استمنا بالید کا شرعی حکم

سوال: ایک شخص کا شباب عروج پر ہے۔ نفسانی جذبات کا زور ہے۔ اب ان جذبات کو قابو میں رکھنے کی چند ہی صورتیں ہوسکتی ہیں۔

یہ کہ وہ نکاح کرے مگر جس لڑکی سے اس کی نسبت ہے وہ اتنی چھوٹی ہے کہ کم از کم تین چار سال انتظار کرنا ہوگا۔

یہ کہ وہ اپنے خاندان سے باہر کہیں اور شادی کرلے۔ مگر ایسا کرنے سے تمام خاندان ناراض ہوتا ہے، بلکہ بعید نہیں کہ اس کا اپنے خاندان سے رشتہ ہی کٹ جائے۔

یہ کہ وہ اس نسبت سے کوئی عارضی نکاح کرلے کہ اپنی خاندانی منسوبہ سے شادی ہوجانے کے بعد پہلی بیوی کو طلاق دے دے گا۔ مگر اس میں اور متعہ میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔

یہ کہ اپنی خواہشات کو قابو میں رکھنے کے لیے مسلسل روزے رکھے۔ مگر وہ ایک محنت پیشہ آدمی ہے جسے تمام دن مشغول رہنا پڑتا ہے۔ اتنی محنت روزوں کے ساتھ سخت مشکل ہے۔

آخری چارہ کار یہ ہے کہ وہ زنا سے بچنے کے لیے اپنے ہاتھ سے کام لے۔ کیا ایسے حالات میں وہ اس طریقے کو اختیار کرسکتا ہے۔

جواب: نکاح بالید، یعنی ہاتھ سے شہوت رفع کرنے کے بارے میں فقہائے اسلام کے تین مسلک ہیں:

۱۔ یہ کہ وہ مباح ہے اور زیادہ سے زیادہ اگر اس کے خلاف کچھ کہا جاسکتا ہے تو صرف اس قدر کہ مکارم اخلاق کے خلاف ہونے کی وجہ سے وہ ایک مکروہ نا پسندیدہ فعل ہے۔ اس مسلک کے حامی یہ دلیل دیتے ہیں کہ کسی نص میں اس فعل کے حرام ہونے کی تصریح نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ (اللہ نے جو کچھ تم پر حرام کیا ہے اس کو وہ تمہارے لیے مفصل بیان کرچکا ہے)۔لہٰذا جب محرمات کی تفصیل میں یہ مذکور نہیں ہے تو حلال ہے۔ ابن حزم نے محلی میں اس رائے کو پورے دلائل کے ساتھ بیان کیا ہے اور سند کے ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ حسن بصری، عمرو بن دینار اور مجاہد اس کی اباحت کے قائل تھے، اور عطا اس کو صرف مکروہ سمجھتے تھے (جلد ۱۱، صفحہ ۹۳، ۳۹۲)۔ علامہ آلوسی نے اپنی کتاب ’’روح المعانی‘‘ میں امام احمد بن حنبلؒ کی یہ رائے نقل کی ہے کہ ’’یہ فعل عند الضرورت اسی طرح جائز ہے جیسے فصد اور پچھنے‘‘ (جلد۱۸، صفحہ ۱۰) لیکن مجھے فقہ حنبلی کی کسی مستند کتاب میں فتویٰ نہیں ملا۔

۲۔ یہ کہ وہ حرام ہے لیکن اگر زنا کے فتنے میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہو اور آدمی اس سے بچنے کے لیے اس طریقے سے شہوت کی تسکین کرلے تو امید ہے کہ اسے عذاب نہ دیا جائے گا۔ یہ رائے حنفیہ کی ہے۔ چنانچہ ردالمختار میں تصریح ہے کہ یہ فعل حرام اور مستلزم عذاب ہے، الا یہ کہ اگر زنا کے اندیشے سے کوئی اس کا ارتکاب کرے تو یرجیٰ اَلَّا وبال علیہ (باب الصوم اور باب الحدود)۔ اسی کے قریب علامہ آلوسی نے ابن ہمام کا قول نقل کیا ہے (حوالہ مذکور) اور اسی سے ملتی جلتی رائے علامہ عابدین نے فقیہ ابو للیث سے نقل کی ہے۔ اس رائے کے حق میں کوئی خاص نص نہیں ہے، بلکہ یہ اسلام کے اصول عامہ سے مستبط کی گئی ہے، مثلاً حالت اضطرار میں حرام شے کے استعمال کی اجازت اور دو ناجائز کاموں کے ناگزیر ہوجانے کی صورت میں کم تر درجے کے ناجائز کو اختیار کرنے کا قاعدہ۔

۳۔ یہ کہ قطعاً حرام ہے۔ امام شافعیؒ اور امام مالکؒ کی یہی رائے ہے، اور وہ سورۃ مومنون کی اس آیت سے استدلال کرتے ہیں:

وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ( 29 ) إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ( 30 ) فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاء ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ ( 31 )

’’اور جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، بجز اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو ان کی ملک یمین میں ہوں، کہ (ان سے پرہیز نہ کرنے میں) وہ قابل ملامت نہیں ہیں۔ پھر جو اس کے ما سوا کوئی اور راہ (قضائے شہوت) کی تلاش کرے تو ایسے ہی لوگ زیادتی کرنے والے ہیں‘‘۔

اس آیت سے وہ استدلال کرتے ہیں کہ منکوحہ بیوی اور ملک یمین میں آئی ہوئی لونڈی کے سوا تسکین شہوت کی تمام صورتیں ازروئے قرآن مجید حرام ہیں، خواہ وہ زنا ہو یا استمنا بالید، یا عمل قوم لوط یا وطی بہائم، یا کچھ اور پھر اسی کی تائید یہ احادیث بھی کرتی ہیں۔

ناکح الید ملعون

’’اپنے ہاتھ سے نکاح کرنے والا ملعون ہے‘‘۔

عذاب اللہ تعالیٰ امۃ کانوا یعیثون بمذا کیرھم

’’اللہ نے ایسے لوگوں کو عذاب دیا جو اپنے اعضائے جنسی سے کھیلتے تھے۔‘‘

یہ دونوں حدیثیں علامہ آلوسی نے روح المعانی میں نقل کی ہیں۔ ابن کثیر نے اس آیت کی تفسیر میں ایک اور حدیث نقل کی ہے مگر ساتھ ہی یہ تصریح بھی کردی ہے کہ یہ حدیث غریب ہے، نیز اس کی سند میں ایک راوی غیر معروف ہے۔

سبعۃ الاینظر اللہ الیھم یوم القیامہ ولایز کیھم ولا یجمعھم مع العالمین وید خلھم النار فی اول الداخلین الا ان یتوبوا ومن تاب تاب اللہ علیہ الناکح یدہ، والفاعل والعفول بہ، ومد من الخمر، والضارب والدیہ حتیٰ یستغیثا، والمو ذی جیر انہ حتیٰ یلعنوہ، والناکح حلیلۃ جارہ

سات آدمی ہیں جن کی طرف اللہ قیامت کے روز نظر نہ فرمائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور سب سے پہلے دوزخ میں داخل ہونے والوں میں شامل کرے گا، الا یہ کہ وہ توبہ کرلیں اور جو توبہ کرے اللہ اسے معاف کردیتا ہے (۱) اپنے ہاتھ سے نکاح کرنے والا (۲) عمل قوم لوط کرنے والا (۳) یہ فعل کرانے والا (۴) عادی شراب خور (۵) اپنے والدین کو مارنے والا یہاں تک کہ وہ فریاد کریں (۶) اپنے ہمسایوں کو ستانے والا یہاں تک کہ وہ اس پر لعنت کریں (۷) اپنے ہمسائے کی بیوی سے بدکاری کرنے والا۔

ان مختلف مسلکوں اور ان کے دلائل پر نگاہ ڈالنے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ پہلا مسلک نہایت کمزور بلکہ غلط ہے۔ اس لیے کہ قرآن مجید میں حرام چیزوں کی تفصیل بیان ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ سب حرام چیزوں کو نام بنام بیان کیا گیا ہو، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں حرام و حلال کے کلی اصول بیان کردیے گئے ہیں۔ پس ہر وہ چیز جو قرآن مجید کے بیان کردہ کسی کلیہ کے تحت آتی ہو، اس پر وہی حکم جاری ہوگا جو کلیہ میں ارشاد ہوا ہو، الا یہ کہ اس کو مستثنیٰ قرار دینے کے لیے کوئی دلیل موجود ہو۔اب سوال یہ ہے کہ جب قرآن مجید یہ عام قاعدہ بیان کرچکا ہے کہ بیویوں اور مملوکہ عورتوں کے سوا قضاء شہوت کے تمام طریقے عدوان ہیں، تو اس سے نکاح بالید کے مستثنیٰ ہونے کی آخر کیا دلیل ہے۔ اس کے جواب میں بعض لوگوں نے یہ دلیل پیش کی ہے کہ ’’عرب میں اس فعل کا کوئی رواج نہ تھا، نہ کلام عرب میں اس کا کوئی ذکر ہے، لہٰذا فمن ابتغیٰ ورآء ذالک میں یہ داخل نہیں ہے‘‘۔ لیکن یہ دلیل دو وجوہ سے غلط ہے۔ ایک یہ کہ لغت عرب میں اس کے لیے جلد عمیرہ اور خضخضۃ کے الفاظ موجود ہیں اور زبان میں کسی کا لفظ موجود ہونا اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ اہل زبان اس تصور سے آشنا تھے۔ دوسرے یہ کہ اگر عرب اس سے واقف نہ تھے تو خدا تو انسانوں کے سب افعال سے واقف تھا۔ اس کے بیان کردہ کلیات صرف انہی جزئیات تک آخر کیسے محدود ہوجائیں گے جن سے اس زمانے کے عرب واقف ہوں۔

ان دلائل کی بنا پر صحیح مسلک یہی ہے کہ یہ فعل حرام ہے۔ البتہ عقل یہ حکم لگاتی ہے کہ اس کی حرمت زنا، اور عمل قوم لوط اور وطی بہائم کی بہ نسبت کم تر ہے۔ اس لیے اگر کسی شخص کو ان گناہوں میں سے کسی ایک میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہو اور اس سے بچنے کے لیے وہ اپنے جوش طبع کی تسکین اس ذریعے سے کرلے تو اس کے حق میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’’شاید اللہ تعالیٰ اسے سزا نہ دے‘‘۔

اب اس خاص شخص کا مسئلہ لیجیے جس کے بارے میں سوا ل کیا گیا ہے۔ اس کو پہلے تو میں اللہ تعالیٰ کی یہ نصیحت یاد دلاؤں گا کہ

وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّى يُغْنِيَهُمْ اللَّهُ مِن فَضْلِه

پھر میں اس سے صاف کہوں گا کہ تمہارے معاملے میں وہ حالت ہر گز موجود نہیں ہے جسے تم ایک حرام چیز کو حلال کرنے کے لیے معذرت کے طور پیش کر رہے ہو۔ تم محض اپنے خاندان کے خوف سے نکاح نہیں کرتے، حالاں کہ اس خاندان نے ایک جوان آدمی کو ایک کم سن لڑکی کے ساتھ منسوب کرکے اپنی نادانی کا پورا ثبوت دے دیا ہے۔ اب اگر تم نکاح کے مواقع پاتے ہو مگر خاندان کی ناراضی سے ڈر کر نہیں کرتے تو خواہ تم کوئی سا گناہ بھی کرو، خدا کے ہاں ضرور ماخوذ ہوگے، کیوں کہ حقیقی مجبوری تمہیں کوئی نہیں ہے، حجتیں ڈھونڈنے کی بجائے سیدھی طرح فیصلہ کرو کہ خوف کا مستحق کون زیادہ ہے؟ خدا یا خاندان؟

(ترجمان القرآن، محرم، صفر ۱۳۷۲ھ، اکتوبر، نومبر ۱۹۵۲ء)