تصوف اور تصور شیخ

سوال: میں نے پورے اخلاص و دیانت کیساتھ آپ کی دعوت کا مطالعہ کیاہے۔ باوجود سلفی المشرب ہونے کے آپ کی تحریک اسلامی کا اپنے آپ کو ادنیٰ خادم اور ہمدرد تصورکرتا ہوں۔ حال ہی میں چند چیزیں تصوف اور تصور شیخ سے متعلق نظر سے گزریں جنہیں پڑھ کر میرے دل و دماغ میں چند شکوک پیدا ہوئے ہیں۔ آپ عجمی بدعات کو مباح قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ اب تک کا سارا لٹریچر ان کے خلاف زبردست احتجاج رہا ہے۔ جبکہ ہماری دعوت کا محور ہی فریضہ اقامت دین ہے تو اگر ہم نے خدانخواستہ بدعت کو انگیز کیا تو اسکے معنی یہ ہونگے کہ ساری بدعت کو تحریک میں گھس آنے کا موقع دیدیا گیا۔ آپ براہِ کرم میری ان معروضات پر غور کرکے بتائیے کہ کتاب و سنت کی روشنی میں تصوف اور تصور شیخ کے متعلق آپکے کیا خیالات ہیں اور فی نفسہ یہ مسلک کیا ہے؟ امید ہے کہ ترجمان القرآن میں پوری وضاحت کرکے مشکور فرمائیں گے۔

جواب: آپ کو میرے کسی ایک فقرے سے جو شبہات لاحق ہوگئے ہیں، وہ پیدا نہ ہوتے، اگراس مسئلے کے متعلق میرے دوسرے واضح بیانات آپ کی نگاہ میں ہوتے۔ بہرحال اب میں واضح الفاظ میں آپ کے سوالات کا مختصر جواب عرض کیے دیتا ہوں۔

(۱) تصوف کسی ایک چیز کا نام نہیں ہے بلکہ بہت سی مختلف چیزیں اس نام سے موسوم ہوگئی ہیں۔ جس تصوف کی ہم تصدیق کرتے ہیں وہ اور چیز ہے جس تصوف کی ہم تردید کرتے ہیں، وہ ایک دوسری چیز اور جس تصوف کی ہم اصلاح چاہتے ہیں وہ ایک تیسری چیز۔

ایک تصوف وہ ہے جو اسلام کے ابتدائی دور کے صوفیا میں پایا جاتا تھا۔ مثلاً فضیل بن عیاض، ابراہم ادھم، معروف کرخی وغیرہم (رحمہم اللہ)۔ اس کا کوئی الگ فلسفہ نہ تھا، اس کا کوئی الگ طریقہ نہ تھا۔ وہی افکار اور وہی اشغال و اعمال تھے جو کتاب و سنت سے ماخوذ تھے اور ان سب کا وہی مقصود تھا جو اسلام کا مقصود تھا یعنی اخلاص للہ اور توجہ الیٰ اللہ۔ وما امرو الا لیعبدوا اللہ مخلصین لہ الدین حنفاء۔ اس تصوف کی ہم تصدیق کرتے ہیں اور صرف تصدیق ہی نہیں کرتے بلکہ اس کو زندہ اور شائع کرنا چاہتے ہیں۔

دوسرا تصوف وہ ہے جس میں اشراقی اور رواقی اور زردشتی اور ویدانتی فلسفوں کی آمیزش ہوگئی ہے۔ جس میں عیسائی راہبوں اورہندو جوگیوں کے طریقے شامل ہوگئے ہیں جس میں مشرکانہ تخیلات و اعمال تک خلط مط ہوگئے ہیں۔ جس میں شریعت اور طریقت اور معرفت الگ الگ چیزیں… ایک دوسرے کم و بیش بے تعلق، بلکہ اوقات باہم متضاد… بن گئی ہیں۔ جس میں انسان کو خلیفۃ اللہ فی الارض کے فرائض کی انجام دہی کے لیے تیار کرنے کی بجائے اس سے بالکل مختلف دوسرے کاموں کے لیے تیار کیاجاتا ہے۔ اس تصوف کی ہم تردید کرتے ہیں اور ہمارے نزدیک اس کو مٹانا خدا کے دین کو قائم کرنے کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا جاہلیت جدیدہ کو مٹانا۔

ان دونوں کے علاوہ ایک اور تصوف بھی ہے جس میں کچھ خصوصیات پہلی قسم کے تصوف کی اور کچھ خصوصیات دوسری قسم کے تصوف کی ملی جلی پائی جاتی ہیں۔ اس تصوف کے طریقوں کو متعدد ایسے بزرگوں نے مرتب کیا ہے جو صاحب علم تھے، نیک نیت تھے مگر اپنے دور کی خصوصیات اور پچھلے ادوار کے اثرات سے بالکل محفوظ بھی نہ تھے۔ انہوں نے اسلام کے اصلی تصوف کوسمجھنے اور اس کے طریقوں کو جاہلی تصوف کی آلودگیوں سے پاک کرنے کی پوری کوشش کی لیکن اس کے باوجود ان کے نظریات میں کچھ نہ کچھ اثر جاہلی فلسفہ تصوف کے اور ان کے اعمال و اشغال میں کچھ نہ کچھ اثرات باہر سے لیے ہوئے اعمال و اشغال کے باقی رہ گئے، جن کے بارے میں ان کو یہ اشتباہ پیش آیا کہ یہ چیزیں کتاب و سنت کی تعلیم سے متصادم نہیں ہیں۔ یا کم از کم تاویل سے انہیں غیر متصادم سمجھا جاسکتا ہے۔علاوہ بریں اس تصوف کے مقاصد اور نتائج بھی اسلام کے مقصد اور اس کے مطلوبہ نتائج سے کم و بیش مختلف ہیں۔ نہ اس کا مقصد واضح طور پر انسان کو فرائض خلافت کی ادائیگی کے لیے تیار کرنا اور وہ چیز بنانا ہے جسے قرآن مجید نے ِلِتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاس کے الفاظ میں بیان کیا ہے اورنہ اس کا نتیجہ ہی یہ ہوسکا ہے کہ اس کے ذریعے سے ایسے آدمی تیار ہوتے جو دین کے پورے تصور کو سمجھتے اور اس کی اقامت کی فکر انہیں لاحق ہوتی اور وہ اس کام کو انجام دینے کے اہل بھی ہوتے۔ اس تیسری قسم کے تصوف کی نہ ہم کلی تصدیق کرتے ہیں اور نہ کلی تردید۔ بلکہ اس کے پیروؤں اور حامیوں سے ہماری گزارش یہ ہے کہ براہِ کرم بڑی بڑی شخصیتوں کی عقیدت کو اپنی جگہ رکھتے ہوئے آپ اس تصوف پر کتاب و سنت کی روشنی میں تنقیدی نگاہ ڈالیں اور اسے درست کرنے کی کوشش کریں۔ نیز جو شخص اس تصوف کی کسی چیز سے اس بنا پر اختلاف کرے کہ وہ اسے کتاب و سنت کے خلاف پاتا ہے تو قطع نظر اس سے کہ آپ اس کی رائے سے موافقت کریں یا مخالفت، بہرحال اس کے حق تنقید کا انکار نہ فرمائیں اور اسے خواہ مخواہ نشانہ ملامت نہ بنانے لگیں۔

(۲) تصور شیخ کے بارے میں میرا موقف یہ ہے کہ اس پر دو حیثیتوں سے گفتگو کی جاسکتی ہے۔ ایک بجائے خود ایک فعل ہونے کی حیثیت، دوسرے ایک ذریعہ تقریب اللہ ہونے کی حیثیت۔

پہلی حیثیت میں اس فعل کے صرف جائز یا ناجائز ہونے کا سوال پیدا ہوتا ہے اور اس کے فیصلے کا انحصار اس سوال پر ہے کہ آدمی کس نیت سے یہ فعل کرتا ہے؟ ایک نیت وہ ہے جس کی تشریح حکیم عبدالرشید محمود صاحب نے اپنے مضمون میں کی تھی۔ اس نیت کا لحاظ کرتے ہوئے اسے حرام کہنے کے سوا چارہ نہیں ہے۔ دوسری نیت وہ ہے کہ جس کی تشریح مولانا ظفراحمد صاحب نے کی۔ اس نیت کا لحاظ کرتے ہوئے یہ مشکل ہے کہ کوئی فقیہ اسے ناجائز کہہ سکے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے میں کسی شخص کو اجنبیہ کے حسن کا نظارہ کرتے ہوئے دیکھوں اور اس حرکت کی غرض دریافت کرنے پر وہ مجھے بتائے کہ میں اپنے ذوق و جمال کو تسکین دے رہا ہوں۔ ظاہر ہے کہ مجھے کہنا پڑے گا کہ تو یقیناً ایک ناجائز کام کررہا ہے۔ دوسرے کو یہی حرکت کرتے ہوئے دیکھوں اور میرے پوچھنے پر وہ مجھے جواب دے کہ میں اس سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ اس صورت میں مجھے مجبوراً یہ کہنا پڑے گا کہ تیرا یہ فعل ناجائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنے فعل کی ایک ایسی وجہ بیان کررہا ہے جسے شرعاً میں غلط نہیں کہہ سکتا۔

اب رہی اس تصور شیخ کی دوسری حیثیت، تو مجھے اس امر میں نہ کبھی شک رہا ہے اور نہ آج شک ہے کہ اس حیثیت سے یہ فعل قطعی غلط ہے خواہ اس کی نسبت کیسے ہی بڑے لوگوں کی طرف کی گئی ہو۔ میں کہتا ہوں کہ اللہ سے تعلق پیدا کرنے اور بڑھانے کے ذرائع بتانے میں خود اللہ اور اس کے رسولﷺ نے ہر گز کوئی کوتاہی نہیں کی ہے۔ پھر کیوں ہم ان کے بتائے ہوئے ذرائع پر قناعت نہ کریں اور ایسے ذرائع ایجاد کرنے لگیں جو بجائے خود بھی مخدوش ہوں اور جن کے اندر ذرا سی بے احتیاطی آدمی کو قطعی اور صریح ضلالتوں کی طرف لے جاسکتی ہو؟

اس معاملہ میں یہ بحث پیدا کرنا اصولاً غلط ہے کہ جب دوسرے تمام معاملات میں ہم مقاصد شریعت کو حاصل کرنے کے لیے وہ ذرائع اختیار کرنے کے مجاز ہیں، جو مباحات کے قبیل سے ہوں تو آخر تزکیہ نفس اور تقرب الیٰ اللہ کے معاملہ میں ہم کیوں انہیں اختیار کرنے کے مجاز نہ ہوں؟ یہ استدلال اصولاً اس لیے غلط ہے کہ دین کے دو شعبے ایک دوسرے سے الگ نوعیت رکھتے ہیں۔ ایک شعبہ تعلق باللہ کا ہے اور دوسرا شعبہ تعلق بالناس وغیرہ کا۔ پہلے شعبہ کا اصول یہ ہے کہ اس میں ہم کو انہی عبادات اور انہی طریقوں پر انحصار کرنا چاہیے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے بتادیے ہیں۔ ان میں کوئی کمی کرنے، یا ان پر کسی نئی چیز کا اضافہ کرنے کا ہمیں حق نہیں ہے۔ کیوں کہ اللہ کی معرفت اور اس کے ساتھ تعلق جوڑنے کے ذرائع کی معرفت کا ہمارے پاس کوئی دوسرا ذریعہ کتاب اللہ و سنت رسولﷺ کے سوا نہیں ہے۔ اس معاملہ میں جو کمی بیشی بھی کی جائے گی، وہ بدعت ہوگی، اور ہر بدعت ضلالت ہے۔ یہاں یہ اصول نہیں چل سکتا کہ جو کچھ ممنوع نہیں ہے وہ مباح ہے۔ یہاں تو قیاس سے بھی اگر کوئی مسئلہ نکالا جائے گا تو لازماً اس کا کوئی مبنیٰ کتاب و سنت میں موجود ہونا چاہیے۔ بخلاف اس کے دوسرے شعبے میں مباحات کا باب کھلا ہوا ہے۔ جو حکم دے دیا گیا ہے اس میں حکم کی اطاعت کیجیے، جو کچھ منع کیا گیا ہے، اس سے رک جائیں اور جس معاملہ میں حکم نہیں دیا گیا ہے، اس میں اگر کسی ملتے جلتے معاملے پر کوئی حکم ملتا ہو تو اس پر قیاس کر لیجیے، یا قیاس کا بھی موقع نہ ہو تو اسلام کے اصول عامہ کے تحت مباحات میں سے جس چیز اور جس طبقے کو نظام اسلامی کے مزاج سے مطابق پائے، اسے قبول کر لیجیے۔ اس شعبہ میں یہ آزادی ہمیں اس لیے دی گئی ہے کہ دنیا اور انسان اور دینوی معاملات کے متعلق مصلحت کو جاننے کے عقلی اور عملی ذرائع کم از کم اس حد تک ہمیں ضرور حاصل ہیں کہ کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کی رہنمائی سے مستفید ہونے کے بعد ہم کو شر سے اور صحیح کو غلط سے ممیز کرسکتے ہیں۔ پس یہ آزادی صرف اسی شعبے تک محدود رہنی چاہیے۔ اسے پہلے شعبے تک وسیع کرکے، اور جو کچھ ممنوع نہیں ہے، اسے مباح سمجھ کر، تعلق باللہ کے معاملہ میں نئے نئے طریقے نکالنا یا دوسروں سے اخذ کرکے اختیار کرلینا بنیادی طور پر غلط ہے۔ اسی غلطی میں مبتلا ہو کر نصاریٰ نے رہبانیت اختیار کرلی تھی جس کی قرآن میں مذمت کی گئی ۔

(ترجمان القرآن۔ جمادی الاولیٰ ۱۳۷۱ھ، فروری ۱۹۵۲ء)