دعا میں بزرگوں کی حرمت و جاہ سے توسل

سوال: میں نے ایک مرتبہ دریافت کیا تھا کہ بجاہ فلاں یا بحرمت فلاں کہہ کر خدا سے دعا کرنے کا کوئی شرعی ثبوت ہے یا نہیں؟ آپ نے جواب دیا تھا کہ اگر چہ اہل تصوف کے ہاں یہ ایک عام معمول ہے لیکن قرآن و حدیث میں اس کی کوئی اصل معلوم نہیں ہوسکی۔ میں اس سلسلے میں ایک آیت قرآنی اور ایک حدیث پیش کرتا ہوں۔ سورۃ بقرۃ میں اہل کتاب کے بارے میں آیا ہے:

وَكَانُواْ مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُواسورۃ البقرہ، آیت :89

یعنی بعثت محمدی سے پہلے یہودی کفار کے مقابلے میں فتح کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔

اس کی تفسیر میں امام راغبؒ نے مفردات میں فرمایا ہے:

ای یستنصرون اللہ ببعثۃ محمد

یعنی بعثت محمدی کے ذریعہ سے اللہ سے مدد مانگتے تھے۔

وقیل کانوا یقولون انا لننصر بمحمد علیہ السلام علی عبدۃ الاوثان

اور یہ کہا گیا ہے کہ یہودی یوں کہتے تھے کہ ہم کو بت پرستوں کے مقابلے میں محمد علیہ السلام کے ذریعے سے نصرت بخشی جائے گی۔

وقیل یطلبون من اللہ بذکرہ الظفر

اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ آپ ﷺ کے ذریعے سے اللہ سے فتح مانگتے تھے۔

ترمذی شریف کے ابواب الدعوات میں ایک حسن صحیح غریب حدیث مروی ہے کہ ایک نابینا شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ میری تکلیف کو دور کردے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم چاہو تو میں دعا کروں اور اگر تم صبر کرسکتے ہو تو صبر کرو۔ صبر تمہارے لیے بہتر ہے۔ اس نے عرض کیا آپ دعا فرمائیں۔ آپ ﷺ نے اسے اچھی طرح وضو کرنے کا حکم دیا اور یہ دعا پڑھنے کی ہدایت فرمائی:

اللھم انی اسئلک واتوجہ الیک بنبِّیَّک محمد نبی الرحمۃ۔ انی توجھت بک الیٰ ربی فی حاجتی ھذہ لتقضی لی۔ اللھم فشفعہ فی۔

خدایا ! میں تیرے نبی محمد (ﷺ)، نبی رحمت کے ذریعہ تجھ سے دعا کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں۔ میں نے اپنی اس حاجت کے لیے اے پروردگار تیری طرف توجہ کی ہے تاکہ تو میری حاجت پوری کرے۔ پس اے اللہ ! میرے حق میں محمد(ﷺ) کی شفاعت قبول فرما۔

کیا اس آیت اور اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوجاتا کہ دعا میں بحرمت سید المرسلین یا بجاہ نبی ﷺ بطفیل نبی ﷺ یا با برکت حضور ﷺ کہنا صحیح اور جائز ہے۔

جواب: آیت مذکورہ کا مطلب میرے نزدیک صحیح نہیں ہے کہ یہودی آنحضرتﷺ کی بعثت سے قبل آپﷺ کے توسل سے کفار کے مقابلے میں فتح کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔ بلکہ اس کا صحیح مطلب وہ ہے جو امام راغب کے پہلے دو اقوال سے بھی نکلتا ہے اور جس کی تائید معتبر روایات سے بھی ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ حضورﷺ کی بعثت سے پہلے یہودی ان پیشنگوئیوں کی بنا پر جو آپﷺ کے متعلق ان کی کتابوں میں موجود تھیں، یہ دعائیں مانگا کرتے تھے کہ وہ نبی آئے اور پھر اس کی بدولت ہمیں کفار پر غلبہ حاصل ہو۔ چنانچہ ابن ہشام کی روایت ہے کہ مکہ معظمہ میں حج کے موقع پر جب پہلی مرتبہ مدینہ کے چند لوگوں سے آپﷺ کی ملاقات ہوئی اور آپﷺ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا تو وہ آپس میں کہنے لگے:

یا قیوم تعلموا وَاللہ وانہ لبنی الذی توعد کم بہ الیھود فلا تسبقنکم الیہ (جلد ۲، صفحہ ۷۰)

لوگو ! جان لو کہ بخدا وہی نبی ہے جس کی آمد کا خوف تم کو یہودی دلایا کرتے تھے۔ پس ایسا نہ ہونے پائے کہ تم سے پہلے وہ اس کے پاس پہنچ جائیں۔

پھر آگے چل کر ابن ہشام اسی آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے انصار مدینہ کے بڑے بوڑھوں کا یہ قول نقل کرتے ہیں:

فینا واللہ وفیھم نزلت ھذہ القصۃ۔ کنا قد علو ناھم ظھرا فی الجاھلیۃ ونحن اھل الشرک وھم اھل کتاب۔ فکانوا یقولون لنا ان نبیا یبعث الان نتبعہ قد اظل زمانہ۔ لقتلکم معہ قتل عاد وارم۔ فلما بعث اللہ رسولہﷺ من قریش فاتبعناہ وکفروا بہ۔

یعنی’’ یہ آیت ہمارے اور یہودیوں کے بارے میں ہی نازل ہوئی ہے۔ جاہلیت میں ہم ان پر غالب ہوگئے تھے اور ہم اہل شرک تھے اور وہ اہل کتاب۔ پس وہ ہم سے کہا کرتے تھے کہ عنقریب ایک نبی معبوث ہونے والا ہے جس کی آمد کا وقت آپہنچا ہے۔ ہم اس کی قیادت میں تم کو اس طرح ماریں گے جیسے عادارم مارے گئے۔ مگر جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو قریش سے مبعوث کیا تو ہم نے آپ کی پیروی اختیار کرلی اور انہوں نے آپ ﷺ کا انکار کردیا۔

رہی جامع ترمذی کی وہ حدیث جو آپ نے نقل فرمائی ہے تو اس کا مضمون تو آپ ہی بتا رہے ہے کہ استدعا نبی سے کی گئی تھی کہ آپﷺ دعا فرمائیں اور آپﷺ نے ہدایت فرمائی کہ اچھا تو اللہ تعالیٰ سے دعا کر کہ ’’خدایا میں تیرے نبیﷺ کے واسطے سے تیرے حضور اپنی حاجت لے کر آیا ہوں۔ تو میرے حق میں اپنے نبی ﷺ کی سفارش قبول کر‘‘ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ نبیﷺ نے خود بھی اس کے حق میں دعا فرمائی اور اس سے بھی فرمایا کہ میرے واسطے سے تو بھی اپنی حاجت طلب کر اور میری سفارش قبول کیے جانے کی بھی دعا مانگ۔ یہ تو دعا کی بالکل ایک فطری صورت ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص مجھ سے کہے کہ فلاں حاکم کے پاس چل کر میری سفارش کرو اور میں سفارش کرنے کے ساتھ ساتھ اس شخص سے بھی کہوں کہ تو خود بھی حاکم سے عرض کر کہ میں انہیں سفارشی بنا کر لایا ہوں، آپ ان کی سفارش قبول کرکے میری حاجت پوری کردیں۔ یہ معاملہ اور ہے۔ اس کے برعکس یہ ایک بالکل دوسرا طریق معاملہ ہے کہ کوئی شخص مجھ سے اجازت لیے بغیر خود ہی حاکم کے پاس پہنچ جائے اور اپنی جو حاجت بھی چاہے میرا واسطہ دے کر پیش کردے۔ اس دوسری صورت کو آخر پہلی صورت پر کیسے قیاس کیا جاسکتا ہے؟ دلیل پہلی صورت کی پیش کرنا اور اس سے جواز دوسری صورت کا نکالنا کسی طرح درست نہیں۔ دوسری صورت کا جواز ثابت کرنے کے لیے تو حضورﷺ کا کوئی ایسا قول ملنا چاہیے جس میں آپﷺ نے اپنے تمام نام لیواؤں کو عام اجازت مرحمت فرمائی ہو کہ جس کا جی چاہے اپنی حاجت میرا واسطہ دے کر اللہ تعالیٰ سے طلب کرلے۔

(ترجمان القرآن، جمادی الاویٰ ۱۳۷۲ھ، فروری ۱۹۵۳ء)