انسان کے ’’فطرت‘‘ پر پیدا ہونے کا مفہوم

سوال: حدیث ’’کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ اوینصرانہ اویمجسانہ‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ اس سوال کا باعث آپ کی کتاب خطبات کی وہ عبارت ہے جس میں آپ نے خیال ظاہر کیا ہے کہ ’’انسان ماں کے پیٹ سے اسلام لے کر نہیں آتا‘‘۔ اس حدیث کا مطلب عموماً یہ لیا جاتا ہے کہ ہر بچہ مذہب اسلام پر پیدا ہوتا ہے، مگر آپ کی مذکورہ بالا عبارت اس سے ابا کرتی ہے۔ آپ کی اس عبارت کو دیگر معترضین نے بھی بطور اعتراض لیا ہے۔ مگر میں اس کا مطلب کسی اور سے سمجھنے یا خود نکالنے کے بجائے آپ ہی سے سمجھنا چاہتا ہوں۔ کیوں کہ متعدد بار ایسا ہوا ہے کہ معترض نے آپ پر اعتراض کردیا اور بادی النظر میں اس کا اعتراض معقول معلوم ہوا مگر جب آپ کی طرف سے اس عبارت کا مفہوم بیان ہوا تو عقل سلیم نے آپ کے بیان کردہ مفہوم کی تصدیق کی۔

جواب: اس حدیث میں جو حقیقت بیان ہوئی ہے وہ دراصل یہ ہے کہ انسان خدا کے ہاں سے کفر یا شرک یا دہریت لے کر نہیں آتا بلکہ وہ خالص فطرت لے کر آتا ہے جو خدا کے سوا کسی معبود کو نہیں جانتی اور شرائع الٰہیہ کے فطری اصولوں کے سوا کسی چیز سے مانوس نہیں ہوتی۔ اگر اس فطرت پر آدمی برقرار رہے اور کوئی بگڑا ہوا ماحول اسے مشرکانہ افکار و اعمال اور گمراہانہ اخلاق و اوصاف کی طرف نہ موڑے تو اسے انبیا علیہم السلام کی پیش کردہ تعلیمات کو قبول کرنے میں ذرا بھی تامل نہ ہو۔ وہ اس چیز کو اس طرح لے کہ جیسے اس کی اپنی چیز تھی جو کسی نے لا کر اسے دے دی۔

لیکن یہ حقیقت کا صرف ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ’’اسلام‘‘ جس چیز کو کہتے ہیں وہ کسی آدمی کو خود بخود حاصل نہیں ہوجاتی بلکہ صرف انبیا علیہم السلام کے واسطے سے ہی ملتی ہے، اور ایک آدمی مسلم اس وقت ہوتا ہے جب کہ انبیا کے پیش کردہ دین کو جان کر دل سے اس کی صدیق کرے، حتیٰ کہ اگر کوئی شخص سن شعور کو پہنچنے تک ٹھیک ٹھاک اسی فطرت پر قائم رہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا تھا، تب بھی اس کا مسلم ہونا اسی پر موقوف ہوگا کہ نبی کے واسطے سے اس کو دین ملے اور وہ اسے قبول کرے۔ جو شخص اس بات کو نہیں مانتا، وہ دراصل یہ کہتا ہے کہ آدمی ماں کے پیٹ سے جو فطرت لے کر آتا ہے، وہی پورا کا پورا اسلام ہے اور وہی آدمی کے ہدایت یافتہ ہونے کے لیے کافی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کے یہ معنی ہیں کہ شرائع کا نزول اور انبیا کی آمد بالکل غیر ضروری ہے۔ حالاں کہ قرآن مجید جس بات کو بار بار وضاحت کے ساتھ پیش کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ انسان کو بہرحال خدا کی طرف سے ایک رہنمائی کی ضرورت ہے اور وہ ہر شخص کو براہ راست نہیں بلکہ انبیا علیہ السلام کے واسطے سے ہی مل سکتی ہے، اور اس کا اتباع قبول کرنے پر آدمی کی نجات کا دارومدار ہے۔ دیکھئے جس وقت کوئی اجتماعی ماحول سرے سے موجود نہ تھا، اور کسی یہودیت یامجوسیت کا نام و نشان تک نہ تھا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے نوع انسانی کو مخاطب کرکے فرمایا:

فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرہ: 38)

’’پس اگر میری طرف سے تمہارے پاس رہنمائی آئے تو جو لوگ میری رہنمائی کی پیروی کریں گے، ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے‘‘۔

اس سے معلوم ہوا کہ انسان کی جس فطرت کو اللہ تعالیٰ نے فجور اور تقویٰ کی ایک الہامی معرفت بخشی ہے، وہ اگر اپنی سلیم حالت میں بھی محفوظ ہو، پھر بھی وہ خود راستہ پالینے کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے وحی کی رہنمائی ناگزیر ہے۔ فطرت کی صلاحیت زیادہ سے زیادہ بس اتنی ہی ہے کہ وحی کے ذریعہ سے جب اس کے سامنے راہ حق پیش کی جائے تو وہ اسے پہچان لیتی ہے۔ اور اس کی تصدیق کرتی ہے مگر وحی کے بغیر خود راہ یاب ہوجانا اس کے بس میں نہیں ہے۔ نبیﷺ سے بڑھ کر سلیم الفطرت آخر کون ہوسکتا ہے؟ آپﷺ کا حال یہ تھا کہ جب تک وحی نے رہنمائی نہ کی، آپﷺ ٹھٹکے کھڑے تھے اور کچھ نہ جانتے تھے کہ راستہ کدھر ہے۔

وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى اور كَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ

اس اسلام کے متعلق آخر کوئی صاحب علم و عقل آدمی یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ یہ مسلمان گھر میں پیدا ہونے والے ہر آدمی کو آپ سے آپ مل جاتا ہے اور اس کے حاصل ہونے کے لیے سرے سے کسی علم و شعور اور ارادی تصدیق کی حاجت ہی نہیں ہے؟

(ترجمان القرآن۔ محرم، صفر ۱۳۷۲۔ھ اکتوبر، نومبر ۱۹۵۲ء)