شادی بیاہ میں کفاء ت کا لحاظ

سوال: ترجمان القرآن بابت ذی القعدہ و ذی الحجہ ۱۳۷۰ھ میں آپ نے مولانا ظفر احمد صاحب عثمانی کے جواب میں ایک جگہ ایسے تسامح سے کام لیا ہے جو ناقابل برداشت ہے۔ مولانا موصوف نے آپ سے دریافت کیا تھاکہ ’’کیا ایک سید ہندوستان میں رہنے کی وجہ سے سید نہ رہے گا بلکہ جُلاہا بن جائے گا؟ ‘‘ میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ آپ نے بھی جواب میں دبی زبان سے اس غیر اسلامی امتیاز کو یہ کہہ کر تسلیم کرلیا کہ ’’دارالکفر کے ایک سید صاحب، دارالاسلام کی ایک سیدانی کے باعتبار نسب کفو ہی سہی۔‘‘ آپ کے الفاظ مبہم ہیں۔ کیا آپ بھی مسئلہ کفو کو اسلام میں جائز سمجھتے ہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو آپ قرآن و حدیث سے استشہاد پیش فرماکر میرا اطمینان فرمائیں۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ دنیا کے کام کاج اور پیشوں کو انسانیت کی اونچ نیچ میں کیوں دخل ہو؟ بنی نوع انسان سب آدمؑ کی اولاد ہیں۔ کیا حضرت داؤدؑ نے اگر لوہے کا کام کیا ہے تو وہ لوہار ٹھہریں گے؟

جواب: آپ نے کفاء ت کے مسئلے پر جو اعتراض کئے ہیں، اس سے مجھے اتفاق نہیں ہے۔ طرز تعبیر میں اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن نفس مسئلہ کفاء ت تو عقل اور نقل دونوں سے ہے۔ تفصیلات سے قطع نظر، بجائے خود نکاح میں اس کے معتبر ہونے پر آئمہ اربعہ کا اتفاق ہے۔

اس مسئلے کا ماخذ متعدد احادیث ہیں مثلاً:

لا تنکحوا النساء الا الا کفاء (دارقطنی، بیہقی)

’’عورتوں کی شادیاں نہ کرو مگر ان کے لوگوں کے ساتھ جو کفو ہوں۔‘‘

یا علی ثلاث لا تو خرھا۔ الصلوٰۃ اذ اتت، والجنازۃ اذا حضرت، والایم اذو جدت کفا (ترمذی، حاکم)

’’اے علیؓ ! تین کام ہیں جن کو ٹالنا نہ چاہیے، ایک نماز کا جبکہ اس کا وقت آجائے۔ دوسرے جنازہ جبکہ تیار ہوجائے۔ تیسرے بن بیاہی عورت کا نکاح جبکہ اس کے لیے کفو مل جائے۔‘‘

تخیروا لنطفکم انکحوا الا کفاء۔

اپنی نسل پیدا کرنے کے لیے اچھی عورتیں تلاش کرو، اور اپنی عورتوں کے نکاح ایسے لوگوں سے کرو جو ان کے کفو ہوں۔

(یہ حدیث حضرت عائشہؓ، انسؓ، عمر بن الخطابؓ، سے متعدد طریقوں سے مروی ہے) امام محمدؒ نے ’’کتاب الآثار‘‘ میں حضرت عمرؓ کا یہ قول بھی نقل کیا ہے:

لامنعن فروج ذوات الا حساب الامن الاکفاء۔

’’میں شریف گھرانوں کی عورتوں کے نکاح کفو کے سوا اور کہیں نہ کرنے دوں گا۔‘‘

یہ تو ہے کہ اس مسئلے کی نقلی دلیل۔ رہی عقلی دلیل تو عقل کا صریح تقاضا یہ ہے کہ کسی لڑکی کو کسی شخص کے نکاح میں دیتے وقت یہ دیکھا جائے کہ وہ شخص اس کے جوڑ کا ہے یا نہیں۔ اگر جوڑ کا نہیں ہے تو یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ ان دونوں کا نباہ ہوسکے گا۔ نکاح سے مقصود تو عقلاً بھی اور نقلاً بھی یہی ہے کہ زوجین کے درمیان مودت ورحمت ہو اور وہ ایک دوسرے کے پاس سکون حاصل کرسکیں۔ آپ خود سوچ لیں کہ بے جوڑ نکاحوں سے اس مقصود کے حاصل ہونے کی کہاں تک توقع کی جاسکتی ہے؟ اور کونسا معقول انسان ایسا ہے جو اپنے لڑکے یا لڑکی کا بیاہ کرنے میں جوڑ کا لحاظ نہ کرتا ہو۔ کیا آپ اسلامی مساوات کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ ہر مرد کا ہر عورت سے اور ہر عورت کا ہر مرد سے صرف اس بنا پر نکاح کردیا جائے کہ دونوں مسلمان ہیں، بلا اس لحاظ کے کہ ان میں کوئی مناسبت پائی جاتی ہے یا نہیں؟

فقہا نے اس جوڑ کا مفہوم مشخص کرنے کی کوشش کی ہے اور ہر ایک نے اپنے اپنے طریقے پر بتایا ہے کہ لڑکی اور لڑکے کے درمیان کن کن امور میں مماثلت ہونی چاہیے۔ ہم ان تفصیلات میں بعض فقہا سے اختلاف اور بعض سے اتفاق کرسکتے ہیں مگر فی الجملہ عقل عام یہ تقاضا کرتی ہے کہ زندگی بھر کی شرکت و رفاقت کے لیے جن دو ہستیوں کا ایک دوسرے سے جوڑ ملایا جائے، ان کے درمیان اخلاق، دین، خاندان، معاشرتی طور طریق، معاشرتی عزت و حیثیت، مالی حالات، ساری ہی چیزوں کی مماثلت دیکھی جانی چاہیے۔ ان امور میں اگر پوری یکسانی نہ ہو تو کم از کم اتنا تفاوت بھی نہ ہو کہ زوجین اس کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور رفاقت نہ کرسکیں۔ یہ انسانی معاشرت کا ایک عملی مسئلہ ہے جس میں حکمت عملی کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ آدم کی ساری اولاد کے یکساں ہونے کا نظریہ آپ یہاں چلانا چاہیں گے تو لاکھوں گھر برباد کردیں گے۔ ہاں اگر آپ یہ کہیں کہ محض نسل و نسب کی بنا پر ذات پات اور اونچ نیچ کا تصور ایک جاہلی تصور ہے تو اس بارے میں یقیناً میں آپ سے اتفاق کروں گا۔ جن لوگوں نے کفاء ت کے فقہی مسئلے کو مسخ کرکے ہندوؤں کی طرح کچھ اونچی اور کچھ نیچی ذاتیں قرار دے رکھی ہیں، ان پر مجھے بھی ویسا ہی اعتراض ہے جیسا آپ کو ہے۔

(ترجمان القرآن۔ ذی الحجہ ۱۳۷۱ھ، ستمبر ۱۹۵۲ء)