اسلام کے مآخذ قانون اور تعبیر و اجتہاد

سوال: ڈاکٹر محمصانی بیروت کے پروفیسر برائے قانون، جو حکومت پاکستان کی دعوت پر اس ملک میں تشریف لائے، انہوں نے اسلامی قانون پر کراچی میں ایک تقریر کی۔ عرب ممالک میں قانونی ارتقاء کے تین ادوار، خلافت، دور عثمانی اور جدید زمانے کا تذکرہ کر کے انہوں نے اس پر بحث کی کہ زمانے کی بدلتی ہوئی ضروریات کے مطابق اسلامی قانون میں تبدیلی ممکن ہے یا نہیں۔ ان کی بحث کا ماحصل یہ تھا کہ اسلامی قانون کے دو حصے ہیں۔ ایک خالص مذہبی، دوسرا معاشرتی، جہاں تک مذہبی قانون کا تعلق ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی کیوں کہ وہ کبھی نہ بدلنے والے حقائق پر مشتمل ہے، مثلاً توحید، عبادات وغیرہ۔ معاشرتی قانون دو مآخذ پر مبنی ہے۔ ایک اجتہاد اور دوسرے قرآن و حدیث، اجتہاد ہر زمانے کی ضروریات کے مطابق بدلتا رہتا ہے اور بدلنا چاہیے۔ احادیث میں سب سے پہلے سوال صحیح و غیر صحیح کا ہے، پھر صحیح احادیث بھی دو قسم کی ہیں۔ لازمی (Obilgatory) اور اختیاری یا مشاورتی (Permissive) پس آخر کار بحث ان احکام کی رہ جاتی ہے جو یا تو قرآن مجید پر یا صحیح احادیث پر مبنی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا ان دونوں چیزوں کے… الفاظ کو نہیں (کیوں کہ وہ علیٰ حالہٖ موجود ہیں اور تبدیل نہیں کیے جاسکتے) … سوسائٹی کی بدلتی ہوئی ضروریات کے مطابق نئی تعبیر (Interpretation) دی جاسکتی ہے؟ ڈاکٹر محمصانی نے کہا ہے کہ اس بارے میں فقہا کے دو گروہ ہیں۔ (۱) اکثریت کی رائے یہ ہے کہ آیات قرآنی اور احادیث صحیح کو نئے معنی نہیں پہنائے جاسکتے (۲) اقلیت کا استدلال یہ ہے کہ قانون ایک معاشرتی عمرانی سائنس ہے لہٰذا جیسے جیسے معاشرت و عمرانیات میں تبدیلی ہوتی جائے، قانون کو بھی بدلنا چاہیے، ورنہ وہ زمانے سے اپنا رشتہ توڑ بیٹھے گا۔ اسلام ترقی، تہذیب اور بہبود عامہ کا دین ہے اور اس کی یہ خصوصیات باقی نہیں رہتیں، اگر ہم اس کے بارے میں قدامت کا رویہ اختیار کریں۔ اپنے اس دعوے کے ثبوت میں انہوں نے دو مثالیں بطور نمونہ پیش کیں اور بتایا کہ نہایت کثرت سے انہوں نے ایسی نظیریں اپنی کتاب … (Philosophy of Islamic Jurisprudance) میں دی ہیں۔

پہلی مثال یہ تھی کہ ایک حدیث صحیح میں گیہوں اور جو کو رقیق اشیاء کے پیمانے سے ناپنے کا تذکرہ ہے۔ کیوں کہ اس زمانے میں یہی رواج تھا۔ بعد کو جب وزن کے حساب سے یہ چیزیں فروخت ہونے لگیں تو ایک شخص نے امام ابو یوسفؒ سے استفسار کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ معاہدہ جو وزن کے پیمانے سے ہوا ہو، جائز ہے۔ اس سے پتہ چلا کہ رواج کے بدل جانے سے احادیث کی تعبیر یا اطلاق میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔

دوسری مثال جس کے ذریعے ڈاکٹر صاحب نے استدلال کیا ہے کہ نہ صرف حدیث بلکہ قرآن مجید کے الفاظ کو سوسائٹی کی ضروریات بدل جانے پر نئی تعبیر دی جاسکتی ہے، یہ تھی کہ قرآن مجید میں صدقات کے مصارف میں مؤلفۃ القلوب کا بھی ایک حصہ رکھا گیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے جب نو مسلموں کو صدقات میں سے کچھ دینے سے انکار کیا تو انہوں نے قرآن مجید کی آیت سند میں پیش کی کہ یہ تو ہمارا حق ہے جو قرآن مجید نے مقرر کیا ہے، آپ اسے کیسے ختم کرسکتے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے جواباً کہا کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی تھی، اس وقت اسلام کمزور تھا، اس لیے اس کی ضرورت تھی، اب اسلام خدا کے فضل سے قوی ہے، لہٰذا اس کی ضرورت باقی نہیں رہی، پس میں تم کو یہ حصہ نہیں دوں گا۔

اس قسم کی مثالوں میں ایک معاملہ قطع ید کا بھی ہے۔ حضرت عمرؓ نے ایک شخص کو جس نے بیت المال میں چوری کی تھی اور دوسرے کو جس نے اپنے آقا کا مال چرایا تھا، قطع ید کی سزا نہیں دی، اس دلیل سے کہ ان کا اس مال میں حصہ تھا۔ اسی طرح قحط کے زمانے میں آپ نے سزا کو موقوف کردیا۔

ڈاکٹرمحمصانی نے دوران تقریر قانون کے چار مآخذ بتائے۔ قرآن مجید، حدیث، اجماع اور قیاس۔ میرے ذہن میں ان کی تقریر کے بعد مندرجہ ذیل سوالات پیدا ہوئے ہیں۔

(۱) متذکرہ بالا چار مآخذ کے علاوہ اور کون سی چیزیں مآخذ قانون ہیں؟ کیا علت، دوسرے ممالک کے رواج، عرف، عادت، تعامل، سنن القبل، عموم بلویٰ، صاحب امر کی ہدایات، معاہدات وغیرہ کو مآخذ قانون بنایا جاسکتا ہے یا نہیں۔ فقہا نے ان تمام کو مآخذ قانون کی فہرست میں تو نہیں لکھا لیکن دوارن بحث میں ان تمام کا تذکرہ مآخذ قانون کی حیثیت سے کیا ہے اور خلفائے راشدین کے عمل سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً حضرت عمرؓ نے زراعت و مالیاتی قانون میں شامی، مصری اور ایرانی قانون کی پیروی کی، رجسٹر اور حسابات رکھنے کے طریقے ان سے اخذ کیے، غیر اسلامی حکومتوں کے تاجروں پر اتنا محصول عائد کیا جتنا کہ ان کی حکومتیں مسلمان تاجروں پر عائد کیا کرتی تھیں … تو کیا اس سے یہ اصول مستنبط نہیں ہوتا کہ قرآن و حدیث کی مقرر کردہ حدود کے اندر دوسرے ممالک کے قانون سے استفادہ، اور نہ صرف استفادہ بلکہ اس کو بعینہٖ اخذ کیا جاسکتا ہے؟ حضرت عمرؓ کا عمل تو کم از کم یہی ثابت کرتا ہے۔ آج اگر اسلامی حکومت وجود میں آئے تو کیا وہ مغربی ممالک کی سیاسی، معاشرتی، ادبی، اقتصادی اور سائنٹفک ترقیات کو نظر انداز کرکے نئے سرے سے اپنی عمارت کی بنیاد نہ رکھے گی، محض اس غلط تصور اور تعصب کی بنا پر کہ جو کچھ مغرب سے آیا ہے، وہ غلط ہے؟ کیا یہ تصور بالکل اسی طرح غلط نہیں کہ جو کچھ مغرب سے آیا ہے، وہی صحیح ہے؟ اگر یہ ایک انتہا ہے تو وہ دوسری انتہا ہے۔ پھر کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ مغرب کی وہ باتیں جو شریعت سے مطابقت رکھتی ہیں، ان کو بعینہٖ یا ان میں ادل بدل کرکے لے لیا جائے۔

(۲) بزرگان سلف اور آئمہ نے جو اجتہادات کیے، اگر ان مسائل میں کوئی تبدیلی و اضافہ ممکن نہیں تو ان کو اختیار کرلیا جائے، ورنہ زمانہ کی بدلتی ہوئی ضروریات کے مطابق ان کا اجتہاد کچھ مسائل میں اگر ساز گار نہ رہا ہو تو آج کے فقہا از سر نو اجتہاد کریں جو دور حاضر کی ضروریات کے مطابق ہو۔

(۳) قرآن و حدیث کے الفاظ کو تبدیل کیے بغیر سوسائٹی اور معاشرت کی بدلتی ہوئی ضروریات کے مطابق ان دو مآخذ کے الفاظ کی تعبیر میں تبدیلی، اضافہ یا کمی کی جاسکتی ہے؟ مثلاً جیسا کہ مولفۃ القلوب کی مثال سے ثابت ہوتا ہے۔ اس قسم کے مسائل آج بھی پیدا ہوسکتے ہیں، اگر چہ ان کی تعداد کم ہوگی۔دوسرے الفاظ میں ان احکام و مسائل میں جو نصوص قرآنی یا احادیث لازمی پر مبنی ہیں، زمانے کی ضروریات اور ان احکام کی علت بدل جانے پر ایسے نئے احکام مستنبط کیے جاسکتے ہیں جو اسلام کی روح کے مطابق ہوں۔ آخر فقہا ہی کا یہ متفق علیہ مسلک ہے کہ ہر حکم کی ایک علت ہے اور فلاح عامہ بہرحال مقدم ہے۔

مثلاً زکوٰۃ کا حکم قرآن مجید میں مذکور ہے لیکن زکوٰۃ کی کوئی شرح مذکور نہیں۔ احادیث میں جو شرح مذکور ہے وہ زمانے کی ضروریات کے مطابق تھی۔ اب ایک سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا زکوٰۃ کو ملک کے عام ریونیو یا ٹیکس کی حیثیت حاصل ہے (جبکہ حکومت اسلامی ہو) اگر ہے تو دوسرا سوال شرح کا ہے کہ آج کے مالیاتی تقاضے قدیم شرح سے پورے نہیں ہوسکتے۔

ان سوالات سے ہٹ کر ایک دریافت طلب امر یہ ہے کہ قرآن آیا ایک کوڈ ہے یا نہیں؟ بظاہر قانونی اعتبار سے قرآن مجید ایک ترمیمی ضابطہ (Amending Code) کی حیثیت رکھتا ہے جس نے بہت سے ان رواجوں اور دستوروں کو قائم رکھا جو عرب میں جاری تھے، سب میں انقلاب پیدا نہیں کیا۔ لہٰذا یہ کہنا کہ قرآن مجید ایک مکمل کوڈ ہے، کس حد تک درست یا غلط ہے؟

جواب: آپ نے جن مسائل کے متعلق اظہار رائے کی فرمائش کی ہے، میں ان پر ’’حقوق الزوجین‘‘۔ ’’سود‘‘ (حصہ اول)، ’’تفہیمات‘‘ اور ’’اسلامی قانون‘‘ میں ایک حد تک مفصل بحث کرچکا ہوں۔آپ ان کتابوں کو ملاحظہ فرمائیں کہ کون سے پہلو تشنہ رہ گئے ہیں جن پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔ باقی رہے آپ کے سوالات تو ان کے متعلق مختصر طور پر اپنے خیالات عرض کیے دیتا ہوں:

(۱) علت، عرف، عادت، تعامل، سنن القبل، عموم بلویٰ، صاحب امر کی ہدایات ، معاہدات اور ممالک غیر کے رواجات بجائے خود ماخذ قانون نہیں بن سکتے، بلکہ یہ سب اجماع اور قیاس کے ضمن میں ہی داخل ہوں گے اور خود اجماع و قیاس بھی اصل ماخذ قانون نہیں ہیں بلکہ قرآن و سنت کے تابع ہیں۔ اجماع ہو یا قیاس ہو، دونوں صرف اسی صورت میں صحیح ہوسکتے ہیں جبکہ استدلال کی بنا قرآن و سنت کے امرونہی یا اباحت پر رکھی گئی ہو۔ امرونہی کے معاملے میں قیاس و اجتہاد کو لامحالہ نصوص کا پابند رہنا پڑے گااور جس قیاس و اجتہاد پر اجماع ہوجائے، یا جمہور متفق ہوجائیں، وہی ملک کا قانون بن جائے گا۔ رہے مباحات تو ان کے دائرے میں ہم بیرونی ممالک کے طریقوں سے بھی استفادہ کرسکتے ہیں، اپنے ملک کے عرف و رواج کو بھی برقرار رکھ سکتے ہیں، عموم بلویٰ کا لحاظ بھی کرسکتے ہیں اور دوسرے مآخذ کی طرف بھی رجوع کرسکتے ہیں، بشرطیکہ جو قوانین بھی ہم بنائیں، وہ بحیثیت مجموعی اسلامی زندگی سے مطابقت رکھتے ہوں۔

(۲) بزرگان سلف کے اجتہادات نہ تو اٹل قانون قرار دیے جاسکتے ہیں اور نہ سب کے سب دریا برد کردینے کے لائق ہیں۔ صحیح اور معتدل مسلک یہی ہے کہ ان میں ردو بدل بھی کیا جائے تو دلائل شرعیہ کی بنا پر کیا جائے۔ نیز نئی ضروریات کے لیے نیا اجتہاد بھی کیا جاسکتا ہے مگر اس کے لیے شرط یہی ہے کہ اس اجتہاد کا مآخذ کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ ہو اور یہ اجتہاد وہ لوگ کریں جو علم و بصیرت کے ساتھ جذبہ اتباع و اطاعت بھی رکھتے ہوں۔ رہے وہ لوگ جو زمانہ جدید کے رجحانات سے مغلوب ہوکر دین میں تحریف کرنا چاہتے ہیں تو ان کے حق اجتہاد کو تسلیم کرنے سے ہمیں قطعی انکار ہے۔

(۳) اصولی طور پر تو یہ بات صحیح ہے کہ احکام شرعیہ کے اجر و نفاذ میں حالات کا لحاظ کرنا ضروری ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ نصوص کے الفاظ کی تعبیر میں اختلاف کی کافی گنجائش ہے لیکن بحث اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اجمال کو چھوڑ کر ہم تفصیلات کی طرف آتے ہیں۔ یہاں متعدد تفصیلات ہمارے سامنے ایسی آتی ہیں جن میں تغیر پسند اصحاب کی تجاویز ہم کو حد سے متجاوز نظر آتی ہیں۔ مثلاً یہی زکوٰۃ کا معاملہ ہے جسے آپ نے مثال میں پیش کیا ہے۔ ہمارے نزدیک زکوٰۃ کو ملک کے عام ریونیو یا ٹیکس کی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک مالی عبادت ہے اور اس کے لیے شارع نے جو نصاب، شرع اور مصارف مقرر کیے ہیں، ان میں ردو بدل نہیں کیا جاسکتا اور جن چیزوں پر زکوٰۃ عائد کی گئی ہے، ان میں بھی کمی بیشی نہیں ہے، الا یہ کہ کسی چیز کو شارع کی مقرر کردہ اشیاء پر قیاس کرلیا جائے۔ رہیں حکومت کی ضروریات تو ہم اس بات کے قائل ہیں کہ ایک اسلامی حکومت جمہور کی خدمت کے جن جن کاموں کو اپنے ہاتھ میں لے، ان کی انجام دہی کے لیے وہ جمہور پر ٹیکس لگا کر اپنے مصارف پورے کرسکتی ہے، بشرطیکہ ٹیکس انصاف کے ساتھ لگائے جائیں اور ایمانداری کے ساتھ ان کو خرچ کیا جائے۔

(۴) آپ کا آخری سوال کہ قرآن مجید ایک ’’کوڈ‘‘ ہے یا نہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید ’’کوڈ‘‘ نہیں بلکہ ’’کتاب ہدایت‘‘ ہے جس میں سوسائٹی کی اصلاح و تنظیم کے لیے قانونی ہدایات بھی دی گئی ہیں۔ محض اس لیے کہ اس میں قانونی ہدایات بھی ہیں، اس کو ’’کوڈ‘‘ کہہ دینا درست نہیں ہے اور ’’ مکمل کوڈ‘‘ کے لفظ سے اس کو تعبیر کرنا اور بھی زیادہ غلط ہے۔ جو بات صحیح طور پر کہی جاسکتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ قرآن ایک مکمل کتاب ہدایت ہے۔

(ترجمان القرآن۔ صفر ۱۳۷۰ھ۔ دسمبر ۱۹۵۰ء)