سحر کی حقیقت اور معوذتین کی شان نزول

سوال: معوذتین کی شان نزول کے متعلق بعض مفسرین نے حضورﷺ پر یہودی لڑکیوں کے جادو کا اثر ہونا اور ان سورتوں کے پڑھنے سے اس کا زائل ہوجانا بحوالہ حدیث تحریر فرمایا ہے۔ یہ کہاں تک درست ہے؟ نیز جادو کی حقیقت کیا ہے؟ بعض اشخاص، حضورﷺ پر جادو کے اثر کو منصب نبوت کے خلاف سمجھتے ہیں؟

جواب: شان نزول کے بارے میں یہ بات پہلے ہی سمجھ لینے کی ہے کہ مفسرین جب کسی واقعہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ آیت اس واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ جب واقعہ پیش آیا، اسی وقت وہ آیت نازل ہوئی تھی بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس واقعہ سے اس آیت کا تعلق ہے۔

معوذتین کے متعلق یہ بات ثابت ہے کہ وہ مکے میں نازل ہوئی اور احادیث میں جادو کا جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ مدینہ طیبہ کا ہے۔ اس لیے یہ کہنا بداہتہً غلط ہے کہ جب جادو کا وہ واقعہ پیش آیا، اسی وقت یہ دونوں سورتیں نازل ہوئیں۔ دراصل اس کا مطلب یہ ہے کہ جب واقعہ پیش آیا تو حضورﷺ کو ان سورتوں کے پڑھنے کی ہدایت فرمائی گئی۔

جادو کی حقیقت اگر آپ سمجھنا چاہیں تو قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ پڑھیں۔ جادوگروں نے لاٹھیوں اور رسیوں کے جو سانپ بنائے تھے، وہ حقیقت میں سانپ نہیں بن گئے تھے، مگر مجمع نے جو وہاں موجود تھا یہی محسوس کیا کہ یہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپوں میں تبدیل ہوگئی ہیں۔ حتٰی کہ خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آنکھیں بھی پیغمبر ہونے کے باوجود اس قدر مسحور ہوگئیں کہ انہوں نے بھی انہیں سانپ ہی دیکھا۔قرآن مجید کا بیان ہے کہ:

فَلَمَّآ اَلْقَوْا سَحَرُوْٓا اَعْیُنَ النَّاسِ وَ اسْتَرْہَبُوْہُمْ (سورۃ الاعراف۔116)

’’جب جادوگروں نے اپنے انچھر پھینکے تو لوگوں کی آنکھوں کو محسور کردیا اور انہیں مرعوب کردیا۔‘‘

فَاِذَا حِبَالُہُمْ وَعِصِیُّہُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِہِمْ اَنَّہَا تَسْعَی(۶۶) فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہِ خِیْفَۃً مُّوسَی (طٰہٰ۔ 66-67)

’’پس یکایک ان کے جادو کی وجہ سے ان کی لاٹھیاں اور رسیاں موسیٰ کو دوڑتی ہوئی محسوس ہوئیں اور موسیٰ اپنے دل میں ڈر گیا‘‘۔

اس سے معلوم ہوا کہ جادو قلب ماہیت نہیں کرتا بلکہ ایک خاص قسم کا نفسیاتی اثر ڈال کر آدمی کے حواس کو متاثر کردیتا ہے۔ نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جادو کی تاثیر عام انسانوں پر ہی نہیں، انبیا پر بھی ہوسکتی ہے۔ اگرچہ اس ذریعہ سے کوئی جادوگر کسی نبی کو شکست نہیں دے سکتا، نہ اس کے مشن کو فیل کرسکتا ہے، نہ اسے اس حد تک متاثر کرسکتا ہے کہ وہ جادو کے زیر اثر آکرمنصب نبوت کے خلاف کوئی کام کر جائے، لیکن بجائے خود یہ بات کہ ایک نبی پر اثر ہوسکتا ہے، خود قرآن مجید سے ثابت ہے۔

احادیث میں نبیﷺ پر جادو کا اثر ہونے کی جو روایات آئی ہیں، ان میں کوئی چیز بھی عقل، تجربے اور مشاہدے کے خلاف نہیں ہے، اور نہ قرآن مجید کی بتائی ہوئی اس حقیقت کے خلاف ہے جس کی میں نے اوپر تشریح کی ہے۔ نبی اگر زخمی یا شہید ہوسکتا ہے تو اس کا جادو سے متاثر ہوجانا کونسی تعجب کی بات ہے؟ روایات سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف یہ ہے کہ چند روز تک حضورﷺ کو کچھ نسیان سا لاحق ہوگیا تھا اور وہ بھی تمام معاملات میں نہیں بلکہ بعض معاملات میں جزوی طور پر۔

(ترجمان القرآن، رمضان، شوال ۱۳۷۱ھ۔ مئی، جون ۱۹۵۲ء)