اختلاف کے جائز حدود

سوال: تحریک کا ہمدرد ہونے کی حیثیت سے اس کے لٹریچر اور جرائد واخبارات کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں۔ اب تک بزرگان دیو بند اور دوسرے علما کی طرف سے جو فتوے شائع ہوتے رہتے ہیں اور ان کے جو جوابات امیر جماعت ہند و امیر جماعت پاکستان و دیگر اراکین جماعت کی طرف سے دیے گئے ہیں، سب کو بالالتزام پڑھتا رہتا ہوں۔ اپنے بزرگوں کی اس حالت کو دیکھ کر بہت صدمہ ہوتا ہے مگر سوائے افسوس کے اور چارہ کوئی نظر نہیں آتا۔

ان فتووں کو دیکھ کر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ تکفیرو تفسیق کا معاملہ جماعت اسلامی اور بزرگان دیو بند ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، بلکہ جب ہم اسلاف کرام و آئمہ عظام کی سیرتوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم ان بزرگوں کی سیرتوں میں بھی اس مسئلے کو مختلف فیہ پاتے ہیں۔ مثلاً ایک گروہ میں امام ابن تیمیہ، امام ابن حزم، امام ابن جوزی وغیرہ ہم اکابر ہیں۔ دوسرے گروہ میں امام ابن عربی، امام غزالی اور امام ولی اللہ جیسے بزرگ ہیں۔ ان میں سے پہلا گروہ کہتا ہے کہ لا الٰہ الا اللہ کا مطلب ’’لا معبود الا اللہ‘‘ ہے دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اس کا مطلب ’’لا موجود الا اللہ‘‘ ہے۔پہلا گروہ دوسرے گروہ کے اس عقیدے کو کفر و الحاد کہتا ہے۔ دوسرا گروہ اپنے اس عقیدے کو توحید کا اعلیٰ و اکمل درجہ تصور کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کلمہ جس کی تشریح کے لیے قرآن مجید نازل کیا گیا، اسی کے متعلق علمائے امت و آئمہ وقت کا یہ اختلاف کیوں ہے؟

امید ہے کہ آپ اس مسئلے پر ترجمان القرآن میں مفصل بحث فرمائیں گے۔

جواب: کسی مفصل بحث کی بجائے آپ کی تشفی کے لیے اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ قرآن مجید اپنے مدعا کو بغیر کسی ابہام کے صاف صاف بیان کرتا ہے، اور اس نے کسی ایسی حقیقت کو جس کا جاننا آدمی کی ہدایت کے لیے ضروری تھا، واضح کیے بغیر نہیں چھوڑا مگر اختلافات پیش آنے کے دو بڑے اسباب ہیں:

ایک یہ کہ جب لوگ کسی قرآنی حقیقت کو اپنے الفاظ میں تعبیر کرتے ہیں اور قرآن مجید کی حدود سے آگے بڑھ کر تشریحات پیش کرتے ہیں تو رائے کے اختلافات، اور بسا اوقات سخت اختلافات کی گنجائش نکل آتی ہے۔

دوسرے یہ کہ جب لوگ اپنے آپ کو ایسے سوالات کا جواب دینے کا مکلف سمجھتے ہیں جن کی تکلیف خدا اور رسول ﷺ نے ان کو نہیں دی تھی تو جھگڑوں کا دروازہ کھل جاتا ہے۔

اس پر بھی بات نہ بڑھے، اگر ایک شخص اپنے بیان پر اور دوسرا اس کی تردید پر قناعت کرے۔ لیکن پہلے بھی بار ہا ایسا ہوا ہے اور آج بھی ہو رہا کہ ایک شخص اپنی بات کہنے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اسے عین قرآن کی بات اور اس کے منکر کو صراحتہً یا کنایتہً قرآن کا منکر ٹھہرا دیتا ہے اور دوسرا شخص اس کی تردید پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ اسے ضال و مضل، اور بسا اوقات کافر تک ٹھہرا دیتا ہے۔ پھر اس سے آگے بڑھ کر ہر ایک متبعین اپنے اپنے پیشوا کی بات کی پچ کرتے ہیں اور مزید تشدد برتنے لگتے ہیں۔ ان طریقوں سے مختلف فرقوں کی بنا پڑ جاتی ہے اور ہر ایک دوسرے سے نماز اور مسجد اور شادی بیاہ تک کے تعلقات توڑ لیتا ہے اور اپنے مخصوص مسائل پر کفر و ایمان کی بنا رکھ دیتا ہے۔

یہ ہے خرابی کا اصل سبب! ورنہ اگر نص کو نص کی جگہ رہنے دیا جائے اور تعبیر و تشریح و استنباط کو مثل نص نہ بنایا جائے، اور بحث کو صرف اختلاف رائے کی حد تک ہی رہنے دیا جائے تو اکثر خرابیاں سرے سے رونما نہ ہوں اور نہ وہ سوالات پیدا ہوں جن پر آپ نے پریشانی کا اظہار کیا ہے۔

جن بزرگوں کے آپ نے نام لیے ہیں اور جن کے نام نہیں لیے ہیں، ان کے درمیان جن مسائل میں اختلافات اور شدید اختلافات ہوئے ہیں، ان میں سے اکثر مسائل پر میں بھی اپنی ایک رائے رکھتا ہوں، اور لامحالہ میری رائے ان میں سے بعض کے موافق اور بعض کے خلاف ہے۔ مگر میں صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے پر ٹھہر جاتا ہوں،اس سے آگے بڑھ کر ان لوگوں پر کوئی حکم چسپاں نہیں کرتا جن کی رائے سے میں نے اختلاف کیا ہے اور نہ بحث کا یہ طریقہ اختیار کرتا ہوں کہ ’’میرے نزدیک فلاں شخص کی فلاں بات سے یہ لازم آتا ہے، اور یہ کفر یا فسق یا ضلالت ہے، فلاں شخص ضال اور مضل یا کافر یا فاسق ہے‘‘۔ اس طرح کے حکم لگانے کو میں حق سے تجاوز سمجھتا ہوں، کیوں کہ ہماری منطق کی رو سے اگر کسی شخص کے کسی قول سے ایک بری بات لازم آتی ہو تو ہم اسے یہ الزام نہیں دے سکتے کہ اس ’’لازم‘‘ کا بھی وہ التزام کرتا ہے، اس لیے اسے اس کا ملتزم ٹھہرا کر اس پروہ حکم لگانا جو اس بری بات کے ملتزم پر ہی لگایا جاسکتا ہو، کسی طرح جائز نہیں۔

(ترجمان القرآن۔ رجب،شعبان ۱۳۷۱ھ، اپریل، مئی ۱۹۵۲ ء)