پوتے کی محرومی وراثت

سوال: دادا کی زندگی میں اگر کسی کا باپ مرجائے تو پوتے کو وراثت میں سے کوئی حق نہیں پہنچتا۔ یہ مشہور شرعی مسئلہ ہے جس پر اس وقت حکومت کی طرف سے عمل ہو رہا ہے۔ اس بارے میں مختلف مسلک کیا ہیں اور آپ کس مسلک کو مزاج اسلامی سے قریب تر خیال فرماتے ہیں۔ اگر آپ کا مسلک بھی مذکورہ ہی ہے تو اس الزام سے بچنے کی کیا صورت ہے کہ اسلامی نظام جو یتیم کی دستگیری کا اس قدر مدعی ہے، ایک یتیم کو محض اس لئے دادا کی وراثت سے محروم قرار دیتا ہے کہ وہ اپنے باپ کو دادا کی وفات تک زندہ نہ رکھ سکا؟

جواب: فقہائے اسلام میں یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ دادا کی موجودگی میں جس پوتے کا باپ مرگیا ہو، وہ وارث نہیں ہوتا بلکہ وارث اس کے چچا ہوتے ہیں۔ اگرچہ ابھی تک مجھے قرآن و حدیث میں کوئی ایسا صریح حکم نہیں ملا جسے فقہا کے اس متفقہ فیصلہ کی بنا پر قرار دیا جاسکے۔ لیکن بجائے خود یہ بات کہ فقہائے امت سلف سے خلف تک اس پر متفق ہیں، اس کو اتنا قوی کردیتی ہے کہ اس کے خلاف کوئی رائے دینا مشکل ہے۔ ویسے بھی یہ بات معقول معلوم ہوتی ہے کہ کیوں کہ پوتا بہرحال اپنے باپ کے واسطے ہی سے دادا کے مال میں حقدار ہوسکتا ہے نہ کہ براہ راست خود۔ اسی طرح بہو اپنے شوہر کے واسطے سے خسر کے مال میں سے حصہ پاسکتی ہے نہ کہ براہ راست خود۔ اگر ایک شخص کا بیٹا اس کی زندگی میں مرجائے اور وہ شادی شدہ نہ ہو۔ تو آپ خود مانیں گے کہ اس کا حصہ ساقط ہوجائے گا۔ یہ نہیں ہوگا کہ باپ کے مرنے پر اس کے ترکے میں سے اس کے فوت شدہ بیٹے کا حصہ بھی نکالا جائے اور پھر اس بیٹے کی میراث اس کی ماں اور اس کے بھائیوں وغیرہ کو پہنچائی جائے۔ اسی طرح اگر اس فوت شدہ لڑکے کی کوئی بیوی موجود ہو تو آپ خود مانیں گے کہ وہ اپنے خسر کے ترکہ میں سے حصہ پانے کی مستحق نہیں ہے۔ قطع نظر اس کے کہ اس کا نکاح ثانی ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔ پھر آپ کو کیوں اصرار ہے کہ صرف اس کا بیٹا موجود ہونے کی صورت میں اس کا حصہ ساقط نہ ہو بلکہ وہ اس کے بیٹے کو پہنچے؟

رہا یتیم کی پرورش کا سوال، تو شریعت کی رو سے اس کے چچا اس کے ولی ہوتے ہیں اور ان پر اس کا حق ہے کہ وہ اس کی پرورش کا انتظام کریں۔ نیز شریعت نے وصیت کا حکم اسی لئے دیا ہے کہ اگر کوئی مرنے والا اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو اور اس کے خاندان کے کچھ لوگ مستحق موجود ہیں تو وہ ان کے حق میں وصیت کرے۔ ۳/۱ حصہ مال کی حد تک وہ وصیت کر سکتا ہے اور اس میں یہ گنجائش موجود ہے کہ اگر وہ کوئی یتیم پوتا چھوڑ رہا ہے، یا کوئی بیوہ بہو چھوڑ رہا ہے جو بے سہارا ہو یا کوئی بیوہ بھاوج یا غریب بھائی یا بیوہ بہن چھوڑ رہا ہے، تو ان کے لئے وصیت کر جائے۔ یہ گنجائش اسی لئے رکھی گئی ہے کہ قانونی وراثوں کے سوا خاندان میں جو لوگ مدد کے محتاج ہوں۔ ان کی مدد کا انتظام کیا جاسکے۔

(ترجمان القرآن۔ جمادی الاخری ۱۳۷۱ھ، مارچ ۱۹۵۲ء)