رمضان میں قیام اللیل

سوال: براہ کرم مندرجہ ذیل سوالات کے جواب عنایت فرمائیں:

(۱) علمائے کرام بالعموم یہ کہتے ہیں کہ تراویح اول وقت میں (عشاء کی نماز کے بعد متصل) پڑھنا افضل ہے اور تراویح کی جماعت سنت موکدہ کفایہ ہے۔ یعنی اگر کسی محلہ میں تراویح یا جماعت نہ ادا کی جائے تو اہل محلہ گناہ گار ہوں گے اور دو آدمیوں نے بھی مل کر مسجد میں تراویح پڑھ لی تو سب کے ذمہ سے ترک جماعت کا گناہ ساقط ہوجائے گا۔ کیا یہ صحیح ہے؟ اگر یہ صحیح ہے تو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانے میں کیوں ایسا نہیں ہوا؟ اور اس زمانے کے مسلمانوں کے لیے کیا حکم ہوگا؟ کیا وہ سب تراویح با جماعت نہ پڑھنے سے گناہ گار تھے؟

(۲) کیا نماز تراویح اول وقت میں سونے سے پہلے پڑھنی ضروری ہے؟ کیا سحری کے وقت تراویح پڑھنے والا فضلیت و اولیت سے محروم ہوجائے گا؟ اگر محروم ہوجائے گا تو حضرت سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہے کہ التی تنامون عنھا افضل من التی تقومون؟

(۳) کیا رمضان میں نماز تہجد سے تراویح افضل ہے؟ اگر ایک آدمی رمضان میں عشاء پڑھ کر سو رہے اور تراویح پڑھے بغیر رات کو تہجد پڑھے (جبکہ تہجد کے لیے خود قرآن مجید میں صراحۃً ترغیب دلائی گئی ہے اور تراویح کو یہ مقام حاصل نہیں) تو اس کے لیے کوئی گناہ تو لازم نہیں آئے گا؟ واضح رہے کہ تراویح اور تہجد دونوں کو نبھانا مشکل ہے۔

(۴) کیا تراویح کے بعد وتر بھی جماعت سے پڑھنے چاہئیں؟ یا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ تراویح سے پہلے وتر پڑھ لے اور رات کے آخری حصے میں تراویح ادا کرلے؟

(۵) تراویح کی تعداد رکعت کیا ہے؟ کیا صحیح احادیث میں آٹھ، بیس، اڑتیس یا چالیس رکعتیں نبیﷺ سے ثابت ہیں؟

(۶) کیا کسی صحابی کو یہ حق حاصل ہے کہ نبیﷺ جس چیز کو یہ کہہ کر رد کردیں کہ ’’ما زال بکم التی رایت من صنیعکم خشیت ان یکتب علیکم ولو کتب علیکم ما قمتم بہ فصلوا ایھا الناس فی بیوتکم فان افضل صلوٰۃ المرء فی بیتہ الصلوٰۃ المکتوبۃ‘‘ تو وہ اسے پھر باقاعدہ جماعت کے ساتھ مساجد میں جاری کرے؟

جواب: تروایح کے بارے میں جو کچھ مجھے معلوم ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ:

(۱) نبی ﷺ دوسرے زمانوں کی بہ نسبت رمضان کے زمانے میں قیام لیل کے لیے زیادہ ترغیب دیا کرتے تھے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیز آپ ﷺ کو بہت محبوب تھی۔

(۲) صحیح روایات سے ثابت ہے کہ حضور ﷺ نے ایک مرتبہ رمضان المبارک میں تین رات نماز تراویح جماعت کے ساتھ پڑھائی اور پھر یہ فرما کر اسے چھوڑ دیا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں یہ تم پر فرض نہ ہوجائے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تراویح میں جماعت مسنون ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ تراویح فرض کے درجہ میں نہیں ہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضور ﷺ چاہتے تھے کہ لوگ ایک پسندیدہ سنت کے طور پر تروایح پڑھتے رہیں، مگر بالکل فرض کی طرح لازم نہ سمجھ لیں۔

(۳) تمام روایات کو جمع کرنے سے جو چیز حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے خود جماعت کے ساتھ رمضان میں جو نماز پڑھائی، وہ اول وقت تھی نہ کہ آخر وقت، اور وہ آٹھ رکعتیں تھیں نہ کہ بیس۔(اگرچہ ایک روایت بیس کی بھی ہے مگر وہ آٹھ والی روایت کی بہ نسبت ضعیف ہے)اور یہ لوگ حضورﷺ کے پیچھے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے بعد واپس جا کر اپنے طور پر مزید کچھ رکعتیں بھی پڑھتے تھے۔ وہ مزید رکعتیں کتنی ہوتی تھیں؟ اس بارے میں کچھ واضح بات نہیں ملتی۔ لیکن بعد میں جو حضرت عمرؓ نے ۲۰ رکعتیں پڑھنے کا طریقہ رائج کیا اور تمام صحابہؓ نے اس سے اتفاق کیا۔اس سے یہی سمجھ آتا ہے کہ وہ زائد رکعتیں ۱۲ہوتی تھیں۔

(۴)حضور ﷺ کے زمانے سے لے کر حضرت عمرؓ کے ابتدائی زمانہ تک باقاعدہ ایک جماعت میں سب لوگوں کے تراویح پڑھنے کا طریقہ رائج نہ تھا، بلکہ لوگ یا تو اپنے اپنے گھروں میں پڑھتے تھے یا مسجد میں متفرق طور پر چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی شکل میں پڑھاتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے جو کچھ کیا وہ صرف یہ تھا کہ اس تفرق کو دور کرکے سب لوگوں کو ایک جماعت کی شکل میں نماز پڑھنے کا حکم دے دیا۔ اس کے لیے حضرت عمرؓ کے پاس یہ حجت موجود تھی کہ حضور ﷺ نے خود تین بار جماعت کے ساتھ تراویح پڑھائی تھی۔ اس لیے اس فعل کو بدعت نہیں کہا جاسکتا اور چوں کہ حضور ﷺ کے گزر جانے کے بعد اس امر کا اندیشہ باقی نہ رہا تھا کہ کسی کے فعل سے یہ چیز فرض قرار پاسکے گی، اس لیے حضرت عمرؓ نے ایک سنت اور مندوب چیز کی حیثیت سے اس کو جاری کردیا۔ یہ حضرت عمرؓ کے تفقہ کی بہترین مثالوں میں سے ایک ہے کہ انہوں نے شارع کے منشا کو ٹھیک ٹھیک سمجھا اور امت میں ایک صحیح طریقے کو رائج فرمادیا۔صحابہ کرامؓ میں سے کسی کا اس پر اعتراض نہ کرنا، بلکہ بسرو چشم اسے قبول کرلینا یہ ثابت کرتا ہے کہ شارع کے اس منشا کو بھی ٹھیک ٹھیک پورا کیا گیا کہ ’’اسے فرض کے درجہ میں نہ کردیا جائے۔‘‘ چنانچہ کم از کم ایک بار تو ان کا خود تراویح میں شریک نہ ہونا ثابت ہے۔ جب کہ وہ عبدالرحمٰن بن عبدؓ کے ساتھ نکلے اور مسجد میں لوگوں کو تراویح پڑھتے دیکھ کر اظہار تحسین فرمایا۔

(۵) حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب باقاعدہ جماعت کے ساتھ تروایح پڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا تو باتفاق صحابہ کرام بیس رکعتیں پڑھی جاتی تھیں اور اس کی پیروی حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے زمانہ میں بھی ہوئی۔ تینوں خلفا کا اس پر اتفاق اور پھر صحابہ کرامؓ کا اس میں اختلاف نہ کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ نبی ﷺ کے عہد سے لوگ تراویح کی بیس ہی رکعتوں کے عادی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ تینوں بیس ہی رکعت کے قائل ہیں، اور ایک قول امام مالکؒ کا بھی اسی کے حق میں ہے۔ داؤد ظاہریؒ نے بھی اس کو سنت ثابتہ تسلیم کیا ہے۔

(۶) حضرت عمر بن عبدالعزیز اور حضرت ابان بن عثمان نے ۲۰ کی بجائے ۳۶ رکعتیں پڑھنے کا جو طریقہ شروع کیا، اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ ان کی تحقیق خلفائے راشدین کی تحقیق کے خلاف تھی، بلکہ ان کے پیش نظر یہ تھا کہ مکہ سے باہر کے لوگ ثواب میں اہل مکہ کے برابر ہوجائیں۔ اہل مکہ کا قاعدہ یہ تھا کہ وہ تراویح کی ہر چار رکعتوں کے بعد کعبے کا طواف کرتے تھے۔ ان دونوں بزرگوں نے ہر طواف کے بدلے۴ رکعتیں پڑھنی شروع کردیں۔ یہ طریقہ چوں کہ اہل مدینہ میں رائج تھا اور امام مالکؒ اہل مدینہ کے عمل کو سند سمجھتے تھے۔ اس لیے انہوں نے بعد میں ۲۰ کی بجائے ۳۶ کے حق میں فتویٰ دیا۔

(۷)علما جس بنا پر یہ کہتے ہیں کہ جس بستی یا محلہ میں سرے سے نماز تراویح باجماعت ادا ہی نہ کی جائے، اس کے سب لوگ گناہ گار ہیں، وہ یہ ہے کہ تراویح ایک سنت الاسلام ہے جو عہد خلافت راشدہ سے تمام امت میں جاری ہے۔ ایسے ایک اسلامی طریقہ کو چھوڑ دینا اور بستی کے سارے ہی مسلمانوں کا مل کر چھوڑ دینا دین سے عام بے پروائی کی علامت ہے جس کو گوارا کرلیا جائے تو رفتہ رفتہ وہاں سے تمام اسلامی طریقوں کے مٹ جانے کا اندیشہ ہے۔ اس پر جو معارضہ آپ نے کیا ہے، اس کا جواب اوپر نمبر ۴ میں گزر چکا ہے۔

(۸) اس امر میں اختلاف ہے کہ تراویح کے لیے افضل وقت کون سا ہے عشاء کا وقت یا تہجد کا؟ دلائل دونوں کے حق میں ہیں، مگر زیادہ تر رجحان آخر وقت ہی کی طرف ہے۔ البتہ اول وقت کی ترجیح کے لیے یہ بات بہت وزنی ہے کہ مسلمان بحیثیت مجموعی اول وقت ہی کی تراویح پڑھ سکتے ہیں۔ آخر وقت اختیار کرنے کی صورت میں امت کے سواداعظم کا اس ثواب سے محروم رہ جانا ایک بہت بڑا نقصان ہے اور اگر چند صلحا آخر وقت کی فضلیت سے مستفید ہونے کی خاطر اول وقت کی جماعت میں شریک نہ ہوں تو اس سے یہ اندیشہ ہے کہ عوام الناس یا ان صلحا سے بدگمان ہوں یا ان کی عدم شرکت کی وجہ سے خود تراویح ہی چھوڑ بیٹھیں یا پھر ان صلحا کو اپنی تہجد خوانی کا ڈھنڈورا پیٹنے پر مجبور ہونا پڑے۔

ھذا ما عندی والعلم عند اللہ وھوا علم بالصواب

(ترجمان القرآن، رجب، شعبان ۱۳۷۱ھ، اپریل، مئی ۱۹۵۲ء)