نکاح شغار

سوال: مسلمانوں میں عموماً رواج ہوگیا ہے کہ دو شخص باہم لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی ادل بدل کے اصول پر کرتے ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کئی اشخاص مل کر اس طرح کاادل بدل کرتے ہیں۔ مثلاً زید بکر کے لڑکے کے ساتھ، بکر عمر کے لڑکے کے ساتھ اور عمر زید کے لڑکے کے ساتھ اپنی لڑکیوں کا نکاح کر دیتے ہیں۔ ان صورتوں میں عموماً مہر کی ایک ہی مقدار ہوتی ہے۔ بعض علمائے دین اس طریقہ کو شغار کہتے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ شغار کو نبیﷺ نے منع فرمایا ہے بلکہ حرام قرار دیا ہے۔

بحالات موجودہ ایک غریب آدمی یہ طریقہ اختیار کرنے پر مجبور بھی ہوتا ہے، کیوں کہ جس آسانی سے دوسرے لوگ اس کی لڑکی کو قبول کرنے پر تیار ہوتے ہیں، اس آسانی سے اس کے لڑکے کو رشتہ دینے پر تیار نہیں ہوتے۔

براہ کرم اس مسئلہ کی حقیقت واضح فرمادیں۔

جواب: عام طور پر ادلے بدلے کے نکاح کا جو طریقہ ہمارے ملک میں رائج ہے، وہ دراصل اسی شغار کی تعریف میں آتا ہے جس سے نبیﷺ نے منع فرمایا ہے۔ شغار کی تین صورتیں ہیں اور وہ سب ناجائز ہیں۔

ایک یہ کہ ایک آدمی دوسرے کو اس شرط پر اپنی لڑکی دے کہ وہ اس کے بدلے میں اپنی لڑکی دے گا اور ان میں سے ہر ایک لڑکی دوسری لڑکی کا مہر قرار پائے۔

دوسرے یہ کہ شرط تو وہی ادلے بدلے کی ہو مگر دونوں کے برابر برابر مہر (مثلاً ۵۰، ۵۰ ہزار روپیہ) مقرر کئے جائیں اور محض فرضی طور پر فریقین میں ان مساوی رقموں کا تبادلہ کرلیا جائے۔ دونوں لڑکیوں کو عملاً ایک پیسہ بھی نہ ملے۔

تیسرے یہ کہ ادلے بدلے کا معاملہ فریقین میں صرف زبانی طور پر ہی طے نہ ہو بلکہ ایک لڑکی کے نکاح میں دوسری لڑکی کا نکاح شرط کے طور پر شامل ہو۔

ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھی اختیار کی جائے گی، شریعت کے خلاف ہوگی۔ پہلی صورت کے ناجائز ہونے پر تو تمام فقہا کا اتفاق ہے۔ البتہ باقی دو صورتوں کے معاملہ میں اختلاف واقع ہوا ہے۔ لیکن مجھے دلائل شرعیہ کی بنا پر یہ اطمینان حاصل ہے کہ یہ تینوں صورتیں شغار ممنوع کی تعریف میں آتی ہیں اور تینوں صورتوں میں اس معاشرتی فساد کے اسباب یکساں طور پر موجود ہیں جن کی وجہ سے شغار کو منع کیا گیا ہے۔

(ترجمان القرآن، رجب، شعبان ۱۳۷۱ھ، اپریل، مئی ۱۹۵۲ء)