قرآن میں زنا کی سزا

سوال: آپ نے میرے مضمون ’’قرآن میں چور کی سزا‘‘ پر جو اظہار خیال فرمایا ہے، اس کے لیے شکریہ۔ اب اسی قسم کا ایک اور مضمون ’’قرآن میں زنا کی سزا‘‘ کے عنوان سے بھیج رہا ہوں۔ میری استدعا ہے کہ آپ اس پر بھی اظہار خیال فرمائیں۔ اگر خدا کو منظور ہوا تو جناب کی دونوں تنقیدوں کا یک جا جواب دوں گا۔

یہاں سرسری طور پر اس قدر گزارش کرنا ضروری ہے کہ آپ نے میری اس تشریح کے بارے میں نکتہ چینی نہیں فرمائی کہ قرآن نے جو سزا بیان کی ہے،وہ زیادہ سے زیادہ سزا ہے، اور کم سے کم سزا جج کی قوت تمیزی پر منحصر ہے اور نہ اس بارے میں کچھ فرمایا کہ دنیا میں کسی جرم کی سزا مجرم کو آخرت کی سزا سے محفوظ رکھتی ہے؟

نوٹ: مستفسر کے محولہ بالا مضمون کے چند ضروری اقتباسات درج ذیل ہیں، تاکہ ان کی روشنی میں جواب کو دیکھا جاسکے۔

’’ہم اپنے سابقہ مضمون(قرآن میں چور کی سزا) میں بتلا چکے ہیں کہ سارقہ سے مراد سرقہ کے تمام مددگار لوگ ہیں، خواہ وہ مونث ہوں یا مذکر، اور خود عورت اگرچور ہے تو وہ لفظ سارق میں بھی داخل ہے اور سارقہ بھی ہے۔ یہاں بھی آیت الزانیۃ والزانی میں وہی کیفیت ہے۔ زانیہ میں فعل زنا کے تمام مددگار لوگ شامل ہیں، خواہ وہ دلال ہوں، دلالہ یا پیغام رساں ہوں، یا زانیوں کے لیے آسانیاں فراہم کرنے والے، یا زنا کے مفعول ہوں، وغیرہ وغیرہ…‘‘

’’چور کی سزا کو بیان کرتے ہوئے ’’سارقہ‘‘ کو سارق کے بعد لایا گیا تھا، آخر کوئی وجہ ہونی چاہیے کہ یہاں زانیہ کو زانی سے پہلے لایا گیا۔ ہمیں جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ چوری کے جرم میں بڑا مجرم چور ہوتا ہے اور اس کے مددگار بعد میں، مگر زنا کی صورت میں زنا کے مددگار (یعنی زانیہ) زانی سے مقدم ہیں، کیوں کہ ان کی امداد اور رضا مندی کے بغیر فعل زنا واقع ہی نہیں ہوسکتا، اس واسطے اسے پہلے لایا گیا۔‘‘

’’قرآن مجید نے زنا کی دو سزائیں بیان کی ہیں، ایک تو یہ کہ زانیوں کو ۱۰۰ کوڑے مارے جائیں اور دوسری یہ کہ ان کا مقاطعہ (بروئے آیت الزانی لا ینکح الا زانیۃ) کردیا جائے۔ یعنی ان کو مومنین کی جماعت سے علیحدہ کرکے یہ اجازت نہ دی جائے کہ وہ توبہ کئے بغیر مومنین کے اندر نکاح کریں‘‘ … ’’قرآن میں دیگر احکام کی رو سے مومن کا مشرکہ کے ساتھ نکاح جائز نہیں اور یہاں اس کے خلاف ہے۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں مشرک اور مشرکہ اپنے لغوی معنوں میں استعمال ہوئے ہیں، یعنی مشرکہ وہ عورت ہے جو اپنے خاوند کے ساتھ کسی دوسرے کو حظ اٹھانے میں شریک کرے اور مشرک وہ مرد ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر عورت کو حظ حاصل کرنے میں شریک کرے‘‘۔

’’پس زانیہ اور مشرکہ کے معنی میں فرق ہے۔ مشرکہ شوہر دار زانیہ ہے اور زانیہ وہ مرد یا عورت ہے جو زنا میں کسی دوسرے کی مدد کرے۔ اپنے آپ کو مفعول بنانے سے یا کسی دوسری طرح۔ اسی طرح زانی اور مشرک میں فرق ہے۔ زانی عام ہے، خواہ اس کی بیوی ہو یا نہ ہو اور مشرک وہ زانی ہے جس کی بیوی ہو‘‘ … ’’جو عالِم صاحبان ہمارے اس قول کو نہیں مانتے وہ زانی کے لیے صرف ایک ہی سزا تجویز کریں گے، یعنی سو (۱۰۰) کوڑے۔ دوسری سزا مقاطعہ ان کے ہاں کوئی سزا نہ ہوگی‘‘… ظاہر ہے کہ یہ کوڑے انتہائی سزا ہے۔

’’ہم نے اپنے مضمون (قرآن میں چور کی سزا) کے اندر لکھا تھا کہ چور کی سزا ہاتھ کاٹنا انتہائی سزا ہے، کم سے کم سزا جج کی قوت تمیزی پر منحصر ہے‘‘ … ’’یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اسلام کی تعزیرات کی کتاب یعنی قرآن مجید اس قاعدے کے خلاف سب مجرموں کے لیے ایک ہی سزا تجویز کرے اور سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکے، حالاں کہ ہر ایک مجرم کے حالات مختلف ہوتے ہیں جن پر جرم کی شدت اور خفت کا دارومدار ہوتا ہے‘‘ … ’’ یہی وجہ ہے کہ خلفائے اربعہ اور خود رسول اکرمﷺ نے زنا کی انتہائی حالتوں میں ۱۰۰ کوڑوں کی سزا کو ناکافی خیال کرکے مجرموں کو رجم کی سزا دی، یعنی فتوائے موت صادر کیا‘‘۔

’’ہمارے زمانے میں رجم جائز ہے یا نہ؟ کم از کم اتنا تو معلوم ہے کہ قرآن میں رجم کا کوئی ذکر نہیں۔ اور جب حالت یہ ہے تو اسے کیوں ایک منسوخ التلاوۃ اور قائم الحکم آیت کی بنا پر زیر بحث لایا جائے‘‘ …’’البتہ عقل اس امر سے بغاوت کرتی ہے کہ بیٹی یا بھتیجی کے ساتھ زنا کرنے والے کو زندہ رہنے دیا جائے۔ اس لیے اگر بعض مخصوص حالتوں میں زانی کے خلاف موت کا فتویٰ صادر کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوتا مگر وہ صرف فتوائے موت ہو، فتوائے رجم نہ ہو، کیوں کہ رجم آج کل کے تمدن کے خلاف ہے اور کوئی انسانی طبیعت رجم کو گوارہ نہیں کرسکتی‘‘ … ’’اس بات کو نظر انداز نہ کرنا چاہیے کہ زنا اور چوری کے مجرموں کی سزا میں ایک بنیادی فرق ہے۔ وہ یہ ہے کہ چور کو توبہ کرنے کا موقع سزا سے قبل دیا گیا ہے اور زانی کو سزا کے بعد دیا۔ (آیت الا الذین تابوا من بعد ذلک… الخ) یہاں ذالک کا اشارہ سزا کی طرف ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ زانی کسی صورت میں حد سے بری نہیں ہوسکتا مگر چور توبہ کرکے حد سے بری ہو سکتا ہے، بشرطیکہ قاضی قبول کرلے۔‘‘

جواب: عنایت نامہ مع مضمون ’’قرآن میں زنا کی سزا‘‘ پہنچا۔ آپ کے پہلے مضمون اور اس دوسرے مضمون کو بغور پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں، (اور میرے اس اظہار خیال پر آپ برا نہ مانیں) کہ آپ آیات قرآن کی تاویل و تفسیر اور احکام شریعہ کی تشریح میں وہ احتیاط ملحوظ نہیں رکھتے جو ایک خدا ترس آدمی کو ملحوظ رکھنی چاہیے۔ اگر آپ میری نصیحت مانیں تو میں دو باتیں بطور اصول کے آپ کو بتادوں۔ ایک یہ کہ آپ بطور خود اپنے نظریات قائم کرکے قرآن و سنت سے ان کے حق میں دلائل ڈھونڈنے کا طریقہ چھوڑ دیں اور اس کے بجائے قرآن و سنت سے جو تعلیم ملے اس کے مطابق نظریات قائم کیا کریں۔ دوسرے یہ کہ قرآن وسنت سے کسی مسئلے کا استنباط کرتے وقت سلف کے مجتہدین و مفسرین و محدثین کی تشریحات کو سرے سے نظر انداز نہ کردیا کریں۔ آپ کو اختیار ہے کہ ان میں سے ایک کی رائے کو چھوڑ کر دوسرے کی رائے قبول کرلیں، لیکن ان میں سے کسی ایک کا آپ کے ساتھ رہنا اس سے بہتر ہے کہ آپ ان سب سے الگ اپنا مستقل مذہب بنائیں۔ تفرد صرف اس صورت میں جائز ہوسکتا ہے جبکہ آپ قرآن و سنت کے گہرے مطالعے سے اعلیٰ درجے کی محققانہ بصیرت بہم پہنچا چکے ہوں۔ (جس کی علامت آپ کی تحریروں میں مجھے نظر نہیں آتیں) اور جس مسئلے میں بھی آپ اپنی منفرد رائے ظاہر کریں، اس میں آپ کے دلائل نہایت مضبوط ہوں۔ ان دو باتوں کو اگر آپ ملحوظ خاطر رکھیں گے تو مجھے امید ہے کہ اس طرح کی غلطیوں سے محفوظ رہیں گے جو میں نے آپ کے مضامین میں پائی ہیں۔

میرے لیے آپ کے مضامین پر مفصل تنقید کرنا تو مشکل ہے، البتہ جو نمایاں غلطیاں میں بیک نظر دیکھ سکا ہوں، انہیں بیان کئے دیتا ہوں۔

(۱) آپ کا یہ قول ایک حد تک صحیح ہے کہ قرآن مجید میں چوری اور زنا کی جو سزا بیان کی گئی ہے، وہ انتہائی سزا ہے، کم سے کم سزا جج کے اختیار تمیزی پر موقوف ہے۔ لیکن اس سے بڑی غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے۔ اس کے ساتھ اس بات کی تصریح بھی ضروری ہے کہ جب زنا کے لیے وہ شہادت بہم پہنچ جائے جو شرعاً ضروری ہے، اور جب شرعی قواعد کے مطابق چوری کا جرم ثابت ہوجائے تو پھر چوری اور زنا کی وہی حد جاری کرنی پڑے گی جو قرآن مجید میں مقرر کردی گئی ہے۔ اس صورت میں حد سے کم سزا دینے کا جج کو اختیار نہیں۔ البتہ کمتر درجہ کی چوریاں کمتر درجہ کی سزاؤں کے قابل ہوں گی، اور ثبوت زنا کے بغیر اگر کمتر درجہ کے فواحش شہادت یا قرائن سے ثابت ہوں گے تو ان پر کمتر درجہ کی سزائیں دی جاسکیں گی۔

(۲) آپ نے اپنے اس مضمون میں بھی اپنی سابق غلطی کا اعادہ کیا ہے کہ الزانیۃ کے معنی ’’فعل زنا کے مددگار لوگ‘‘ بیان کئے ہیں اور اس سے مراد ’’دلال، دلالہ، پیغام رساں اور زانی وزانیہ کے لیے آسانیاں بہم پہنچانے والے‘‘ لیے ہیں۔ قرآن مجید صریح طور پر اس معنی سے ابا کرتا ہے۔ جس آیت میں زانی و زانیہ کی سزا بیان کی گئی ہے، اس میں الزانی سے پہلے الزانیہ کا ذکر ہے اور پھر دونوں کے لیے سزا بیان کی گئی ہے کہ فاجلدواکل واحد منھما مائۃ جلدۃ (دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو) لیکن آپ نے اس پر بھی اپنی رائے کو قرآن مجید کے مطابق بدلنے کی بجائے قرآن مجید کے حکم کو اپنی رائے کے مطابق بدلنے کی کوشش فرمائی۔ یہ بڑی بے جا جسارت ہے جس سے پرہیز واجب تھا۔

(۳)مشرک اور مشرکہ کے جو معنی آپ نے بیان کئے ہیں (یعنی مشرکہ وہ عورت ہے جو اپنے خاوند کے ساتھ دوسرے کو حظ اٹھانے میں شریک کرے اور مشرک وہ مرد ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر عورت کو حظ حاصل کرنے میں شریک کرے) یہ بالکل ہی ایک آزادانہ معنی آفرینی ہے جس کے لیے نہ لغت میں کوئی بنیاد پائی جاتی ہے، نہ اصلاح میں، اور نہ کوئی قرینہ ہی ایسا موجود ہے جس کی بنا پر ایسے دور از قیاس وگمان معنی لیے جاسکیں۔ آیت الزانی لاینکح الا زانیۃ اور مشرکۃ… الخ، میں لاینکح سے مراد لایلیق بہ ان ینکح ہے۔ یعنی زانی ایک ایسا بدکار ہے کہ وہ کسی عفیفہ مومنہ سے نکاح کرنے کے لائق نہیں ہے، اس کے لیے اگر موزوں ہوسکتی ہے تو ایک بدکار یا مشرکہ عورت ہی ہوسکتی ہے، اور زانیہ ایک ایسی فاسقہ و فاجرہ ہے کہ وہ کسی باعصمت مومن کے لیے موزوں نہیں ہے، وہ اگر نکاح کے لائق ہے تو ایک بدکار یا مشرک مرد کے لیے ہوسکتی ہے۔ اس سے مقصود فعل زنا کی قباحت و شناخت واضح کرنا ہے اور یہ بتانا ہے کہ صالح اہل ایمان کو معروف بالزنا مردوں اور عورتوں سے مناکحت کے تعلقات نہ قائم کرنے چاہئیں۔

(۴) یہ ایک عجیب بات میں نے دیکھی ہے کہ آپ خود تسلیم فرما رہے ہیں کہ خلفائے اربعہ اور رسول اللہﷺ نے زنا کی انتہائی حالتوں میں (زانی محصن کی آپ تصریح نہیں کرتے) مجرمین کو رجم کی سزا دی ہے، مگر پھر بھی آپ یہ کہنے میں تامل نہیں کرتے کہ ’’رجم آج کل کے تمدن کے خلاف ہے اور کوئی انسانی طبیعت رجم کو گوارہ نہیں کرسکتی‘‘۔ میں سمجھتا ہوں کہ اپنے ان الفاظ پر آپ خود اگر کبھی غور کریں گے تو آپ کو ندامت محسوس ہوگی۔ کیا کوئی انسانی طبیعت رسول اللہﷺ سے زیادہ پاکیزہ اور رحیم و شفیق ہوسکتی ہے؟ اور کیا ہم مسلمانوں کے لیے آج کل کا تمدن (ایٹم بم والا تمدن) کوئی معیار حق ہے؟

یہ چند معروضات میں صرف اس لیے پیش کر رہا ہوں کہ آپ نے خودمجھ کو اپنے مضامین پر تنقید کی دعوت دی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ جب اتنا بڑا دل رکھتے ہیں کہ تنقید کی خود دعوت دیتے ہیں تو آپ ضرور میری ان باتوں کو ٹھنڈے دل سے پڑھیں گے اور اگر حق معلوم ہوں گی تو قبول کریں گے۔

(ترجمان القرآن، ربیع الاول، ربیع الاخر ۱۳۷۰ھ۔ جنوری، فروری ۱۹۵۱ء)