ختم نبوت کے خلاف قادیانیوں کی ایک اور دلیل

سوال: ’’تفہیم القرآن‘‘ (سورہ آل عمران صفحہ ۲۶۸، ع۔۹)، آیت وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ …الخ کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے حاشیہ نمبر ۶۹ یوں درج کیا ہے کہ ’’یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہئے کہ حضرت محمدؐ سے پہلے ہر نبی سے یہی عہد لیا جاتا رہا ہے اور اسی بنا پر ہر نبی نے اپنی امت کو بعد کے آنے والے نبی کی خبر دی ہے اور اس کا ساتھ دینے کی ہدایت کی ہے۔ لیکن نہ قرآن میں، نہ حدیث میں، کہیں بھی اس امر کا پتہ نہیں چلتا کہ حضرت محمدؐ سے ایسا عہد لیا گیا ہو، یا آپؐ نے اپنی امت کو کسی بعد کے آنے والے نبی کی خبر دے کر اس پر ایمان لانے کی ہدایت فرمائی ہو‘‘۔

اس عبارت کا مطالعہ کرنے کے بعد دل میں یہ بات آئی کہ بے شک محمد ﷺ نے تو نہیں فرمایا، لیکن خود قرآن مجید میں سورہ احزاب میں اس میثاق کا ذکر یوں آتا ہے:

وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ…الخ

یہاں لفظ ’’مِنْکَ‘‘ کے ذریعے نبیﷺ سے خطاب ہے۔ میثاق وہی ہے جس کا ذکر سورہ آل عمران میں ہوچکا ہے۔ ہر دو سورتوں یعنی آل عمران اور الاحزاب کی مذکورہ بالا آیات میں میثاق کے ذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہی میثاق جو دوسرے انبیا سے لیا گیا تھا، محمد رسول اللہ ﷺ سے بھی لیا گیا ہے۔

دراصل یہ سوال احمدیوں کی ایک کتاب پڑھنے سے پیدا ہوا ہے جس میں ان دونوں سورتوں کی محولہ بالا آیات کی تفسیر ایک دوسرے کی مدد سے کی گئی ہے اور لفظ ’’منک‘‘ پر بڑی بحث درج ہے۔

جواب: آیت وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ (الاحزاب:۱) سے قادیانی حضرات جو استدلال کرتے ہیں، وہ اگر مبنی بر اخلاص ہے تو ان کی جہالت پر استدلال کرتا ہے اور اگر قصداً دھوکہ دینے کی نیت سے ہے تو یہ ان کی ضلالت پر دلیل ہے۔وہ ایک مضمون تو سورہ آل عمران کی آیت وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ سے لیتے ہیں جس میں انبیاء اور ان کی امتوں سے کسی آنے والے نبی کی پیروی کا عہد لیا گیا ہے، اور دوسرا مضمون سورۃ احزاب کی مذکورہ بالا آیت سے لیتے ہیں جس میں دوسرے انبیاء کے ساتھ نبیﷺ سے بھی ایک عہد لیے جانے کا ذکر ہے۔ پھر دونوں کو جوڑ کر اس سے یہ تیسرا مضمون خود بنا ڈالتے ہیں کہ نبیﷺ سے بھی کسی آنے والے نبی پر ایمان لانے اور اس کی تائید و نصرت کرنے کا عہد لیا گیا تھا۔ حالاں کہ جس آیت میں آنے والے نبی پر ایمان لانے کے میثاق کا ذکر ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ عہد ہم نے محمدؐ سے بھی لیا ہے اور جس آیت میں محمدؐ سے ایک عہد لیے جانے کا ذکر ہے، اس میں کوئی تصریح اس امر کی نہیں ہے کہ یہ عہد کسی آنے والے نبی کی پیروی کا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر ان دو مختلف مضمونوں کو جوڑ کر ایک تیسرا مضمون جو قرآن مجید میں کہیں نہ تھا، کس دلیل سے پیدا کرلیا؟

اس کے لیے اگر ہوسکتی تھی تو تین دلیلیں ہوسکتی تھیں:

یا تو نبیﷺ نے اس آیت کے نزول کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع کرکے اعلان فرمایا ہوتا کہ ’’لوگو! اللہ تعالیٰ نے مجھ سے یہ عہد لیا ہے کہ میرے بعد جو نبی آئے، اس پر میں ایمان لاؤں اور اس کی تائیدونصرت کروں، لہٰذا میرے متبع ہونے کی حیثیت سے تم بھی اس کا عہد کرو‘‘… مگر ہم دیکھتے ہیں کہ حدیث کے پورے ذخیرے میں اس مضمون کا کہیں نام و نشان تک نہیں، بلکہ الٹی بکثرت روایات ایسی موجود ہیں جن سے یہ مضمون نکلتا ہے کہ حضور ؐ پر سلسلہ نبوت ختم ہوگیا اور آپؐ کے بعد اب کوئی نبی پیدا ہونے والا نہیں ہے۔ کیا یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ نبیﷺ سے ایک ایسا اہم میثاق لیاگیاہوتا اور آپؐ نے اسے یوں نظر انداز کردیا ہوتا، اور الٹی ایسی باتیں فرمائی ہوتیں جن سے حجت پکڑ کر آپ ﷺ کی امت کا سواد اعظم خدا کے کسی فرستادہ نبی پر ایمان لانے سے محروم رہ جاتا۔

دوسری دلیل اس مضمون کو پیدا کرنے کے لیے یہ ہوسکتی تھی کہ قرآن مجید میں انبیا اور ان کی امتوں سے بس ایک ہی میثاق لیے جانے کا ذکر ہوتا، یعنی یہ کہ بعد کے آنے والے نبی پر ایمان لانا۔ اس کے سوا کسی اور میثاق کا پورے قرآن مجید میں کہیں ذکر ہی نہ ہوتا۔ اس صورت میں یہ استدلال کیا جاسکتا تھا کہ سورہ احزاب والی آیت میثاق میں بھی لا محالہ یہی میثاق مراد ہوگا … لیکن اس دلیل کے لیے بھی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ایک نہیں بلکہ متعدد میثاقوں کا ذکر آیا ہے مثلاً سورہ بقرہ رکوع ۱۰ میں بنی اسرائیل سے اللہ کی بندگی اور والدین سے حسن سلوک اور آپس کی خوں ریزی سے پرہیز وغیرہ کا میثاق لیا جاتا ہے۔ سورہ آل عمران رکوع ۱۹ میں تمام اہل کتاب سے اس بات کا میثاق لیا جاتا ہے کہ خدا کی جو کتاب تمہارے حوالے کی گئی ہے، اس کی تعلیمات کو چھپاؤ گے نہیں بلکہ اس کی اشاعت عام کرو گے۔ سورہ اعراف رکوع ۲۱ میں بنی اسرائیل سے عہد لیا جاتا ہے کہ وہ اللہ کے نام پر حق کے سوا کوئی بات نہ کہیں گے، اور اللہ کی دی ہوئی کتاب کو مضبوط ہاتھوں سے تھامیں گے اور اس کی تعلیمات کو یاد رکھیں گے۔ سورہ مائدہ رکوع میں محمد عربی ﷺ کے پیروؤں کو ایک میثاق یاد دلایا جاتا ہے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا تھا اور وہ یہ ہے کہ ’’تم اللہ سے سمع و طاعت کا عہد کرچکے ہو‘‘۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر سورہ احزاب والی آیت میں میثاق کے مضمون کی تصریح کے بغیر مجرد میثاق کا ذکر آیا تھا تو اس خلا کو ان بہت سے میثاقوں میں سے کسی ایک سے بھرنے کی بجائے بالخصوص سورہ آل عمران رکوع ۹ والے میثاق ہی سے کیوں بھرا جائے؟ اس ترجیح کے لیے خود ایک دلیل درکار ہے جو کہیں موجود نہیں۔ اس کے جواب میں اگر کوئی یہ کہے کہ دونوں جگہ چوں کہ نبیوں سے میثاق لینے کا ذکر ہے، اس لیے ایک آیت کی تشریح دوسری آیت سے کرلی گئی تو میں عرض کروں گا کہ دوسرے جتنے میثاق بھی انبیا کی امتوں سے لیے گئے ہیں، وہ براہ راست کسی امت سے نہیں لیے گئے بلکہ انبیا کے واسطے ہی سے لیے گئے ہیں اور آخر قرآن مجید میں بصیرت رکھنے والا کون شخص اس بات سے نا واقف ہے کہ ہر نبی سے کتاب اللہ کو مضبوط تھامنے اور اس کے احکام کی پیروی کرنے کا عہد لیا گیا ہے۔

تیسری دلیل یہ ہوسکتی تھی کہ سورہ احزاب کا سیاق و سباق یہ بتا رہا ہوتا کہ یہاں میثاق سے مراد آنے والے نبی پر ایمان لانے کا میثاق ہی ہوسکتا ہے۔ لیکن یہاں معاملہ بالکل ہی برعکس ہے۔ سیاق و سباق تو الٹا اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ یہاں یہ معنی ہو ہی نہیں سکتے۔ سورہ احزاب شروع ہی اس فقرے سے ہوتی ہے کہ : ’’اے نبی اللہ سے ڈرو اور کافروں اور منافقوں سے نہ دبو، اور جو وحی تمہارا رب بھیجتا ہے، اسی کے مطابق عمل کرو اور اللہ پر بھروسا رکھو‘‘۔ اس کے بعد یہ حکم سنایا جاتا ہے کہ جاہلیت کے زمانے سے متبنیٰ بنانے کا جو طریقہ چلا آرہا ہے، اس کو اور اس سے تعلق رکھنے والے تمام اوہام اور رسموں کو توڑ ڈالو۔ اس کے بعد فرمایا جاتا ہے کہ غیر خونی رشتوں میں سے بڑھ کر ایک ہی رشتہ ایسا ہے جو خونی رشتوں سے بڑھ کر حرمت والاہے ، اور وہ ہے نبی اور مومنین کا رشتہ، جس کی بنا پر نبی کی بیویاں ان کی ماؤں کی طرح ان پر حرام ہیں، ورنہ باقی تمام معاملات میں رحمی اور خونی رشتے ہی اللہ کی کتاب کی رو سے حرمت اور استحقاق وراثت کے لیے اولیٰ وانسب ہیں۔ یہ احکام فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ نبیﷺ کو وہ میثاق یاد دلاتا ہے جو اس نے تمام انبیا سے ہمیشہ کیا ہے اور ان کی طرح آپ ﷺ سے بھی لیا ہے۔ اب ہر معقول آدمی خود دیکھ سکتا ہے کہ اس سلسلہ کلام میں آخرکس مناسبت سے ایک آنے والے نبی پر ایمان لانے کا میثاق یاد دلایا جاسکتا تھا؟ یہاں تو اگر یاد دلایا جاسکتا تھا تو وہی میثاق یاد دلایا جاسکتا تھا جو خدا کی کتاب کو مضبوط تھامنے اور اس کے احکام کو یاد رکھنے اور ان پر عمل کرنے اور دنیا میں ان کا اظہار کرنے کے لیے تمام انبیا علیہم السلام سے لیا گیا ہے۔ پھر آگے چل کر ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نبی ﷺ کو صاف صاف حکم دیتا ہے کہ آپ خود اپنے متبنیٰ زیدؓ، بن حارثہ کی مطلقہ بیوی سے نکاح کرکے جاہلیت کے اس وہم کو توڑ دیں جس کی بنا پر لوگ منہ بولے بیٹے کو بالکل صلبی بیٹے کی طرح سمجھتے ہیں اور جب کفار و منافقین اس پر اعتراضات کی بوچھاڑ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو علی الترتیب تین جواب دیتا ہے:

(۱) اول تو محمد ﷺ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں کہ اس کی مطلقہ بیوی ان پر حرام ہوتی۔

(۲) اور اگر تم یہ کہتے ہو کہ وہ ان کے لیے حلال تھی بھی تو اس سے نکاح کرنا کیا ضروری تھا تو یہ اس لیے ضروری تھا کہ وہ اللہ کے رسول ہیں جس کا کام یہی ہے کہ جس چیز کو اللہ مٹانا چاہتا ہے،اسے خود آگے بڑھ کر مٹائے۔

(۳) اور مزید برآں ان کو ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ وہ محض رسول ہی نہیں ہیں بلکہ خاتم النبیین ہیں، اگر وہ جاہلیت کی ان رسموں کو مٹا کر نہ جائیں گے تو پھر کوئی ایسا نبی آنے والا نہیں ہے جو انہیں مٹائے۔

اس مضمون لاحق کو اگر کوئی شخص سابق کے ساتھ ملا کر پڑھے تو وہ چین کے ساتھ یہ کہہ دے گا کہ اس سیاق و سباق میں جو میثاق نبیﷺ کو یاد دلایا گیا ہے، اس سے مراد اور جو میثاق بھی ہو، بہرحال کسی آنے والے نبی پر ایمان لانے کا میثاق ہر گز نہیں ہوسکتا۔

دیکھ لیجیے، آیت زیر بحث سے قادیانوں کے بیان کردہ معنی لینے کے لیے یہی تین دلیلیں ہوسکتی تھیں اور یہاں ان میں سے ہر دلیلان کےمدعا کے لیے غیر مفید، بلکہ الٹی ان کے خلاف ہے۔اب اگر ان کے پاس کوئی چوتھی دلیل ہو تو وہ ان سے دریافت کیجیے اور ان تینوں دلیلوں کا جواب بھی ان سے لیجیے۔ ورنہ یہ ماننے کے سوا چارہ نہیں کہ اس آیت سے جو معنی انہوں نے لیے ہیں، وہ یا تو جہالت کی بنا پر نکالے ہیں، یا پھر خدا سے بے خوف ہوکر خلق خدا کو گمراہ کرنے کے لیے نکالے ہیں۔ بہرحال ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگر مرزا صاحب نبی تھے تو آخر کیا معاملہ ہے کہ ابھی ان کے صحابہ کا دور بھی ختم نہیں ہوا ہے اور ان کی ساری امت اس وقت تابعین اور تبع تابعین پر مشتمل ہے۔ پھر بھی حال یہ ہے کہ کتاب اللہ سے ان کی امت میں علی الاعلان ایسے غلط استدلال کیے جاتے ہیں اور پوری امت میں ایک بھی اس جہالت یا ناخدا ترسی کے خلاف بلند نہیں ہوتی۔

(ترجمان القرآن۔ رمضان، شوال ۱۳۷۱ھ ، جون، جولائی ۱۹۵۲ء)