قتل خطا اور اس کے احکام

سوال: ایک پنساری نے غلطی سے ایک خریدار کو غلط دوا دے دی جس سے خریدار خود بھی ہلاک ہوگیا اور دو معصوم بچے (جن کو خریدار نے وہی دوا بے ضرر سمجھ کر دے دی تھی) بھی ضائع ہوئے۔ یہ غلطی پنساری سے بالکل نادانستہ ہوئی۔ خون بہا اور خدا کے ہاں معافی کی اب کیا سبیل ہے؟ نیز یہ کہ خون بہا معاف کرنے کا کون مجاز ہے؟

جواب: اسلامی قانون میں قتل کی چار قسمیں ہیں۔ عمد، خطا، شبہ عمد اور وہ جوان تینوں میں سے کسی تعریف میں نہ آتا ہو۔ یہ فعل جس کا ارتکاب پنساری سے ہوا ہے، پہلی تین قسموں میں شمار نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ یہ عمد اور شبہ عمد تو بہرحال نہیں ہے، اور یہ قتل خطا بھی نہیں ہے، اس لیے کہ قتل خطا کی تعریف یہ ہے کہ آدمی کسی قاتلانہ ہتھیار کو کسی دوسری چیز پر چلائے مگر غلطی سے وہ لگ جائے کسی انسان کو جسے وہ مارنا نہ چاہتا تھا۔ اب ظاہر ہے کہ یہ فعل چوتھی قسم ہی میں آتا ہے جس میں سرے سے کسی کو ضرر پہنچانا مقصود ہی نہیں ہوتا، نہ کوئی ضرر رساں چیز جانتے بوجھتے ہوئے استعمال کی جاتی ہے، بلکہ بھولے سے یا غفلت سے موت واقع ہوجاتی ہے۔

لیکن فقہائے اسلام نے اس چوتھی قسم کا حکم بھی وہی قرار دیا ہے جو قرآن مجید میں قتل خطا کا حکم بیان فرمایا گیا ہے۔ یعنی اگر مقتول اسلامی ریاست کا شہری ہو تو قاتل کو کفارہ بھی دینا ہوگا اور خون بہا بھی۔ کفارہ تو خود قرآن مجید میں بتادیا گیا ہے کہ وہ ایک مومن غلام کو آزاد کرنا یا پے درپے دو مہینے کے روزے رکھنا ہے۔ رہا خون بہا تو اس کی کوئی مقدار قرآن مجید میں نہیں بتائی گئی۔ مگر احادیث سے یہ بات متواتر ثابت ہے کہ قتل خطا کے لیے نبیﷺ نے سو اونٹ خون بہا مقرر فرمادیا تھا جن کی قیمت اس زمانے میں دس ہزار درہم کے برابر تھی۔ (۱۰ ہزار درہم= ۲۲ سیر ۱۲ ۱/۲ چھٹانک چاندی)۔

یہ خون بہا کا معاملہ اس لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ قرآن مجید میں اس کا حکم دیا گیا ہے اور صاف ارشاد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے قتل خطا کی معافی حاصل کرنے کے لیے کفارے کے ساتھ اس کا ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ اب اگر ہمارا ملکی قانون قتل خطا کی کوئی دوسری سزا دے، خواہ وہ قید ہو یا جرمانہ، تو یقیناً وہ اس کفارے اور تاوان کا بدل نہیں ہوسکتی جو آخرت میں ایک مسلمان کو خدا کے حضور بری الذمہ کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اس لیے ہم ذرا وضاحت کے ساتھ خون بہا کے قاعدے کو یہاں بیان کرتے ہیں تاکہ مسلمانوں کو اس سے ٹھیک ٹھیک واقفیت ہوجائے۔

۱۔ خون بہا ادا کرنے کی ذمہ داری شریعت نے صرف قاتل پر نہیں ڈالی ہے بلکہ اس کے ’’عاقلہ‘‘ کو اس کے ساتھ برابر کا شریک کیا ہے۔

۲۔ ’’عاقلہ‘‘ سے مراد فقہائے حنفیہ کی تحقیق کے مطابق ایک شخص کے اعوان و انصار ہیں۔ اگر وہ شخص کسی سرکاری محکمہ کا آدمی ہو تو اس محکمہ کے تمام ملازم اس کے عاقلہ ہیں۔ ورنہ بدرجہ آخر خزانہ سرکار اس کی دیت ادا کرے گا۔

۳۔ عاقلہ پر قتل خطا کی دیت کا یہ بار اس لیے نہیں ڈالا گیا ہے کہ ایک شخص کے گناہ کی سزا سب کو دی جائے بلکہ اس لیے ڈالا گیا ہے کہ ایک بھائی پر احیاناً جو بار گناہ آپڑا ہے، اس کی ذمہ داری ادا کرنے میں اس سے قریبی تعلق رکھنے والے سب لوگ اس کا ہاتھ بٹائیں اور تنہا اس پر اتنا بوجھ نہ پڑجائے کہ اس کی کمر توڑ دے۔ نیز جس خاندان کو اس کی غلطی کی وجہ سے جانی نقصان اٹھانا ہے، اس کی تلافی بھی آسانی سے ہوجائے۔ یہ ایک طرح کا صدقہ یا فی سبیل اللہ چندہ ہے جو ہر اس شخص کی مدد کے لیے اس کے وسیع حلقہ اقارب سے حاصل کیا جاتا ہے کہ جس سے کوئی مہلک غلطی سرزد ہوجائے۔ ہم اس کو اخلاقی انشورنس سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔

۴۔ عاقلہ سے پورا خون بہا بیک وقت وصول نہیں کیا جائے گا بلکہ تین سال کی مدت میں تھوڑا تھوڑا کرکے لیا جائے گا۔ اگر عاقلہ کی وسعت کو پیش نظر رکھا جائے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ فی کس دو تین آنے ماہوار سے زیادہ چندے کا بار کسی شخص پر نہیں پڑسکتا۔

۵۔ یہ چندہ صرف مردوں سے لیا جائے گا۔ عاقلہ میں عورتیں شامل نہیں ہیں۔

۶۔ خون بہا لینے کے حق دار مقتول کے وارث ہوتے ہیں۔ جس قاعدے سے میراث تقسیم ہوتی ہے، اسی قاعدے سے یہ رقم بھی وارثوں میں تقسیم کی جائے گی۔

۷۔ مقتول کے وارث ہی خون بہا کے معاف کرنے کے حقدار ہیں، اور یہ معافی قرآن مجید کی زبان میں ان کی طرف سے قاتل پر صدقہ ہے۔

ان احکام پر اگر کوئی شخص غور کرے تو وہ بلا تامل یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ یہ طریقہ اخلاقی و تمدنی حیثیت سے موجودہ ملکی قانون کی بہ نسبت زیادہ افضل ہے۔ اس میں ایک طرف ۶۰ روزوں کا کفارہ اس شخص کے دل کو پاک کرتا ہے جس کی غفلت یا غلطی سے ایک جان ضائع ہوئی۔ دوسری طرف یہی کفارہ آس پاس کے سب لوگوں کو چوکنا کردیتا ہے تاکہ وہ ایسی غلطیوں اور غفلتوں میں مبتلا ہونے سے بچیں۔ اس میں ایک طرف خون بہا ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ اس خاندان کے آنسو پونچھے جائیں جس کا ایک فرد قاتل کی غلطی کا شکار ہوا ہے۔ دوسری طرف اس خون بہا کا بار عاقلہ پر ڈال کر اس کی ادائی کو آسان بنادیا گیا ہے۔ پھر یہ ادائے دیت کی مشترکہ ذمہ داری ایک طرف عاقلہ کو چوکنا کردیتی ہے کہ وہ اپنے افراد کی نگرانی کریں، تو دوسری طرف یہ ہر ہر فرد میں یہ احساس بھی پیدا کرتی ہے کہ وہ ایک ہمدرد اور شریک رنج و راحت برادری سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ ایسی برادری سے جس میں ’’کسے رابا کسے کارے نباشد‘‘۔

(ترجمان القرآن ذی الحجہ ۱۳۷۱ھ، ستمبر ۱۹۵۲ء)