مکانوں کے کرایوں میں بلیک مارکیٹنگ

سوال: جس مکان میں، میں رہتا ہوں وہ مجھ سے پہلے ایک کرایہ دار نے پینتالیس روپے ماہانہ کرائے پر مالک مکان سے اس شرط پر لیا تھا کہ دو ماہ کے نوٹس پر خالی کردیں گے۔ اس کرایہ دار سے یہ مکان انہی شرائط پر میرے بھائی نے لیا اور میں بھی ان کے ساتھ رہنے لگا۔ دو ماہ کے بعد میرے کہنے پر مالک مکان میرے نام سے رسید کاٹنے لگے۔ آٹھ ماہ تک برابر ہم پینتالیس روپے ماہانہ ادا کرتے رہے اور اس دوران میں کرایہ کی زیادتی ہمارے لیے سخت موجب تکلیف رہی اور کئی مرتبہ ارادہ کیا کہ رینٹ کنٹرولر کے یہاں درخواست دے کر کرایہ کم کرایا جائے مگر اس صورت پر دلی اطمینان نہیں ہوسکا۔ ستمبر میں مالک مکان کو سفیدی وغیرہ کرانے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ تو کرایہ دار کے فرائض میں سے ہے۔ آس پاس کے لوگوں نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے اپنا سکوت توڑتے ہوئے یہ کہا کہ دو ماہ بعد جواب دوں گا (شاید مکان خالی کرانے کی دھمکی اس جواب میں مضمر تھی) اس پر کسی قدر تیز گفتگو ہوئی۔ جس کے نتیجے میں، میں نے رینٹ کنٹرولر کے یہاں کرایہ تشخیص کرنے کی درخواست دے دی۔ وہاں سے سولہ روپے گیارہ آنے ماہوارہ کے حساب سے کرایہ مقرر کردیا گیا۔ مگر میرا ضمیر اس پر اب بھی مطمئن نہیں ہے۔

جن صاحب کے ذریعے یہ مکان حاصل ہوا تھا، ان کے اور ان کے عزیزوں کے کہنے سننے سے میں نے یہ صورت منظور کرلی کہ پینتالیس روپے ماہوار میں اس شرط پر دوں گا کہ میں مکان میں جب تک چاہوں رہوں، لیکن اگر کبھی مالک مکان نے مکان خالی کرایا تو پھر شروع سے کرایہ سولہ روپے گیارہ آنے ماہوار کے حساب سے محسوب ہوگا اور زائد وصول شدہ رقم مالک مکان کو واپس کرنی ہوگی۔ مالک مکان فی الحال اس شرط پر راضی نہیں ہے، لیکن ظاہر ہے کہ ان کو راضی ہونا پڑے گا۔

اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے میرے لیے کون سی صورت صحیح ہوگی؟ کیا میں پینتالیس روپے ماہوار دیتا رہوں یا سولہ روپے گیارہ آنے ادا کیا کروں۔ نیز کیا میرے لیے ضروری ہے کہ جب مالک مکان، مکان کے خالی کرنے کا مطالبہ کرے تو لازماً خالی کردوں یا اس امر واقعہ کو جانتے ہوئے کہ اسے مکان کی خود ضرورت نہیں ہے بلکہ محض کرایہ بڑھانے کے لیے دوسرے کرایہ دار کو دینا مطلوب ہے، میرے لیے جائز ہے کہ میں مطالبہ کی تعمیل سے انکار کردوں؟ واضح رہے کہ مکانوں کی غیر معمولی قلت کی بناء پر پینتالیس کے پچاس روپے دینے والے کرایہ دار بھی مل سکتے ہیں۔مجھے صاف اور دو ٹوک جواب دیا جائے۔ جواب میں یہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ میں مالک مکان کو نصیحت کروں یا اس کا ظلم اس پر واضح کروں، کیوں کہ یہ چیز بے کار ہوگی۔

جواب:موجودہ حالات میں بڑے شہروں کے مالکان مکان مکانات کی قلت سے اور لوگوں کی خصوصاً مہاجرین کی حاجت مندی سے انتہائی ناجائز فائدے اٹھانے پر تل گئے ہیں۔ انکے ساتھ اگر کوئی شخص معاہدہ کرتا بھی ہے تو برضا ورغبت نہیں کرتا بلکہ اسی طرح کی مجبوری سے کرتا ہے جیسی سود پر قرض لینے والے حاجت مند کو لاحق ہوتی ہے۔ اس لیے ایسے معاہدات کی کوئی اخلاقی قدرو قیمت نہیں ہے، اور درحقیقت یہ معاہدے اس وجہ سے ہو رہے ہیں کہ حکومت کی طرف سے انصاف قائم کرنے اور لوگوں کی ضروریات منصفانہ شرائط پر بہم پہنچانے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ اب اگر حکومت نے منصفانہ کرائے مقرر کرنے کا کوئی انتظام کیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ اور دوسرے لوگ اس سے فائدہ نہ اٹھائیں۔ جس مکان کا کرایہ از روئے انصاف سولہ روپے ہے، اگر ایک مالک مکان اس کا کرایہ پینتالیس روپے وصول کرتا ہے تو یقیناً وہ لٹیرا ہے۔ وہ آخر کون سا اخلاقی حق رکھتا ہے کہ آپ پر اس کا احترام کرنا واجب ہو۔ کل جو شخص غلہ کی کمی کی وجہ سے بلیک مارکیٹنگ کرنے پر اتر آئے اور اپنا دس روپے من خریدا ہوا غلہ اسی روپے من کے حساب سے بیچنے لگے تو کیا اس کے بھی حقوق ملکیت کا احترام کیا جائے گا؟ اگر ہم حکومت کی مدد سے ایسے لوگوں کو مناسب شرح پر اپنا مال بیچنے پر مجبور کرسکتے ہیں تو کیوں نہ کریں؟

(ترجمان القرآن۔ ربیع الاول، ربیع الاخر ۱۳۷۰ھ ، جنوری، فروری ۱۹۵۱ء)