باعث مضطرب ہوتے رہتے ہیں۔ افراد کو ڈھیل ملتی ہے تو اجتماعی نظام درہم برہم ہونے لگتا ہے اور اجتماعی نظام زیادہ کس جاتا ہے تو افراد کی خودیاں یا تو مرجھانے لگتی ہیں یا بغاوت پر اتر آتی ہیں۔

یہ من جملہ ان اہم اسباب کے ہیں جن کی بنا پر انسان کے لیے وحی اور نبوت کی رہنمائی بڑی ناگزیر ثابت ہوتی ہے۔ ہزارہا برس کے تجربے نے ثابت کردیا ہے کہ اپنے فطری داعیات اور تقاضوں کو سمجھ کر انہیں پورا کرنے کے طریقے تجویز کرنے کے لیے انسان کو عقل، تفکر اور استقرار و اختیار کی جو طاقتیں ملی ہوئی ہیں وہ اس کام میں مددگار تو ضرور ہیں مگر اس کے لیے کافی نہیں ہیں۔ ان طاقتوں کے بل بوتے پر انسان خود اپنے لیے ایک صحیح اور معتدل و متوازن طریقہ زندگی نہیں بناسکتا۔ وہ اس بات کا محتاج ہے کہ اس کا خالق اسے قانون زندگی کے بنیادی اصول دے، صحیح و عمل کے حدود بتائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان مابعدالطبیعاتی حقائق کا ضروری علم دے جن کی واقفیت کے بغیر ایک صحیح طریق زندگی تجویز کرنا انسان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ انفرادیت اور اجتماعیت کے درمیان زیادہ سے زیادہ جو توازن ممکن ہے اور افراد کی خودی کی تکمیل کے مواقع باقی رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ مستحکم جو اجتماعی نظام بنایا جاسکتا ہے وہ وہی ہے جس کے اصول اور حدود اور ضروری فروع کی طرف اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہ السلام کے ذریعے سے ہماری رہنمائی کی ہے۔

قرآن مجید کی جن دو آیتوں کا آپ نے حوالہ دیا ہے ان کی تفسیر بھی میرے اوپر کے بیان سے اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے بلکہ بات اور زیادہ کھل جائے گی اگر آپ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ کے بعد یہ بھی پڑھیں کہ ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ ( 5 ) إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ

(ترجمان القرآن۔ جمادی الاولیٰ، رجب، ۱۳۷۰ھ، مارچ، مئی ۱۹۵۱ء)