بندوق کے شکار کی حلت و حرمت

سوال: آپ نے تفہیم القرآن میں تکبیر پڑھ کر چھوڑی ہوئی بندوق کے مرے ہوئے شکار کو حلال لکھ کر ایک نئی بات کا اختراع کیاہے جس پر مندرجہ ذیل سوالات اٹھ رہے ہیں مہربانی فرما کر جواب دے کر مشکور فرمادیں۔

۱۔ چاروں امام متفق ہیں کہ بندوق سے مرا ہوا شکار بوجہ چوٹ سے مرنے کے ناجائز اور حرام ہے پھر آپ نے کن دلائل کی بنا پر اس کو جائز لکھا ہے؟

۲۔ بندوق کی گولی میں دھار نہیں ہوتی بلکہ اس کی ضرب شدید سے جانور مرتا ہے۔ کارتوسوں پرعام طور پر لکھا ہوتا ہے کہ اس کی طاقت اتنے پونڈ ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ اس کی دھار اتنی تیز ہے۔ ضرب سے مرا ہوا شکار قطعی ناجائز ہے اور یہ مسئلہ متفق علیہ ہے۔

۳۔ تفسیر حقانی میں لکھا ہے کہ قاضی شوکانی نے بندوق کے مارے ہوئے کے حرام ہونے میں اختلاف کیا ہے لیکن قاضی صاحب کا اختلاف حجت نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ مجروح احادیث بیان کرنے والا ہونے کے علاوہ اہلِ تشیع کی طرف میلان رکھتا ہے۔

۴۔ ’’ اس مسئلہ کو فروع کہنا عوام کودھوکا دینا ہے۔ کیا حرام کو حلال کرنا بھی فروع ہی رہے گا۔‘‘

جواب: سب سے پہلے میں آپ کی اس غلط فہمی کو دور کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو آپ کے سوال نمبر ۴ میں پائی جاتی ہے۔ آپ پوچھتے ہیں ’’کیا حرام کو حلال کرنا بھی فروع ہی رہے گا؟‘‘ اس سلسلے میں آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ایک حرام وحلال تو وہ ہے جو نص صریح میں حلال یا حرام قرار دیا گیا ہو اور وہ اصولی چیز ہے جس میں ردوبدل کرنا موجب کفر ہوجاتا ہے۔ دوسرا حلال و حرام وہ ہے جو نصوص کی دلالتوں یا اشارات یا اقتضاآت سے استنباط کیا جائے۔ یہ فروعی چیز ہے اور اس میں ہمیشہ سے علماء و فقہائے امت حتیٰ کہ صحابہؓ اور تابعین کے درمیان بھی اختلاف رہے ہیں۔ ایک ہی چیز کو کسی نے حلال قرار دیا ہے اور کسی نے حرام کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس نوع کی استنباطی تحلیل و تحریم پر بحث و کلام سے آگے بڑھ کر کسی نے دوسرے کو یہ الزام دیا ہو کہ تمہارا دین بدل گیا ہے یا تم خدا کے حرام کیے کو حلال کررہے ہو۔ افسوس یہ ہے کہ اب ہمارے ہی ملک میں نہیں، دنیا بھر کے مسلمانوں میں ایک مدت سے شرعی مسائل کی آزادانہ تحقیق کا سلسلہ بند ہے اور ہرگروہ کسی ایک مذہب فقہی کی پابندی میں اس قدر جامد ہوگیا ہے کہ اپنے ہی مذہب خاص کو اصل شریعت سمجھنے لگا ہے۔ اس لیے جب لوگوں کے سامنے ان کے مانوس مسلک سے ہٹ کر کوئی تحقیق آتی ہے تو وہ اس پر اس طرح ناک بھوں چڑھاتے ہیں کہ گویا دین میں کوئی تحریف کی گئی ہے۔ حالانکہ سلف میں، جبکہ آزادانہ تحقیق کا دروازہ کھلا ہوا تھا، علماء کے درمیان حلال و حرام اور فرض و غیر فرض تک کے اختلافات ہوجاتے تھے اور ان کو نہ صرف برداشت کیا جاتا تھا بلکہ ہر گز وہ اپنے نزدیک جو حکم شرعی سمجھتا تھا اس پر خود عمل کرنے کے ساتھ دوسروں کو بھی یہ حق دیتا تھا کہ ان کے نزدیک جو حکم شرعی ہو اس پر وہ عمل کریں۔

اسی کھانے پینے کے مسئلےمیں علماء سلف کے درمیان جو اختلافات ہوئے ہیں ان کی چند مثا لیں میں یہاں نقل کرتاہوں اورآپ ہی سے پوچھتا ہوں کہ ان حضرات میں کس کو آپ حرام کے حلال یا حلال کے حرام کردینے کا الزام دے سکتے ہیں۔

حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ وہ درندوں کے گوشت اور اس خون کے استعمال میں جو رگوں کے اوپر حصہ میں رہ جاتا ہے مضائقہ نہیں سمجھتی تھیں اور ان کا استدلال اس آیت سے تھا کہ

قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗٓ (سورۃ الانعام:145)

اور اسی آیت کی بنا پر حضرت عبداللہؓ ابن عباس بھی ان چار چیزوں کے سوا جن کو قرآن مجید میں حرام کیا گیا ہے (یعنی سور، مردار، بہتا ہوا خون اور مَآ اُھِلَّ بہِ لغَیْرِ اللہ) اور کسی چیز کو حرام نہیں سمجھتے تھے۔

(ملاحظہ ہو احکام القرآن للجصاص حصہ سوم ص۲۰)

پالتو گدھے کے گوشت کے متعلق ایک گروہ کی رائے یہ ہے نبی کریمﷺ نے غزوہ خیبر کے موقع پر بعض خاص وجوہ سے اس کے کھانے سے منع کیا تھا، اور یہ ممانعت اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ گدھے کا گوشت مطلقاً حرام ہے۔ (ایضاً ۲۱)

درندوں اور شکاری پرندوں کے معاملے میں ابو حنیفہؒ اور ان کے اصحاب مطلق حرمت کے قائل ہیں۔ امام مالکؒ درندوں کو سمجھتے ہیں مگر شکاری پرندوں مثلاً کرگس، عقاب، گدھ وغیرہ کو حلال قرار دیتے ہیں، خواہ وہ مردار کھاتے ہوں یا نہ کھاتے ہوں۔ امام اوزاعی صرف گدھ کو مکروہ سمجھتے ہیں، باقی ہر قسم کے پرندے ان کے ہاں حلال ہیں۔ لیث بلی کو حلال سمجھتے ہیں اور بجو کو مکروہ۔ امام شافعی کے نزدیک صرف وہ درندے جو انسان پر حملہ کرتے ہیں یا وہ شکاری پرندے جو انسان کے پالتو جانوروں پر حملہ کرتے ہیں حرام ہیں، بجو اور لومڑی اس تعریف میں نہیں آتے۔ عکرمہ سے کوے کے متعلق پوچھا گیاتو انہوں نے کہا کہ ’’موٹی مرغی ہے‘‘ اور بجو کے متعلق پوچھا تو کہا کہ ’’موٹی دنبی ہے۔‘‘ (ایضاً ۲۲)

اسی طرح حشرات الارض کے بارے میں بھی اختلافات ہوا ہے۔ حنیفہ تمام حشرات الارض کو مکروہ سمجھتے ہیں۔ ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ سانپ کے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں مگر وہ اس کے ساتھ ذکات (یعنی ذبح) کی شرط لگاتے ہیں۔ یہی رائے امام مالکؒ کی بھی ہے اور امام اوزاعی ذکات کی شرط کو بھی اڑا دیتے ہیں۔ لیث کے نزدیک خار پشت جائز ہے۔ امام مالک کے نزدیک مینڈک جائزہے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ جن چیزوں سے اہل عرب گھن کھاتے ہیں بس وہی خبائث ہیں، چنانچہ اہل عرب بجو اور لومڑی کھاتے تھے اس لیے یہ دونوں حلال ہیں۔ (ایضاً ۲۴)

ان چند مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جہاں نص صریح موجود نہ ہو وہاں استنباط کی بنا پر حلال و حرام کے اختلافات سب فروعی اختلافات ہیں۔ کسی مسلک فقہی میں بربنائے اجتہاد کسی چیز کا حرام ہونا ہرگزیہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ اصل شریعت الہٰی میں حرام ہے۔ اگر کوئی شخص ایسی کسی چیز کو اپنے استنباط کی بنا پر حلال قرار دے تو اس پر بحث تو ضرور کی جاسکتی ہے لیکن یہ ایسی کوئی چیز نہیں کہ اس پر رونگٹے کھڑے ہونے لگیں اور تحریف دین یا تحلیلِ ماحرم اللہ کے الزامات عائد کیے جانے لگیں۔

اب میں اصل مسئلہ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جس پرآپ نے یہ سوالات کیے ہیں۔

مجھے حیرت ہے یہ بات آپ نے کہاں سے معلوم کرکے لکھی کہ بندوق سے مرے ہوئے شکار کے حرام ہونےپرچاروں امام متفق ہیں۔ کیا آئمہ اربعہ میں سے کسی کے زمانہ میں بندوق ایجاد ہوگئی تھی؟ائمہ اربعہ کے مقلد علماء میں کسی گروہ کا یا سب کا ان کے استنباطی مسائل میں سے کسی مسئلہ سے تخریج کرتے ہوئے کوئی حکم نکالنا اور چیز ہے اور خود ائمہ کا کوئی حکم بیان کرنا اور چیز۔ بندوق بہرحال فقہائے متاخرین کے زمانہ میں ایجاد ہوئی تھی اور اسکی ساخت میں تازہ ترین اصولی تغیر تو انیسویں صدی میں ہوا ہے۔ اسکے متعلق اگر کوئی حکم فقہا نے بیان کیا بھی ہے تووہ ائمہ سلف کے اجتہادی احکام سے تفریع در تفریع کرتے ہوئے بیان کیاہوگا، اس کی بنیاد پر آخرخواہ مخواہ یہ دعویٰ کیوں کیا جاتا ہے کہ اس چیز کی حرمت پرائمہ اربعہ متفق ہیں۔

میں نے بندوق کے شکار کے حلال ہونے کا مسئلہ جو بیان کیا ہے وہ قاضی شوکانی سے ماخوذ نہیں ہے، بلکہ براہ راست کتاب و سنت سے اخذ کیا ہوا ہے شریعت میں جانوروں کی ذکات(شرعی طریقہ سے ان کے ذبح) کے جو احکام ہیں ان کو اصولاً دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:

ایک قسم کے جانور وہ ہیں جو ہمارے قابو میں ہیں اور جن کو ہم مقرر طریقہ کے مطابق ذبح کر سکتے ہیں۔ ان کی شرط ذکات اور ہے اور اسے اصطلاحاً ذکات اختیاری کہا جاسکتا ہے۔

دوسری قسم کے جانور وہ ہیں جو ہمارے قابو میں نہ ہو، مثلاً جنگلی جانور، یا وہ اہلی جانور جو بھاگ نکلا ہو اور وحشی کے حکم میں آگیا ہو، یا وہ جانور جو کہیں گر پڑا ہو اور جس کی شرط ذکات مقرر طریقہ پر ادا نہ کی جاسکتی ہو، وہ جانور جو کسی وجہ سے مرنے کے قریب ہو اور ذبح کے لیے چھری تلاش کرتے کرتے اس کے مر جانے کا امکان ہو۔ ایسے تمام جانوروں کی شرط ذکات دہری ہے اور اصطلاحاً ہم ذکات اضطراری کے لفظ سے تعمیر کر سکتے ہیں۔

پہلی قسم کے جانوروں کا مقام ذبح حلق ہے اور ان کو ذبح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کسی تیز دھار والے آلے سے ان کے حلقوم کو اس حد تک کاٹا جائے کہ نرخرہ اور رگ گلو کھل جائے۔

رہے وہ دوسرے قسم کے جانور تو ان کا سارا جسم مقام ذبح ہے اور کسی چیز سے، خواہ وہ کوئی ہو، ان کے جسم میں اتنا خرق (Puncture) کر دینا کافی ہے کہ خون بہہ جائے اس سلسلہ میں جو نصوص کتاب و سنت سے ہمیں ملتی ہیں وہ ترتیب وار درج ذیل ہیں:

(۱)  اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ وَ مَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُکَلِّبِیْنَ تُعَلِّمُوْنَہُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اﷲُز فَکُلُوْا مِمَّآ اَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اﷲِ عَلَیْہِ(المائدہ:4)

’’حلال کر دی گئی تمہارے لیے ساری پاک چیزیں اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھایا ہو، جن کو تم خدا کے دیے ہوئے علم کی بنا پر شکار کی تعلیم دیا کرتے ہو، وہ جس جانور کو تمہارے لیے پکڑ رکھیں اس کو تم کھا لو اور اس پر اللہ کا نام لو۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ سدھائے ہوئے شکاری جانور کو اگر خدا کا نام لے کر چھوڑا گیا ہو تو اس کے پنجوں اور کچلیوں سے جو زخم وحشی جانور کو لگ جاتا ہے اور جو خون اس طرح نکل جاتا ہے اس سے’’اضطراری ذکات‘‘ کی شرط پوری ہوجاتی ہے اور اگر ایسا جانور زندہ نہ ملے اور اسے باقاعدہ ذبح نہ کیا جاسکا ہو تب بھی وہ حلال ہے۔

(۲) حضرت عدیؓ بن حاتم نے نبی کریمﷺ سے پوچھا کہ ہم معراض پھینک کر شکار کرتے ہیں۔ حضور اکرمﷺ نے جواب دیا۔

کل ما خرق وما اصاب بعرضہ فقتل فانہ وقیذ فلا تاکلہ۔ (متفق علیہ)

یعنی اگر وہ چھیددے تو کھالو۔ لیکن اگر معراض اپنے عرض کی طرف سے جانور کو لگی ہو اور اس سے وہ مر گیا تو وہ چوٹ کھایا ہوا جانور(موقوذہ) ہے، اسے نہ کھاؤ۔

معراض ایک بھاری لکڑی یا عصا کو کہتے ہیں جس کے سرے پر یا تو لوہے کی انی لگی ہوئی ہو یا ویسے ہی لکڑی کو نوکدار بنا دیا گیا ہو۔ اس کی چوٹ سے جسم کے کسی حصہ کا اس حد تک پھٹ جانا یا چھد جانا کہ اس سے خون بہہ جائے، شرط ذکات پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔

(۳) رافعؓ ابن خدیج کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہﷺ ! کل دشمن سے ہمارا مقابلہ ہے اور ہمارے ساتھ چھریاں نہیں ہیں کہ ہم جانوروں کو ذبح کر سکیں، تو کیا ہم پھٹے ہوئے بانس کی کھپچی سے ذبح کرسکتے ہیں؟حضور اکرمﷺ نے فرمایا:

ما انھر الدم و ذکر اسم اللہ فکل لیست السن والظفر۔  (متفق علیہ)

’’یعنی خدا کا نام لے کر جس چیز سے بھی خون بہا دیا جائے، ایسے جانور کو کھالو، البتہ دانتوں اور ناخنوں سے یہ کام نہ لیا جائے‘‘۔

اس سے معلوم ہوا کہ اصل چیز وہ آلہ نہیں ہے جس سے کام لیا جارہا ہو، بلکہ شرط ذکات پوری کرنے میں صرف یہ بات معتبر ہے کہ خون بہا دیا جائے۔ اس کی تائید یہ حدیث کرتی ہے کہ حضرت عدیؓ ابن حاتم نے پوچھا، یا رسول اللہﷺ! اگر ہم میں سے کسی شخص کو شکار مل جائے اور اس کے پاس چھری نہ ہو تو کیا پتھر کی دھار یا پھٹی ہوئی لکڑی سے ذبح کرسکتا ہے؟ حضور اکرمﷺ نے فرمایا:

امرر الدم بما شئت واذکر اسم اللہ۔

’’یعنی خون بہا دو جس چیز سے چاہو اور اللہ کا نام لو۔‘‘

(۴) ابو العُشَراء اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہﷺ! کیا ذبح کا مقام صرف حلق اور لبلبہ ہی نہیں ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:

لوطعنت فی فخذھا لا جزاء عنک۔(ترمذی، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، دارامی)

’’یعنی اگر تو اس کی ران میں بھی چبھو دے تو کافی ہے‘‘۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ یہ ایسے جانور کی ذکات ہے جو کسی گڑھے وغیرہ میں گر گیا ہو۔ ترمذی کہتے ہیں کہ تمام ضرورت کے موقعوں کے لیے یہی ذکات ہے۔

اس سے ثابت ہوا کہ جو جانور ہمارے قابو میں نہیں ہے اس کے جسم کا ہر حصہ مقام ذبح ہے۔ نیز یہ کہ اصل شے وہ آلہ نہیں ہے جس سے کام لیا جائے، بلکہ صرف جسم کو چھید دینا ہے تاکہ خون بہہ جائے۔

(۵) کعبؓ بن مالک کہتے ہیں کہ ہماری بکریاں مقام سلع میں چر رہی تھیں۔ یکایک ہماری لونڈی نے دیکھا کہ ایک بکری مرنے کے قریب ہے۔ اس نے فوراً ایک پتھر توڑا اور اسے ذبح کردیا۔نبی کریمﷺ نے اس کے کھانے کی اجازت دی(بخاری) عطا بن یسار کہتے ہیں کہ بنی حارثہ میں سے ایک شخص احد کے قریب گھاٹی میں ایک اونٹنی چرا رہا تھا، یکایک اس نے دیکھا کہ اونٹنی مر رہی ہے مگر اسے کوئی چیز ایسی نہیں ملی جس سے وہ ذبح کرسکتا۔ آخر اس نےخیمہ گاڑنے کی ایک میخ لی اور اسے اونٹنی کے لبلبے میں چبھو دیا، یہاں تک کہ اس کا خون بہہ گیا۔ پھر نبی کریمﷺ کو اس کی خبر دی اور آپﷺ نے اسے کھا لینے کی اجازت دے دی۔(ابو داؤد، موطا)

ٹوٹے ہوئے پتھر کی دھار تو پھر بھی دھار کی تعریف میں آتی ہے۔ لیکن لکڑی کی نوکدار میخ کو دھار والے آلے کی تعریف میں جس حد تک لایا جاسکتا ہے ظاہر ہے۔

مذکورہ بالا نصوص کو سامنے رکھنے کے بعد بندوق کے مسئلہ پر غور کیجئے۔بندوق کی گولی کو غلیل کے ٹھنڈے غلے پر قیاس کرنا اور اس کی بنا پر یہ سمجھنا کہ اس سے جو جانور مر تا ہے وہ دراصل اسی طرح کی چوٹ کھا کر مرتا ہے جیسی پتھر یا لکڑی کے عرض سے لگتی ہے، صحیح نہیں ہے۔ گولی جس قوت سے بندوق سے نکلتی ہے اور پھر جس تیز رفتار کے ساتھ وہ بندوق سے نشانہ تک (تقریباً۵۰۰ گز فی سیکنڈ) راستہ طے کرتی ہے، اس کی بنا پر وہ کوئی ٹھنڈا سنگریزہ نہیں رہتی، بلکہ اچھی خاصی نرم اور تقریباً نوکدار ہو کر جسم کو چھیدتی ہوئی اس میں گھستی ہے اور پھر اس سے خون بہہ کر جانور مرتاہے۔ یہ عمل شکاری جانور کے ناخنوں اور کچلیوں اور معراض یا لکڑی کی میخ کا سرا چبھنے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتا، بلکہ خون بہانے میں بعید نہیں کہ ان سے زیادہ ہی کارگر ہو۔

ان وجوہ سے میری رائے میں اگر خدا کا نام لے کر بندوق چلائی جائے اور اس کی گولی یا چھرے سے جانور مرجائے تو اس کے حلال نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے لیکن اگر کسی شخص کا اس پر اطمینان نہ ہو اور وہ اس کو حرام ہی سمجھتا ہو تو مجھے اس پر بھی اصرار نہیں کہ وہ ضرور اسے حلال مانے اور واجب ہے کہ اسے کھائے۔ میرا اجتہاد میرے لیے قابل عمل ہے اور دوسروں کا اجتہاد یا کسی مجتہد کا اتباع ان کے لیے، اس اجتہادی اختلاف سے اگرچہ میرے اور ان کے درمیان حرام و حلال کا اختلاف ہوجاتا ہے۔ مگر اس کے باوجود دونوں فریق ایک ہی دین میں رہتے ہیں، الگ الگ دینوں کے پیرو نہیں ہوجاتے۔

(ترجمان القرآن۔ ربیع الاول۶۵ھ فروری۴۶ء)