ایمان اور عمل کا تعلق

سوال: آئمہ سلف میں اس مسئلے کے بارے میں بہت اختلاف رہا ہے کہ عمل صالح ایمان کا جزہے یا نہیں۔ میں نے قرآن و حدیث و سیرت کا بھی مطالعہ کیا ہے، اپنی حد تک آئمہ کے اقوال و استدلال کو بھی دیکھا ہے اور اپنے اساتذہ اور بزرگوں سے بھی رجوع کیا ہے لیکن اس سوال کا شافی جواب حاصل کرنے میں ناکام رہا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ بعض لوگوں نے محض اختلافات کو ہوا دینے کے لیے اس مسئلے کو چھیڑا ہے۔ لیکن میرا مقصد سوائے تحقیق و اطمینان کے کچھ نہیں ہے۔

جواب: اعمال کے جز ایمان ہونے یا نہ ہونے کی بحث کو خواہ مخواہ الجھا دیا گیا ہے، ورنہ بات بجائے خود صاف ہے، اس میں ایک جہت وہ ہے جو امام ابو حنیفہؒ نے اختیار کی ہے اور وہ بجائے خود حق ہے، مگر اعتراض کرنے والوں نے اس جہت کو نظر انداز کرکے دوسری جہت سے اس پر اعتراض کردیا ۔ اسی طرح اس مسئلے کی ایک دوسری جہت وہ ہے جو امام بخاریؒ وغیرہ ہم نے اختیار کی اور وہ بھی برحق ہے، مگر رد کرنے والوں نے ایک مختلف جہت سے اس کو رد کرنا شروع کردیا۔

حقیقت یہ ہے کہ ایمان اپنی اصل کے اعتبار سے شہادت قلب اور تصدیق ذہنی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ عمل اس لفظ کے مفہوم میں بداہۃً شامل نہیں ہے۔ آپ خود سوچئے کہ جب کوئی شخص کہتا کہ ’’میں نے فلاں بات مان لی‘‘ یا ’’میں اس کا قائل ہوگیا‘‘ یا ’’میں اس کی صداقت پر گواہ ہوں‘‘۔ تو سننے والا ان الفاظ سے کیا سمجھتا ہے؟ کیا محض عقیدہ و اظہار؟ یا اس کے ساتھ کوئی عمل بھی؟ ظاہر ہے کہ یہ الفاظ صرف عقیدہ و خیال کے اظہار کے لیے بولے جاتے ہیں اور سننے والا یہ الفاظ سن کر بس اتنا ہی سمجھتا ہے کہ آدمی کے خیالات میں تبدیلی آگئی ہے۔ ایمان کی یہی حقیقت قرآن و حدیث سے بھی معلوم ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ (آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ )’’ایمان لایا رسول اس چیز پر جو اس کی طرف اس کے رب کے پاس سے نازل ہوئی اور مومنین بھی ایمان لائے‘‘۔ کی تفسیر خود یوں فرماتا ہے کہ

كُلٌّ آمَنَ بِاللّهِ وَمَلآئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ وَقَالُواْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ

’’سب ایمان لائے اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر (انہوں نے کہا کہ) ہم اس کے رسولوں میں سے کسی کو جدا نہیں کرتے اور کہا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ اے رب ہمارے ہم تیری مغفرت چاہتے ہیں اور تیری ہی طرف پلٹ کر جانا ہے۔‘‘

اس تفسیر کی رو سے ایمان کی کوئی حقیقت مان لینے اور قائل ہوجانے کے سوا نہیں ہے۔ اور نبی ﷺ، حضرت جبرائیل علیہ السلام کے سوال فاخبرنی عن الایمان، کے جواب میں فرماتے ہیں:

ان تو من باللہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الاخرو تومن بالقدر خیرہ ٖ وشرہ ٖ،

یہ تفسیر نبوی بھی ایمان کے معنی ’’مان لینے‘‘ ہی کے بتا رہی ہے نہ کہ اس کے ساتھ کچھ کرنے کے بھی۔ اسی بنا پر یہ ایک متفق علیہ مسئلہ ہے کہ اگر کوئی شخص کلمہ اسلام کا قائل ہوجانے کے بعد اچانک کسی حادثے کا شکار ہوجائے، قبل اس کے کہ وہ نماز پڑھے یا روزہ رکھے یا کوئی عمل اسلام پر کرسکے تو وہ مومن مرے گا نہ کہ کافر۔

یہ اس مسئلے کی ایک جہت ہے اور اس کے برحق ہونے میں کوئی کلام نہیں کیا جاسکتا۔ اب دوسری جہت لیجیے۔ جب کوئی شخص کہتا ہے کہ میں فلاں بات کو مان گیا، تو آپ فطرۃً یہ توقع کرتے ہیں کہ اب اس کے عمل اور برتاؤمیں اس مان لینے کے آثار و نتائج ظاہر ہوں گے۔ ہر شخص کی عقل اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ایک بات کو مان لینے کے جو آثار و نتائج ہیں، وہ مان لینے والے کے عمل اور برتاؤ میں ظاہر ہوں۔ حتیٰ کہ اگر وہ ظاہر نہ ہوں، یا ایسے آثار ظاہر ہوں جو عقلاً نہ ماننے ہی کے آثار ہوسکتے ہوں تو ہر دیکھنے والا یہی سمجھے گا کہ اس شخص نے درحقیقت وہ بات نہیں مانی ہے جس کے ماننے کا وہ دعویٰ کر رہا ہے، اور صرف اتنا ہی نہیں، بلکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں ماننے اور منوانے کا سارا کام جو کیا جاتا ہے، اس سے مقصود محض مان لینا اور منوالینا ہی نہیں ہوتا بلکہ منوانے والا اسی لیے کچھ باتیں منواتا ہے کہ اس کے بعد ماننے والا اس کے عملی تقاضے پورے کرے اور ماننے والا جب ماننے کا اقرار و اعلان کرتا ہے تو ہر صاحب عقل اس کا مطلب یہی لیتا ہے کہ وہ اب اس ماننے کے تقاضے پورے کرنا چاہتا ہے۔ مثلاً اگر آپ کسی شخص کو شراب کی برائی کا قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اسی لیے کرتے ہیں کہ وہ عملاً شراب نوشی سے اجتناب کرے، نہ کہ اس لیے کہ وہ بس شراب کی برائی کا قائل ہوجائے اور جب وہ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ واقعی شراب بری چیز ہے، تو ہر سننے والا اس کا مقصد یہی سمجھتا ہے اور یہی اس سے توقع رکھتا ہے کہ وہ شراب سے اجتناب کرے گا۔ حتیٰ کہ اگر کوئی شخص اس اقرار کے بعد اسے شراب پیتے دیکھ لے تو فوراً یہ رائے قائم کرتا ہے کہ وہ اپنے اقرار سے پھر گیا ہے۔ یہی معاملہ اللہ تعالیٰ کے دین کا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے بعض حقیقتیں منوانے کی جو کوشش کی ہے، اس سے مقصود صرف یہی نہیں ہے کہ وہ بس انہیں مان لیں، بلکہ لازماً یہ بھی مقصود ہے کہ ان کے اخلاق میں، ان کے اعمال میں، ان کے برتاؤ میں اور ان کی پوری انفرادی و اجتماعی زندگی میں وہ آثار و نتائج ظاہر ہوں جو اس مان لینے کے لازمی آثار و نتائج ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں اور رسول اللہ ﷺ نے اپنے فرمودات میں صاف صاف ان آثار و نتائج کو بیان بھی کردیا ہے جو دعوت ایمان سے مطلوب و مقصود ہیں اور لازمہ حیات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پھر انہوں نے صرف ان آثار مطلوبہ کے بیان ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ بعض کے متعلق بالفاظ صریح یہ فرما دیا ہے کہ جن لوگوں میں وہ ظاہر نہ ہوں، یا اس کے برعکس آثار ظاہر ہوں، وہ مومن نہیں ہیں۔ قرآن پاک اور حدیث دونوں اس کی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں جن سے کوئی صاحب علم آدمی ناواقف نہیں ہے اور ان پر نگاہ ڈالنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور عمل کے درمیان ایک ایسا تعلق ہے جو منفک نہیں ہوسکتا۔ چاہے اس کی یہ تعبیر لفظاً صحیح نہ ہو کہ ’’عمل جزو ایمان ہے۔‘‘ مگر بہرحال لازمہ ایمان تو ضرور ہے۔

بلاشبہ محتاط فقہاء نے مجرد ترک عمل پر، جبکہ اس کے ساتھ کوئی صریح علامت کفر موجود نہ ہو، تکفیر سے احتراز کیا ہے۔ مگر اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ کسی مدعی اسلام کا بے عمل ہونا (یعنی اس کا عملاً غیر مسلمانہ زندگی بسر کرنا) جس طرح اس بات کا احتمال رکھتا ہے کہ اس کا دل ایمان سے خالی ہو اسی طرح اس بات کا بھی احتمال رکھتا ہے کہ وہ غفلت میں مبتلا ہو یا اس کی سیرت میں ضعف ہو۔ ان دونوں احتمالات میں سے ایک کو متعین کرنا، ظاہر میں انسانوں کے لیے ممکن نہیں ہے جب تک کہ اس کا کوئی صریح ثبوت نہ مل جائے۔ لہٰذا مجرد بے عملی کی بنا پر تکفیر کر بیٹھنا خلافِ احتیاط ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ جو علیم بذات الصدور ہے، اس بات کو جانتا ہے کہ کس شخص کی بے عملی عدم ایمان کی بنا پر ہے اور کس کی بے عملی ضعف اخلاق یا غفلت کی بنا پر جس شخص کی بے عملی درحقیقت ایمان کے فقدان پر مبنی ہوگی، وہ کافر تو ضرور ہوگا مگر اس کا معلوم کرنا صرف خداوند عالم الغیب کا کام ہے۔ دنیا کے مفتی اس کو نہیں جان سکتے، الاّ یہ کہ کوئی صریح قرینہ ایسا حکم لگانے کے لیے موجود ہو۔

یہ ہے اس معاملہ کی اصل حقیقت، جن لوگوں نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا ہے، وہ عجیب قسم کی افراط و تفریط میں مبتلا ہیں،کوئی تو بے عمل مسلمانوں کو بے تکلف کافر کہہ بیٹھتا ہے، حالانکہ بے عملی کے دوسرے اسباب بھی ہوسکتے ہیں اور انہی کے ہونے کا بالعموم قوی احتمال پایا جاتا ہے اور کوئی تمام بے عمل مسلمانوں کو ایمان ہی کا نہیں بلکہ جنت کا مژدہ سنارہا ہے، حالانکہ یہ معصیت کی کھلی کھلی ہمت افزائی ہے جس کی جواب دہی سے ہر خداترس آدمی کو ڈرنا چاہیے۔

(ترجمان القرآن۔ جمادی الاولیٰ ۱۹۶۲ھ، فروری ۱۹۵۳ء)