عورت اور سفر حج

سوال: عورت کے محرم کے بغیر حج پر جانے کے بارے میں علمائے کرام کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے۔ آپ براہ کرم مختلف مذاہب کی تفصیل سے آگاہ فرمائیں اور یہ بھی بتائیں کہ آپ کے نزدیک قابل ترجیح مسلک کونسا ہے؟

جواب: عورت کے بلا محرم حج کرنے کا مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ اس معاملہ میں چار مسلک پائے جاتے ہیں جنہیں میں مختصراً یہاں بیان کئے دیتا ہوں۔

۱۔ عورت کو کسی حال میں شوہر یا محرم کے بغیر حج نہیں کرنا چاہیے۔ یہ مسلک ابراہیم نخعی، طاؤس، شعبی اور حسن بصری سے منقول ہے اور حنبلی مذہب کا یہی فتویٰ ہے۔

۲۔ اگر حج کا سفر تین شبانہ روز سے کم ہو تو عورت بلا محرم جاسکتی ہے، لیکن اگر تین دن یا اس سے زائد کا سفر ہو تو شوہر یا محرم کے بغیر نہیں جاسکتی۔ امام ابو حنیفہؒ اور سفیان ثوریؒ کا یہی مذہب ہے۔

۳۔ جو عورت شوہر یا محرم نہ رکھتی ہو وہ ایسے لوگوں کے ساتھ جاسکتی ہے جن کی اخلاقی حالت قابل اطمینان ہو۔ یہ ابن سیرین، عطاء، زہری، قتادہ، اور اوزاعی کا مسلک ہے اور امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کا بھی یہی مذہب ہے۔ امام شافعیؒ نے ’’قابل اطمینان رفیقوں‘‘ کی مزید تشریح اس طرح کی ہے کہ اگر چند عورتیں بھروسے کے قابل ہوں اور وہ اپنے محرموں کے ساتھ جارہی ہوں تو ایک بے شوہر اور بے محرم عورت ان کے ساتھ جاسکتی ہے۔ البتہ صرف ایک عورت کے ساتھ اسے نہ جانا چاہیے۔

۴۔ ان سب کے خلاف ابن حزمؒ ظاہری کا مسلک یہ ہے کہ بے محرم عورت کو تنہا ہی حج کے لیے جانا چاہیے۔ اگر وہ شوہر رکھتی ہو اور وہ اسے نہ لے کر جائے تو شوہر گناہ گار ہوگا مگر عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ اس کے بغیر حج کو چلی جائے۔

میں ان چاروں مسالک میں سے تیسرے مسلک کو ترجیح دیتا ہوں کیونکہ اس میں ایک دینی فریضہ کو ادا کرنے کی گنجائش بھی ہے اور اس فتنے کا احتمال بھی نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے حدیث میں عورت کے بلا محرم سفر کرنے کو منع کیا گیا ہے۔

(ترجمان القرآن، ذی الحجہ ۱۳۷۱ھ، ۱۹۵۲ء)