منکرین حدیث کا ایک اور اعتراض

سوال: منکرین حدیث مسلم شریف کی ایک روایت پیش کرتے ہیں جس کا مضمون یہ ہے کہ ’’آنحضرتﷺ کی ام ولد ماریہ قبطیہ سے زنا کرنے کا الزام ایک شخص پر لگایا گیا۔ آپﷺ نے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ ملزم کو قتل کردیا جائے۔ چنانچہ جب حضرت علیؓ تلوار لے کر اس شخص کو قتل کرنے گئے تو وہ غسل کر رہا تھا۔ حضرت علیؓ نے دیکھا کہ وہ مخنث تھا۔ آپ واپس چلے آئے اور آنحضرتﷺ کو یہ واقعہ سنادیا۔ اس حدیث سے حسب ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں:

۱۔ آنحضرتﷺ نے محض الزام کی بنا پر، مقدمہ کی کاروائی کیے بغیر اور ملزم کی صفائی سنے بغیر اس کے قتل کا حکم کیسے دے دیا؟ حالاں کہ یہ اسلام کی مجموعی اسپرٹ اور ان احادیث کے خلاف ہے جن میں اسلام کا عدالتی نظام بیان ہوا ہے۔

۲۔ زنا کی سزا درے ہے یا رجم (اگر چہ منکرین حدیث رجم کے قائل نہیں) پھر قتل کی سزا مذکورہ مقدمہ میں کیوں دی؟

۳۔ حضرت علیؓ نے ملزم کو برہنہ کیوں دیکھا؟ حالاں کہ آنحضرتﷺ نے کسی کو برہنہ دیکھنے سے کئی احادیث میں منع فرمایا ہے۔

۴۔ حافظ ابن حجر، ابن جوزی، ملا علی قاری اور دوسرے ناقدین حدیث نے جرح وتعدیل کے جو اصول پیدا کیے ہیں، اس کسوٹی پر اس حدیث کا کیا مقام ہے؟ اگر متقدمین پوری احتیاط کے باوجود بہ تقاضائے بشریت اس معاملہ میں اس جگہ چوک گئے ہیں تو کیا متاخرین کو حق نہیں کہ وہ باوجود اہلیت کے اب اس نقص کو پورا کریں؟

۵۔ اس حدیث کے متن پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آنحضرتﷺ کا کلام نہیں ہے بلکہ کوئی راوی مقدمہ کی کاروائی بیان کر رہا ہے اور غالباً تفصیلات کے متعلق اس کو ذہول ہوگیا کہ وہ پوری کاروائی اپنے الفاظ میں بیان نہیں کر سکا۔

جواب: یہ منکرین حدیث دراصل جہل مرکب میں مبتلا ہیں۔ جس چیز کو نہیں جانتے، اسے جاننے والوں سے پوچھنے کی بجائے عالم بن کر فیصلے صادر کرتے ہیں اور پھر انہیں شائع کرکے عوام الناس کو گمراہ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ان کی گمراہ کن تحریریں اکثر ہماری نگاہ سے گزرتی رہتی ہیں اور ان کا کوئی اعتراض ایسا نہیں ہے جس کو دلائل سے رد کیا جاسکتا ہو۔ لیکن جس وجہ سے مجبوراً خاموشی اختیار کرنا پڑتی ہے وہ دراصل یہ ہے کہ لوگ اپنی بحث میں بالعموم بازاری غنڈوں کا سا طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ ان کے مضامین پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی شخص ایک غلاظت بھری جھاڑو ہاتھ میں لیے کھڑا ہو اور زبان کھولنے کے ساتھ ہی مخاطب کے منہ پر اس جھاڑو کا ایک ہاتھ رسید کردے۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کے منہ لگنا کسی شریف آدمی کے بس کی بات نہیں ہے اور نہ اس قماش کے لوگ اس لائق سمجھے جاتے ہیں کہ ان سے کوئی علمی بحث کی جائے۔

بہرحال ہم اس کے لیے تیار ہیں کہ جن شریف آدمیوں کے دل میں ان فتنہ پردازوں کی تحریروں سے کوئی شبہ پیدا ہوجائے، ان کے شبہات رفع کرنے کی کوشش کریں، اگر چہ یہ بات ہماری توقعات کے خلاف ضرور ہے کہ شریف اور معقول لوگ ان کے بیہودہ طرز کلام کو دیکھنے کے باوجود ان کی باتوں کو وزن دینے لگیں۔

جس واقعہ کے متعلق آپ نے سوال کیا ہے، اس کی اصلیت یہ ہے کہ حضرت ماریہ قبطیہؓ کے بارے میں منافقین مدینہ نے یہ افواہ اڑادی تھی کہ اپنے چچا زاد بھائی سے ان کا ناجائز تعلق ہے۔ رفتہ رفتہ یہ بات نبیﷺ کے کانوں تک بھی پہنچی۔ آپﷺ نے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ ’’اذھب فان و جدتہ عند ماریہ فاضرب عنقہ… جاؤ اگر تم اس کو ماریہ کے پاس پاؤ تو اس کی گردن مار دو۔‘‘ بعید نہیں کہ کہنے والے نے حضورﷺ سے یہ کہا ہو کہ وہ وہاں موجود ہے، آپﷺ کسی کو بھیج کر دیکھ لیں، اور اس پر حضورﷺ نے فرمایا ہو کہ اگر وہ وہاں کسی نامناسب حالت میں پایا جائے تو جان سے مار دو۔ اس حکم کے مطابق حضرت علیؓ جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ وہ ایک حوض میں نہا رہا ہے۔ آپ نے جاتے ہی اسے ڈانٹا اور ہاتھ پکڑ کر حوض میں سے کھینچ لیا۔ ظاہر ہے کہ جو شخص پانی سے بھرے ہوئے حوض میں اترا ہو، اس کے بارے میں باہر سے دیکھنے والے کو بیک نظر معلوم نہیں ہوسکتا کہ وہ ننگا ہے یا ستر ڈھانکے ہوئے ہے۔ جب حضرت علیؓ نے اس کو باہر کھینچا تو یکایک آپؓ کی نظر اس کے ستر پر پڑی اور معلوم ہوا کہ وہ تو مقطوع الذکر ہے۔حضرت علی نے اسی وقت اسے چھوڑ دیا اور آکر حضورﷺ کو حقیقت حال بتادی۔

اب فرمائیے کہ اس واقعہ پر کیا اعتراض ہے اور کس پہلو سے ہے؟ یہ بات بھی میں عرض کردوں کہ سند کے لحاظ سے یہ روایت ضعیف نہیں ہے۔

بعض محدثین نے اس کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ اس شخص کے مخنث ہونے کا حال حضورﷺ کو معلوم تھا اور آپﷺ نے حضرت علیؓ کو قتل کا حکم دے کر صرف اس لیے بھیجا تھا کہ جب حضرت علیؓ یہ حکم اسے سنائیں گے تو وہ اپنا راز خود کھول دے گا، اور اس طرح سب لوگوں کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ ساری افواہیں بالکل بے بنیاد ہیں۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر یہ بات نہ بھی ہو تب بھی واقعہ بجائے خود ناقابل اعتراض ہے۔ کیا کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اگر وہ اپنی آنکھوں سے رسول خداﷺ کی بے حرمتی ہوتے دیکھے، اور وہ بھی سخت بے حرمتی، تو وہ ایسے آدمی کو قتل کردے؟ اپنی ماں، یا بیوی یا بہن کے ساتھ فعل ہوتے دیکھنا بھی دنیا میں ایک معقول وجہ اشتعال مانا جاتا ہے۔ کجا کہ پیغمبر خداﷺ کے بستر پر ایسا معاملہ دیکھا جائے۔ تاہم جس شخص کو اس پر اعتراض ہو، اس سے پوچھیے کہ اگر اس کی بیوی کے متعلق ایسی گھناؤنی خبر اسے پہنچے تو اس کا رد عمل کیا ہوگا؟

(ترجمان القرآن۔ جمادی الثانیہ ۱۳۷۱ھ، مارچ ۱۹۵۲ء)