چند احادیث پر اعتراض اور اس کا جواب

سوال:نبی کریمﷺ کی مقدس احادیث کے لیے میرے دل میں احترام کا جذبہ کسی کٹر سے کٹر اہل حدیث سے کم نہیں۔ اسی لیے ہر وقت دعا مانگتا رہتا ہوں کہ خدا مجھے منکرین حدیث کے فتنے سے بچائے۔ لیکن چند احادیث کے متعلق ہمیشہ میرے دل میں شکوک و شبہات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ امید ہے کہ آنجناب ازراہ کرم ان احادیث اور ان سے متعلق میرے شبہات کو ملاحظہ فرمائیں گے اور ان کی وضاحت فرماکر میری پریشانی و بے اطمینانی رفع فرمادیں گے۔ شکر گزار ہوں گا۔

اخلاقی لحاظ سے معیوب

(۱) حضرت عائشہؓ سے نبی کریمﷺ کے غسل کے متعلق استفسار کیا گیا تو انہوں نے برتن منگواکر اور پردہ لٹکا کر اپنے بھائی اور ایک غیر شخص کی موجودگی میں غسل فرمایا۔(بخاری، جلد اول، صفحہ ۳۹)

(۲) حضرت سبرہ کی روایت نکاح متعہ کے متعلق کہ ہم دو ساتھی بنی عامر کی کسی عورت کے پاس گئے اور اسے اپنی خدمات پیش کیں۔(مسلم، جلد سوم، صفحہ ۴۴۳)

(۳) حضرت جابرؓ کی روایت کہ ہم نبیﷺ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کے عہد میں مٹھی بھر آٹا دے کر عورتوں کو استعمال کر لیتے تھے اور اس حرکت سے ہمیں حضرت عمرؓ نے روکا۔(مسلم، جلد سوم، صفحہ ۴۴۱)

(۴) حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے ذی الحجہ کی پانچویں تاریخ کو احرام توڑ کر خوب جماع کیا اور پانچویں دن کے بعد جب ہم عرفہ کے لیے روانہ ہوئے تو تقطر مذاکیرنا المنی۔(مسلم، جلد سوم، صفحہ ۲۷۳)

خلافِ علم و عقل

(۵) حضرت ابو ذرؓ کو نبیﷺ نے آفتاب کے متعلق بتایا کہ ڈوبنے کے بعد آفتاب عرش کے نیچے سجدے میں گر جاتا ہے اور صبح تک دوبارہ طلوع ہونے کی اجازت مانگتا رہتا ہے۔(بخاری، جلد دوم، صفحہ ۳۷)

(۶) حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت کے مطابق ایک مرتبہ جہنم نے خدا سے دم گھٹنے کی شکایت کی اور سانس لینے کی اجازت مانگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو سال میں دو سانس لے سکتی ہے۔ چنانچہ انہی سے دونوں موسم(گرما و سرما) پیدا ہوئے۔(بخاری، جلد دوم، صفحہ ۱۴۳)

(۷) مرد کا نطفہ سفید ہوتا ہے اور عورت کا زرد۔ انزال کے بعد دونوں قسم کے نطفے مل جاتے ہیں۔ اگر یہ مرکب مائل بہ سفیدی ہو تو بچہ پیدا ہوتا ہے ورنہ بچی۔(مسلم، جلد اول، صفحہ ۴۶۸)

(۸) مجامعت کے وقت اگر مرد کا انزال عورت سے پہلے ہو تو بچہ باپ پر جاتا ہے ورنہ ماں پر۔(بخاری، جلد دوم، صفحہ ۱۴۹)

توہین انبیا

(۹) حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت کے مطابق حضرت ابراہیمؑ کا ختنہ اسّی برس کی عمر میں ہوا تھا۔(بخاری، جلد دوم، صفحہ ۱۵۵)

(۱۰) حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت کے مطابق نبیﷺ نے فرمایا کہ ایک دن حضرت سلیمانؑ نے ارشاد فرمایا کہ آج رات میں اپنی تمام بیویوں سے (جن کی تعداد ایک سو ایک یا ننانوے تھی) مجامعت کروں گا۔ ہر ایک بیوی سے ایک شہسوار پیدا ہوگا جو خدا کی راہ میں جہاد کرے گا۔ کسی نے کہا انشاء اللہ بھی ساتھ کہئے لیکن حضرت سلیمانؑ نے پرواہ نہ کی۔ چنانچہ وہ اپنی تمام بیویوں کے پاس گئے لیکن ایک کے سوا کوئی حاملہ نہ ہوئی۔(بخاری، جلد دوم، صفحہ ۹۳)

(۱۱) حضرت حذیفہؓ کی روایت ہے کہ نبیﷺ کھاد کے ایک ڈھیر کے قریب گئے اور میرے سامنے کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔(بخاری، جلد اول، صفحہ ۳۶)

(۱۲) بخاری میں حضرت ابراہیمؑ (جنہیں قرآن مجید نے صدیق نبی کا خطاب دیا ہے) کے تین جھوٹ کا ذکر ہے اور یہ تین جھوٹ بھی اس شدید نوعیت کے کہ ان کی وجہ سے وہ قیامت کے دن شفاعت کرنے سے شرمندہ ہوں گے۔(مسلم، جلد اول، صفحہ ۳۷۲)

ان میں سے دو واقعات کا ذکر قرآن مجید نے بھی کیا ہے۔ لیکن تیسرا واقعہ یعنی حضرت ابراہیمؑ کا ایک زانی بادشاہ کے خوف سے اپنی بیوی کو بہن ظاہر کرنا تو قرآن مجید میں کہیں مذکور نہیں۔

خلاف انصاف

(۱۳) ام شریکؓ کی روایت (جلد دوم، صفحہ ۵۰۰) کے مطابق نبیﷺ نے چھپکلی کو مارنے کا حکم دیا تھا کیوں کہ یہ اس آگ کو پھونکوں سے بھڑکاتی تھی جس میں ابراہیمؑ کو پھینکا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ایک چھپکلی کے جرم کے بدلے چھپکلیوں کی ساری نسل کو سزا دینا کہاں کا انصاف ہے؟

(۱۴) ایک روایت کے مطابق عورت، گدھا اور کتا سامنے سے گزر جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔(مسلم، جلد دوم، صفحہ ۱۱۱)

متفرق

(۱۵) اگر مکھی کسی پینے کی چیز میں گرجائے تو اسے غوطہ دے کر نکالو،کیوں کہ اس کے ایک پر میں بیماری ہوتی ہے اور دوسرے میں شفاء۔(بخاری، جلد دوم، صفحہ ۱۱۵)

مندرجہ بالا احادیث میں سے اکثر بخاری شریف سے لی گئی ہیں، جو ہمارے عقیدے کے مطابق اصح الکتاب بعد کتاب اللہ ہے۔ براہ کرم اس کی بھی وضاحت کردیجیے کہ اصح الکتاب کا مطلب آیا یہ ہی ہے کہ بخاری بھی قرآن مجید کی طرح حرفاً حرفاً صحیح اور غیر محرف ہے؟

جواب: آپ کے سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ شکایت عرض ہے کہ آ پ نے تمام احادیث کے حوالے بخاری و مسلم کی جلدوں اور صفحات کے نمبروں کی صورت میں دیے ہیں۔ حالانکہ ان کتابوں کو دنیا کے بیسیوں مطابع نے مختلف سائزوں پر بارہا طبع کیا ہے اور ضروری نہیں کہ ان کا جو ایڈیشن آپ کے پاس ہو، وہی دوسروں کے پاس بھی ہو۔ ایسی کتابوں کا حوالہ ہمیشہ ان کی ’’کتاب‘‘ اور باب کے عنوان سے دینا چاہیے تاکہ آسانی سے مطلوبہ حدیث تلاش کی جاسکے۔

آپ کے سوالات کو دیکھنے سے شبہ ہوتا ہے کہ غالباً آپ نے خود ان کتابوں کا بالاستیعاب مطالعہ نہیں فرمایا ہے بلکہ منکرین حدیث نے فتنہ پردازی کی غرض سے ’’قابل اعتراض‘‘ حدیثوں کی جو فہرستیں مرتب کر کے شائع کی ہیں، انہی میں سے کوئی فہرست آپ کی نگاہ سے گزری اور آپ نے زیادہ سے زیادہ بس اتنی سی تحقیق کی زحمت اٹھائی ہے کہ اس فہرست کی حدیثوں کو بخاری ومسلم کے کسی نسخے میں نکال کر یہ اطمینان کر لیا کہ یہ حدیثیں وہاں موجود ہیں۔ میرے اس شبہ کی بنیاد یہ ہے کہ آپ کی پیش کردہ ا کثر احادیث ایسی ہیں جن پر آپ کو اپنے شبہات کا جواب خود اسی کتاب کے اسی باب میں مل جاتا۔ اگر آپ پورا باب پڑھنے کی تکلیف گوارا فرماتے۔ بلکہ بعض حدیثوں کے تو آپ نے پورے الفاظ تک نہیں پڑھے ہیں اوران کا وہی غلط سلط مفہوم نقل کر دیا ہے جو اس فتنہ پرداز گروہ نے اپنی طرف سے گھڑ کر بیان کیا ہے۔ اس طریقے سے یہ لوگ کم سواد لوگوں کو تو دھوکہ دے ہی رہے ہیں مگر یہ دیکھ کر سخت افسوس ہوتا ہے کہ آپ جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی اس آسانی کے ساتھ دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ دنیا کے کسی علم و فن کے مسائل پر بھی اتنے سرسری مطالعہ سے کوئی صحیح رائے قائم نہیں کرسکتا جسے آپ حدیث کے معاملے میں کافی سمجھ رہے ہیں؟جس طریقے سے آپ نے حدیث کی چند باتیں سیاق و سباق اور موضوع سے الگ کرکے اور ان کا بالکل ایک سرسری مفہوم اخذ کرکے نقل کی ہیں، اس طریقے سے تو دنیا کے ہر علم و فن کی کتابوں سے اقتباسات نکال کر محض مضحکہ خیز بنانے کے لیے پیش کیے جاسکتے ہیں۔

اس مختصر تنبیہ کے بعد میں آپ کی پیش کردہ احادیث میں سے ہر ایک پر مفصل کلام کروں گا، تاکہ نہ صرف آپ کو، بلکہ منکرین حدیث کے فتنے سے دھوکہ کھانے والے اصحاب کو بھی تحقیق کا صحیح طریقہ معلوم ہوجائے۔

(۱) حضرت عائشہؓ کے غسل والی حدیث بخاری کتاب الغسل، باب الغسل بالصاع و نحوہ میں ہے۔ اس میں ابو سلمہؓ بیان فرماتے ہیں کہ’’میں اور حضرت عائشہؓ کے بھائی حضرت عائشہؓ کے پاس گئے اور حضرت عائشہؓ کے بھائی نے ان سے نبی کریمﷺ کے غسل کی بابت دریافت کیا۔ اس پر حضرت عائشہ ؓ نے ایک برتن منگایا جو قریب قریب ایک صاع کے برابر تھا اور انہوں نے غسل کیا اور اپنے سر پر پانی بہایا، اس حال میں کہ ہمارے اور ان کے درمیان پردہ تھا۔‘‘

اس حدیث پر اعتراض کرنے والوں کی پہلی غلطی یہ ہے کہ وہ ابو سلمہؓ کا نام پڑھ کر سمجھ لیتے ہیں کہ وہ کوئی غیر شخص تھے، حالاں کہ وہ حضرت عائشہؓ کے رضاعی بھانجے تھے جنہیں حضرت ام کلثومؓ بنت ابی بکر صدیقؓ نے دودھ پلایا تھا۔ پس دراصل یہ دونوں صاحب جو حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مسئلہ پوچھنے گئے تھے، آپ کے محرم ہی تھے، ان میں سے کوئی غیر نہ تھا۔

پھر دوسری غلطی، بلکہ زیادتی وہ یہ کرتے ہیں کہ روایت میں تو صرف ’’حجاب‘‘ یعنی پردے کا ذکر ہے مگر یہ لوگ اپنی طرف سے اس میں یہ بات بڑھالیتے ہیں کہ وہ پردہ باریک تھا اور اس اضافے کے لیے وہ دلیل یہ دیتے ہیں کہ اگر باریک نہ ہوتا جس سے حضرت عائشہؓ نہاتی ہوئی نظر آسکتیں تو پھر اسے درمیان میں ڈال کر نہانے سے کیا فائدہ تھا؟ حالانکہ اگر انہیں یہ معلوم ہوتا کہ اس وقت مسئلہ کیا درپیش تھا جس کی تحقیق کے لیے یہ دونوں صاحب اپنی خالہ اور بہن کے پاس گئے تھے، تو انہیں اپنے اس سوال کا جواب بھی مل جاتا اور یہ سوچنے کی ضرورت بھی پیش نہ آتی کہ پردہ باریک ہونا چاہیے

دراصل وہاں سوال یہ نہ تھا کہ غسل کا طریقہ کیا ہے، بلکہ بحث یہ چھڑ گئی تھی کہ غسل کے لیے کتنا پانی کافی ہوسکتا ہے۔ بعض لوگوں کو نبی کے متعلق یہ روایت پہنچی تھی کہ آپ ایک صاع بھر پانی سے غسل کر لیتے تھے۔ اتنے پانی کو لوگ غسل کے لیے ناکافی سمجھتے تھے اور بنائے غلط فہمی یہ تھی کہ وہ غسل جنابت اور غسل بغرض صفائی بدن کا فرق نہیں سمجھ رہے تھے۔ حضرت عائشہؓ نے ان کو تعلیم دینے کے لیے بیچ میں ایک پردہ ڈالا جس سے صرف ان کا سر اور چہرہ ان دونوں صاحبوں کو نظر آتا تھا اور پانی منگواکر اپنے اوپر بہایا۔ اس طریقے سے حضرت عائشہؓ ان کو دو باتیں بتانا چاہتی تھیں۔ایک یہ کہ غسل جنابت کے لیے صرف جسم پر پانی بہانا کافی ہے۔ دوسرے یہ کہ اس مقصد کے لیے صاع بھر پانی کفایت کرتا ہے۔

اس تشریح کے بعد آپ خود سوچیں کہ اس میں آخر قابل اعتراض کیا چیز ہے جس کی بنا پر خواہ مخواہ ایک مستند حدیث کا انکار کرنے کی ضرورت پیش آئے اور پھر اسے تمام حدیثوں کے غیر معتبر ہونے پر دلیل ٹھہرایا جائے؟

(۲،۳) حضرت سبرۃ الجہنی اور حضرت جابرؓ والی حدیثیں، مسلم باب نکاح المتعہ میں موجود ہیں۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ معترضین نے صرف اعتراض کی خاطر حدیثیں تلاش کرنی شروع کیں اور اس سلسلہ میں ان دونوں حدیثوں کو بھی اپنی فہرست میں ٹانک لیا۔ ورنہ اگر وہ جاننے کی کوشش کرتے کہ متعہ کی حقیقت کیا ہے اور اس کے بارے میں فقہا کے درمیان کیا بحثیں پیدا ہوئی تھیں، اور ان بحثوں کا تصفیہ کرنے کے لیے محدثین نے کس مقصد کے لیے وہ تمام روایات اپنی کتابوں میں جمع کیں جو متعہ کے جواز حرمت کے متعلق ان کو مختلف سندوں سے پہنچی تھیں تو شاید وہ ان احادیث پر نظر عنایت نہ فرماتے۔

اصل معاملہ یہ ہے کہ اسلام سے قبل، زمانہ جاہلیت میں نکاح کے جو طریقے رائج تھے، ان میں سے ایک ’’نکاح متعہ‘‘ بھی تھا۔ یعنی یہ کہ کسی عورت کو کچھ معاوضہ دے کر ایک خاص مدت کے لیے اس سے نکاح کر لیا جائے۔ نبیﷺ کا قاعدہ یہ تھا کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو کسی چیز کی نہی کا حکم نہ مل جاتا تھا، آپﷺ پہلے کے رائج شدہ طریقوں کو منسوخ نہ فرماتے تھے بلکہ یا تو ان کے رواج پر سکوت فرماتے یا بوقت ضرورت ان کی اجازت بھی دے دیتے۔ چناچہ یہی صورت متعہ کے بارے میں بھی پیش آئی۔ ابتداءً آپﷺ نے اس کے رواج پر سکوت فرمایا اور بعد میں کسی جنگ یا سفر کے موقع پر اگر لوگوں نے اپنی شہوانی ضرورت کی شدت ظاہر کی تو آپﷺ نے اس کی اجازت بھی دے دی، کیوں کہ حکم نہی اس وقت تک نہ آیا تھا۔ پھر جب حکم نہی آگیا تو آپﷺ نے اس کی قطعی ممانعت فرمادی۔ لیکن یہ حکم تمام لوگوں تک نہ پہنچ سکا اور اس کے بعد بھی کچھ لوگ ناواقفیت کی بنا پر متعہ کرتے رہے۔ آخر کار حضرت عمرؓ نے اپنے دور میں اس حکم کی عام اشاعت کی اور پوری قوت کے ساتھ اس رواج کو بند کیا۔

اس مسئلے میں فقہا کے سامنے متعدد سوالات تحقیق طلب تھے۔ مثلاً یہ کہ آیا حضورﷺ نے کبھی اس کی صریح اجازت بھی دی تھی؟ اور اگر دی تھی تو کس موقع پر؟ اور یہ کہ آپﷺ نے اسے منع فرمایا ہے یا نہیں؟ اور منع فرمایا ہے تو کب اور کن الفاظ میں؟ اور یہ کہ آیا اس کی تحریم حضورﷺ کا اپنا فعل ہے یا حضرت عمرؓ نے اپنی ذمہ داری پر اس رواج کو بند کیا؟ اور اس طرح کے متعدد سوالات تھے جن کی تحقیق کے لیے فقہا و محدثین کو وہ تمام روایات جمع کرنے کی ضرورت پیش آئی جو اس مسئلے سے متعلق مختلف لوگوں کے پاس موجود تھیں۔ اسی سلسلے میں امام مسلم نے وہ دونوں روایات بھی نقل کیں جن کو معترضین نے اعتراض کے لیے چھانٹا ہے۔

ان میں سے ایک حضرت جابر عبداللہؓ کی روایت ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبیﷺ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کے عہد میں متعہ کرتے تھے، پھر حضرت عمرؓ نے اپنے عہد میں ممانعت کردی۔ دوسری حدیث سبرۃ الجہنی کی ہے جو بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر نبی کریمﷺ نے اس کی اجازت دی تھی۔ چناچہ میں نے خود ایک چادر کے عوض ایک عورت سے متعہ کیا مگر بعد میں اسی غزوے کے زمانے میں آپﷺ نے اعلان فرمادیا کہ اللہ تعالیٰ نے متعہ کو قیامت تک کے لیے حرام کردیا ہے۔ ان کے علاوہ اور بہت سی احادیث مسلم اور دوسرے محدثین نے جمع کی ہیں جو اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر محدثین یہ مواد جمع نہ کرتے تو اسلامی قانون کی تدوین کرنے والے آخر کس بنیاد پر متعہ کے جواز و عدم جواز کا فیصلہ کرتے؟

(۴) حضرت جابرؓ کی یہ روایت مسلم، کتاب الحج، بیان الاحرام، میں ہے جس میں قواعد احرام سے تعلق رکھنے والی روایات جمع کی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں امام مسلم نے حضرت جابرؓ کی بھی متعدد روایات نقل کی ہیں، جن میں وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ محض حج کی نیت کرکے مدینہ سے نکلے تھے۔ جب۴ ذی الحجہ کو نبیﷺ مکہ پہنچے تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے جو لوگ ہدی نہیں لائے ہیں، وہ احرام کھول دیں اور اپنی بیویوں کے پاس جائیں۔ یہ آپﷺ کا حکم نہ تھا بلکہ مقصود یہ بتانا تھا کہ احرام کھول کر تم ایسا کر سکتے ہو۔ چناچہ ہم نے طواف کعبہ اور سعی بین الصفا والمروہ کرکے احرام کھول دیے اور اپنی بیویوں کے پاس گئے۔ اس موقع پر جو لوگ احرام کھولتے ہوئے جھجک رہے تھے، انہیں نبی کریمﷺ نے سمجھایا کہ میں تم سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا ہوں۔ اگر میں اپنے ساتھ ہدی نہ لایا ہوتا تو میں بھی تمہارے ساتھ احرام کھول دیتا۔ اس پر وہ مطمئن ہوگئے اور سب نے ارشاد کی تعمیل کی۔

یہ واقعات حضرات جابرؓ نے جس غرض کے لیے بیان کیے تھے وہ یہ تھی کہ بعد میں بھی بہت سے لوگوں کے دلوں میں یہ شک باقی رہ گیا تھا کہ جو شخص احرام باندھ کر حج سے پہلے مکہ پہنچا ہو، وہ آیا طواف وسعی کرنے کے بعد حلال ہوسکتا ہے یا نہیں، اور آیا اس کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ حج کا زمانہ آنے پر حرم ہی سے احرام کا اغاز کرے۔ اسی شک کو دور کرنے کے لیے حضرت جابرؓ نے یہ حدیث بیان کی تھی۔ اس حدیث کے اصل الفاظ میں یہ بات کہیں منقول نہیں ہے کہ ’’ہم نے خوب جماع کیا اور جب ہم عرفہ کے لیے روانہ ہو ئے تو،(تقطر مذاکیرنا المنی) بلکہ وہاں صحابہ کرامؓ کا یہ قول بطور استفہام و استعجاب مذکور ہے ’’کیا ہمیں عورتوں کے پاس جانے اور پھر عرفہ کے لیے روانہ ہونے کا حکم ہے دراں حالیکہ (تقطیر مذاکیرنا)

(۵) حضرت ابوذرؓ کی یہ حدیث بخاری کتاب بدء الخلق، باب صفت الشمس والقمر میں ہے۔ اس کا جو خلاصہ آپ نے دیا ہے، وہ صحیح نہیں ہے۔ اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ: نبیﷺ نے فرمایا ’’جانتے ہو سورج غروب ہو کر جاتا کہاں ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’اللہ اور اس رسولﷺ زیادہ جانتے ہیں۔‘‘ فرمایا ’’وہ جاتا ہے اور عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے اور اجازت مانگتا ہے۔(یعنی پھر مشرق سے طلوع ہونے کی) اور اسے اجازت دے دی جاتی ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ وہ سجدہ کرے گا اور اجازت مانگے گا مگر اجازت نہ ملے گی اور حکم ہوگا کہ پلٹ جا اور وہ مغرب سے طلوع ہوگا۔ پھر آپﷺ نے یہ آیت پڑھی:

وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (یس:38)

اس میں دراصل جو مضمون بیان کیا گیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ ’’سورج ہر آن اللہ تعالیٰ کے حکم کا تابع ہے، اس کا طلوع بھی اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے ہوتا ہے اور اس کا غروب بھی۔‘‘ سورج کا سجدہ کرنا ظاہر ہے کہ اس معنی میں نہیں ہے جس میں ہم نماز میں سجدہ کرتے ہیں، بلکہ اس معنی میں ہے جس میں قرآن مجید دنیا کی ہر چیز کو خدا کے آگے سر بسجود قرار دیتا ہے، یعنی کلیتہً تابع امر رب ہونا۔ پھر سورج کا مغرب بھی ایک نہیں ہے بلکہ قرآن مجید کی رو سے بہت سے مغرب ہیں، کیوں کہ وہ ہر آن ایک خطہ زمین میں غروب اور ہر آن دوسرے خطے میں طلوع ہوتا ہے۔ اس لیے اجازت مانگ کر طلوع وغروب ہونے کا مطلب ہر آن امر الہٰی کے تحت ہونا ہے۔ ہر وقت اس امر کا امکان ہے کہ دنیا کا قانون جذب وکشش یکایک ایک پلٹی کھا جائے اور سیاروں کی رفتار بالکل الٹ جائے۔ طبیعات اور ہیئت کے ماہرین میں سے کوئی بھی اس قانون کو اٹل نہیں مانتا اور نہ اس میں تغیر واقع ہونے، یا اس کے بالکل درہم برہم ہوجانے کو ناممکن سمجھتا ہے۔

رہا یہ امر کہ اس حدیث میں طلوع وغروب کو سورج کی گردش کا نتیجہ سمجھا گیا ہے نہ کہ زمین کی گردش کا، تو اس پر اعتراض کرنے والے کو دو باتیں اچھی طرح جان لینی چاہئیں۔ اول یہ کہ انبیا علیہم السلام طبیعات اور ہیئت اور کیمیا کے مسائل بتانے کے لیے نہیں آئے تھے بلکہ عرفان حقیقت بخشنے اور فکر و عمل کی تصحیح کرنے کے لیے آئے تھے۔ ان کا کام یہ بتانا نہ تھا کہ زمین حرکت کرتی ہے یا سورج، بلکہ یہ بتانا تھا کہ ایک ہی خدا زمین اور سورج کا مالک و فرمانروا ہے اور ہر چیز ہر آن اسی کی بندگی کر رہی ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ بات حکمت تبلیغ کے بالکل خلاف ہے کہ مبلغ کے اپنے زمانے میں جو علم اشیاء موجود ہو، اس کو چھوڑ کر وہ ہزار ہا سال بعد کے علم اشیاء کو تعلیم حقیقت کا ذریعہ بنائے۔ اسے جن حقائق کو ذہن نشین کرنا ہوتا ہے، ان کی تفہیم کے لیے اس کو لامحالہ اپنے زمانے ہی کے مواد علمی سے کام لینا پڑتا ہے، ورنہ اگر وہ ان معلومات سے کام لے جو صدیوں بعد انسان کے علم میں آنے والی ہوں تو اس کے معاصرین اس کی اصل تعلیم چھوڑ کر اس بحث میں لگ جائیں کے یہ شخص کس عالم کی باتیں کر رہا ہے اور ان میں سے ایک شخص بھی اس کی تبلیغ سے متاثر ہو کر نہ دے۔ اب یہ آپ خود سوچ لیں کہ اگر کسی نبی کی تعلیم اس کے معاصرین ہی کی سمجھ میں نہ آتی اور اس کے عہد ہی کے لوگوں میں مقبول نہ ہوتی تو وہ بعد کی نسلوں تک پہنچتی کیسے؟ اب سے ڈیڑھ ہزار برس پہلے اگر اوپر والی حدیث کا مضمون اس ڈھنگ سے بیان کیا جاتا کہ سننے والا طلوع و غروب کا سبب سورج کی بجائے زمین کی حرکت کو سمجھتا تو بے شک آج کے لوگ اسے علم کا ایک معجزہ قرار دیتے، مگر آپ کا کیا خیال ہے کہ خود اس زمانے کے لوگ، اس معجزہ علمی کا استقبال کس طرح کرتے؟ اور پھر وہ اصل بات بھی کہاں تک ان کے دل و دماغ میں اترتی جو اس مضمون میں بیان کرنی مقصود تھی؟ اور جب کہ اس عہد کے لوگ ہی ایسے ’’علمی معجزات‘‘ کی بدولت ایمان لانے سے محروم رہ جاتے تو یہ معجزے آپ تک پہنچتے ہی کیا کہ آپ ان کی داد دیتے؟

(۶) حضرت ابو ہریرہؓ کی یہ روایت بخاری کتاب ’’مواقیت الصلوٰۃ، باب الابراد بالظہر فی شدت الحر‘‘ میں ہے۔ اس کا خلاصہ بھی آپ نے صحیح بیان نہیں کیا ہے۔ اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ’’نبیﷺ نے فرمایا جب گرمی کا زور ہو تو ظہر کی نماز ٹھنڈی کرکے پڑھو (یعنی دیر کرکے پڑھو جبکہ گرمی کی شدت میں کمی ہوجائے) کیوں کہ گرمی کی شدت جہنم کی پھونک سے ہے۔ جہنم نے اپنے رب سے شکایت کی اور کہا کہ اے میرے رب میرے اجزا ایک دوسرے کو کھائے جاتے ہیں۔ اس کے رب نے اسے دو مرتبہ سانس لینے کی اجازت دے دی۔ ایک مرتبہ جاڑے میں اور دوسری مرتبہ گرمی میں۔ گرمی کا سانس اس شدید ترین گرمی جیسا ہوتا ہے جو تم لوگ موسم گرمی میں پاتے ہو، اور سردی کا سانس اس شدید ترین سردی جیسا ہوتا ہے جو تم موسم سرما میں پاتے ہو۔‘‘

اس حدیث پر اعتراض کرنے سے پہلے اس امر پر غور کرلیجیے کہ نبیﷺ کا اصل مقصد اس بیان سے کیا ہوسکتا تھا؟ کیا یہ آپ ایک عالم طبیعات کی حیثیت سے موسمی تغیرات کے وجوہ بیان فرمانا چاہتے تھے؟ یا یہ کہ آپ ﷺ ایک نبی کی حیثیت سے گرمی کی تکلیف محسوس کرنے والوں کو جہنم کا تصور دلانا چاہتے تھے؟ جس شخص نے بھی قرآن مجید اور سیرت نبیﷺ پر کچھ غور کیا ہوگا، وہ بلاتامل کہہ دے گا کہ آپﷺ کی حیثیت پہلی نہ تھی، بلکہ دوسری تھی اور گرمی کی شدت کے زمانے میں ظہر کی نماز ٹھنڈی پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے آپﷺ نے جو کچھ فرمایا، اس سے آپﷺ کا مقصد دوزخ سے ڈرانا اور ان کاموں سے روکنا تھا جو آدمی کو دوزخ کا مستحق بناتے ہیں۔ اس لحاظ سے آپﷺ کا یہ ارشاد قرآن مجید کے اس ارشاد سے ملتا جلتا تھا جو غزوۂ تبوک کے موقع پر فرمایا گیا تھا:

وَ قَالُوْا لَا تَنفِرُوْا فِی الْحَرِّط قُلْ نَارُ جَہَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّاط

’’انہوں نے کہا کہ اس شدید گرمی میں جہاد کے لیے نہ نکلو۔ اے نبیﷺ ! ان سے کہو کہ جہنم کی آگ اس گرمی سے زیادہ گرم ہے۔‘‘

جس طرح یہاں قرآن مجید علم طبیعات کا کوئی مسئلہ بیان نہیں کر رہا ہے، اسی طرح نبیﷺ کی یہ حدیث بھی طبیعات کا درس دینے کے لیے نہیں ہے۔ قرآن مجید دنیا کی گرمی کا جہنم کی گرمی سے مقابلہ اس لیے کر رہا ہے کہ پس منظر میں وہ لوگ موجود تھے جو اس گرمی سے گھبرا کر جہاد کے لیے نکلنے سے جی چرا رہے تھے۔ اسی طرح نبیﷺ بھی دنیا کی شدید گرمی اور شدید سردی کو دوزخ کی محض دو پھونکوں کے برابر اس لیے بتا رہے ہیں کہ پس منظر میں وہ لوگ موجود تھے جو جاڑے میں صبح کی اور گرمی میں ظہر کی نماز کے لیے نکلنے سے گھبراتے تھے۔ چناچہ مسند احمد میں زید بن ثابتؓ کی یہ روایت آئی ہے:

لم یکن یصلی صلوٰۃ اشد علی اصحاب رسول اللہﷺ منھا

’’ظہر کی نماز سے بڑھ کر کوئی نماز اصحاب رسول اللہ پر شاق نہ تھی‘‘

اور اس کا اندازہ ہر وہ شخص کرسکتا ہے جس نے گرمی کے زمانے میں عرب کی دوپہر کبھی دیکھی ہو۔اس کے بعد اب حدیث کے اصل الفاظ کی طرف آیئے:

فان شدۃ الحرمن فیح جھنم

’’گرمی کی شدت جہنم کی پھونک سے ہے۔‘‘

کے معنی لازماً یہی نہیں ہیں کہ دنیا میں گرمی جہنم کی پھونک کی وجہ سے ہوتی ہے، بلکہ اس کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ جہنم کی پھونک کی قسم یا جنس ہے۔ اس لیے کہ عربی زبان میں لفظ من بیان جنس کے لیے بکثرت استعمال ہوتا ہے اور خود قرآن مجید میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جیسے:

ما یفتح اللہ للناس من رحمتہ مھما تاتنا بہ من آیۃ اور اجتنبوا الرجس من الاوثان

رہا آخری فقرہ تو اس میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ دنیا میں گرمی اور جاڑے کے موسم دوزخ کی ان دو پھونکوں کی وجہ سے آتے ہیں۔ بلکہ الفاظ یہ
ہیں:

فاذن لھا بنفسین نفس فی الشتاء ونفس فی الصیف اشد ماتجدون من الحرو اشد ما تجدون من الزمھریر

’’پس اس کے رب نے اس کو سانسوں کی اجازت دی،ایک سانس جاڑے میں اور ایک سانس گرمی میں، جو اس شدید ترین گرمی جیسا ہے جو تم پاتے ہو اور اس شدید ترین سردی جیسا ہے جو تم پاتے ہو۔‘‘

(۷،۸) یہ حدیثیں مسلم نے کتاب المحیض، باب صفۃ منی الرجل والمرأۃ میں، بخاری نے کتاب العلم، کتاب الغسل، کتاب الادب اور کتاب الانبیا کے مختلف ابواب میں نقل کی ہیں۔ مگر آپ نے ان کا مفہوم بھی غلط نقل کیا ہے۔ اصل بات جو مختلف روایتوں میں بیان ہوئی، وہ یہ ہے:

ام سلیم نے آکر نبیﷺ سے دریافت کیا کہ اگر عورت خواب میں وہ کچھ دیکھے، جو مرد دیکھا کرتا ہے (یعنی اس کو احتلام ہو) تو کیا کرے؟ آپﷺ نے فرمایا غسل کرے۔ اس پر حضرت ام سلمہؓ نے عرض کیا ’’عورت کو بھی یہ معاملہ پیش آتا ہے؟‘‘ ان کا مطلب یہ تھا کہ کیا عورت کو بھی انزال اور احتلام ہوا کرتا ہے؟ حضورﷺ نے جواب دیا:

نعم فمن این یکون الشبہ ان ماء الرجل غلیظ ابیض وماء المرأۃ رقیق اصفر فمن ایھما علا اوسبق یکون منہ الشبہ۔

’’ہاں، ورنہ آخر بچہ ماں کے مشابہ کیسے ہوجاتا ہے؟ مرد کا پانی گاڑھا سپیدی مائل ہوتا ہے اور عورت کا پانی پتلا زردی مائل۔ پھر ان میں سے جو بھی غالب آجاتا ہے، یا جو سبقت لے جاتا ہے، بچہ اسی کے مشابہ ہوتا ہے۔‘‘

ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک خاتون کے سوال پر حضرت عائشہؓ نے بھی اسی کے تعجب کا اظہار کیا تھا اور اس پر حضورﷺ نے فرمایا تھا۔

وھل یکون الشبہ لا بن قبل ذالک اذا علا ماء ھا ماء الرجل اشبہ الوالد اخوالہ واذا علا ماء الرجل ماء ھا اشبہ الولد اعمامہ۔

’’اور کیا بچے کا ماں کے مشابہ ہونا اس کے سوا کسی اور وجہ سے ہوتا ہے؟ جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر غالب آجاتا ہے تو بچہ ننھیال پر جاتا ہے اور جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر غالب آجاتا ہے تو بچہ ددھیال پر جاتا ہے۔‘‘

ایک اور روایت میں ہے کہ ایک یہودی عالم نے نبیﷺ سے اولاد کے بارے میں سوال کیا تو آپﷺ نے جواب میں فرمایا:

ماء الرجل ابیض وماء المرأۃ اصفر فاذا اجتمعوا فعلا منی الرجل منی المرأۃ اذکرا باذن اللہ واذا اعلا منی الرجل انثا باذن اللہ۔

’’مرد کا پانی سفیدی مائل اور عورت کا پانی زردی مائل ہوتا ہے۔ جب یہ دونوں ملتے ہیں اور مرد کی منی عورت کی منی پر غالب آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے بیٹا ہوتا ہے اور جب عورت کی منی مرد کی منی پر غالب آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے لڑکی ہوتی ہے۔‘‘

آپ نے خدا جانے کس لفظ کا مطلب یہ سمجھا کہ ’’اگر یہ مرکب مائل بہ سفیدی ہو تو بچہ ہوتا ہے ورنہ بچی‘‘ اور یہ کس عبارت کا ترجمہ آپ نے فرمایا ہے کہ ’’اگر مجامعت کے وقت مرد کا انزال عورت سے پہلے ہو تو بچہ باپ پر جاتا ہے ورنہ ماں پر؟‘‘ اصل مضمون جو ان احادیث میں بیان ہوا ہے اگر اس کے خلاف علم و عقل کی کوئی شہادت موجود ہو تو ضرور پیش فرمائیں۔

(۹) اس معنی کی روایت بخاری کی کتاب الانبیا، کتاب الاستیذان اور کتاب العقیقہ میں موجود ہیں مگر ہر جگہ اختتن کے الفاظ ہیں جو صریح طور پر اس مفہوم کے متحمل ہیں کہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے ختنے خود اپنے ہاتھ سے کرلیے اور جبکہ یہ کام ایک شخص خود بھی کرسکتا ہے تو آخر کیوں یہ معنی لیے جائیں کہ ۸۰ برس کی عمر کے شخص نے جراح کو بلا کر یہ کام کرایا ہوگا۔ پھر مسند ابی یعلیٰ کی روایت میں اس کی جو تفصیل آئی ہے، وہ بالکل واضح بات کر دیتی ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے یہ کام خود کر لیا تھا۔ اس میں یہ بیان ہوا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کو جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ ختنہ کرو تو انہوں نے ایک قدوم (بڑھئی کے کام کا ایک آلہ) لے کر ختنہ کرلیا۔ اس سے ان کو سخت تکلیف ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی کہ ابراہیم ؑ تم نے جلدی کی ورنہ ہم تمہیں خود اس کا آلہ بتادیتے۔ انہوں نے عرض کیا، اے رب میں نے پسند نہ کیا کہ تیرے حکم کی تعمیل میں دیر کروں۔(فتح الباری، جلد۶، صفحہ۲۴۵)

(۱۰) اس مضمون کی احادیث بخاری کتاب الانبیا، کتاب الجہاد اور کتاب الایمان والنذور میں موجود ہیں۔ ان مختلف احادیث میں سے کسی میں حضرت سلیمانؑ کی بیویوں کی تعداد ۶۰، کسی میں ۷۰، کسی میں ۹۹ اور کسی میں ۱۰۰ بیان کی گئی ہے اور سب کی سندیں مختلف ہیں۔ اتنی مختلف سندوں سے جو بات محدثین کو پہنچی ہو، اس کے متعلق یہ کہنا تو مشکل ہے کہ وہ بالکل ہی بے اصل ہوگی، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یا تو نبیﷺ کے بیان کو سمجھنے میں حضرت ابو ہریرہؓ سے کوئی غلطی ہوئی ہے یا وہ پوری طرح بات سن نہیں سکے ہوں گے، ممکن ہے حضورﷺ نے فرمایا ہو کہ حضرت سلیمانؑ کی بہت سی بیویاں تھیں جن کی تعداد یہودی ۶۰، ۷۰،۹۰، ۹۹،۱۰۰ تک بیان کرتے ہیں اور حضرت ابو ہریرہؓ نے سمجھا ہو کہ یہ حضورﷺ کا اپنا بیان ہے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ حضورﷺ نے حضرت سلیمانؑ کے قول کو اس طرح بیان کیا ہو کہ ’’میں اپنی بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر بیوی سے ایک مجاہد پیداہوگا۔‘‘ اور حضرت ابو ہریرہؓ یہ سمجھے ہوں کہ ’’ایک رات میں جاؤں گا‘‘۔ اس طرح کی غلط فہمیوں کی مثالیں متعدد روایات میں ملتی ہیں جن میں سے بعض کو دوسری روایتوں نے صاف کردیا اور بعض صاف ہونے سے رہ گئیں۔ زبانی روایتوں میں ایسا ہوجانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے اور اس طرح کی چند مثالوں کو لے کر پورے ذخیرہ احادیث کو ساقط الاعتبار قرار دینا کسی معقول آدمی کا کام نہیں ہوسکتا۔

رہا ’’انشاء اللہ‘‘ کا معاملہ تو یہ کسی روایت میں نہیں کہا گیا ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے جان بوجھ کر انشاء اللہ کہنے سے احتراز کیا تھا۔ اس لیے اس میں توہین انبیاؑ کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ یہ الفاظ آپ نے آخر کس روایت میں دیکھے ہیں کہ کسی نے کہا: ’’انشاء اللہ بھی ساتھ کہیے، لیکن آپ نے پرواہ نہ کی؟‘‘ حدیث میں جو الفاظ آئے ہیں وہ یہ ہیں کہ:

فقال لہ صاحبہ ان شاء اللہ فلم یقل۔

’’ان کے ساتھی نے ان سے کہا ان شاء اللہ مگر انہوں نے نہ کہا۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب حضرت سلیمانؑ کے منہ سے یہ بات نکلی تو پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص نے خود کہا ’’انشاء اللہ‘‘ اور حضرت سلیمانؑ نے اس کے کہہ دینے کو کافی سمجھ لیا اور اپنی زبان سے اس کا اعادہ نہ کیا۔

(۱۱) یہ حدیث بخاری کتاب الوضو کے متعدد ابواب میں آئی ہے، اور حدیث کی دوسری کتابوں میں بھی موجود ہے مگر کسی میں بھی حضرت حذیفہؓ کے یہ الفاظ نہیں ہیں کہ نبیﷺ نے ’’میرے سامنے کھڑے ہو کر پیشاب کیا‘‘ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ الفاظ آپ کو کہاں سے ملے۔ ان کے تو اصل الفاظ یہ ہیں کہ ’’میں اور نبیﷺ چلے جارہے تھے کہ راستے میں آپﷺ ایک کوڑے کے ڈھیر کی طرف گئے جو ایک دیوار کے پیچھے تھا اور آپﷺ کھڑے ہوئے جیسے تم میں سے کوئی کھڑا ہوتا ہے اور آپﷺ نے پیشاب کیا۔ میں ہٹ کردور جانے لگا تو مجھے آپﷺ نے اشارہ کیا اور میں آپﷺ کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔ یہاں تک کہ آپﷺ فارغ ہوگئے۔‘‘ اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ نے دیوار اور ڈھیر کے درمیان کھڑے ہوکر پیشاب کیا تاکہ دونوں طرف سے پردہ رہے، اور حضرت حذیفہؓ کو روک کر پیچھے کھڑا کیا کیوں کہ اس صورت میں نظر آنے کا کوئی امکان نہیں رہتا۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مستند روایات کے مطابق نبیﷺ ہمیشہ بیٹھ کر ہی پیشاب کرتے تھے۔ مگر اس موقع پر آپﷺ نے کسی عذر کی وجہ سے ایسا کیا تھا اور حضرت حذیفہؓ نے یہ روایت اس لیے بیان کی تھی کہ ان کے زمانے میں بعض لوگ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کو قطعی ناجائز قرار دینے لگے تھے۔

(۱۲) یہ روایات بخاری کتاب احادیث الانبیا اور مسلم باب اثبات الشفاعتہ میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ دوسری کتب حدیث میں بھی آئی ہیں۔ ان سب روایات کی اسناد کو، ان کی کثرت طرق کو دیکھنے کے بعد اس امر میں تو کوئی شبہ نہیں رہتا کہ حضرت ابو ہریرہؓ ہی ان کے راوی ہیں، کیوں کہ اتنے کثیر راویوں کے بارے میں خصوصاً جبکہ ان میں سے اکثر و بیشتر ثقہ تھے، یہ گمان نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے ایک صحابی کا نام لے کر قصداً ایک غلط روایت تصنیف کی ہوگی۔ رہے حضرت ابو ہریرہؓ تو ان پر ہم یہ شبہ تک نہیں کرسکتے کہ وہ نبیﷺ کی طرف کوئی غلط بات منسوب کریں گے۔ لیکن ہمارے لیے ان راویوں کو جھوٹا ماننا جس قدر مشکل ہے، اس سے بدرجہا زیادہ مشکل یہ باور کرنا ہے کہ ایک نبیﷺ نے جھوٹ بولا ہوگا، یا نبیﷺ نے معاذ اللہ، ایک نبی پر دروغ گوئی کا جھوٹا الزام لگایا ہوگا۔ اس لیے لامحالہ ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ اس معاملے میں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے جس کی بنا پر نبیﷺ کا ارشاد صحیح طور پر نقل نہیں ہوا اور اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کے جو تین ’’جھوٹ‘‘ اس روایت میں بیان ہوئے ہیں، ان میں سے دو تو قطعاً جھوٹ نہیں ہیں، اور تیسرا جھوٹ دراصل بنی اسرائیل کا جھوٹ ہے جو انہوں نے بائبل میں ایک جگہ نہیں، بلکہ دو مقامات پر حضرت ابراہیمؑ کی طرف منسوب کیا ہے۔

پہلے دو واقعات خود قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں، مگر نہ ان میں سے کسی کو اللہ تعالیٰ نے جھوٹ قرار دیا اور نہ صورت واقعہ سے ان کے جھوٹ ہونے کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔ پہلا واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیمؑ کے کنبے قبیلے کے لوگ اپنے ایک مشرکانہ میلے کے لیے شہر سے باہر جانے لگے تو آپؑ یہ عذر کرکے پیچھے ٹھہر گئے کہ’’انِّی سَقِیْمٌ… میں بیمار ہوں‘‘ اس کو جھوٹ قرار دینے کے لیے کسی مستند ذریعہ سے معلوم ہونا ضروری ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اس وقت بالکل تندرست تھے، کسی قسم کی شکایت ان کو نہ تھی۔ لیکن یہ بات نہ اللہ تعالیٰ نے بتائی نہ اس کے رسولﷺ نے پھر اسے آخر کس بنا پر جھوٹ کہا جائے؟ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیمؑ نے اپنی قوم کے بت خانے میں گھس کر بڑے بت کے سوا باقی سارے بت توڑ دیے تو قوم کے لوگوں نے حضرت ابراہیمؑ پر شبہ کیا۔ چنانچہ وہ بلائے گئے اور ان سے پوچھا گیا کہ تم نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے؟ انہوں نے جواب دیا:

قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِن كَانُوا يَنطِقُونَ (الانبیاء:63)

بلکہ یہ فعل ان کے اس بڑے نے کیا ہے، ان زخمی بتوں سے پوچھ لو اگر یہ بول سکتے ہیں، اس فقرے کے الفاظ خود بتارہے ہیں کہ حضرت ابراہیمؑ نے یہ بات ایک جھوٹے بیان کی حیثیت سے نہیں بلکہ شرک کے خلاف ایک دلیل کی حیثیت سے فرمائی تھی۔ ان کا مدعا دراصل پوچھنے والوں کو اس حقیقت پر متنبہ کرنا تھا کہ تمہارے یہ کیسے خدا ہیں جو بیچارے اپنی داستان مصیبت تک نہیں سنا سکتے، اور تمہارا یہ بڑا خدا کیسا ہے جس کے متعلق تم جانتے ہو کہ یہ کسی فعل پر قادر نہیں ہے۔ اس بات کو تو کوئی معمولی سخن فہم آدمی بھی جھوٹ نہیں کہہ سکتا، کجا کہ ہم نبیﷺ پر یہ بدگمانی کریں کہ آپﷺ نے اسے جھوٹ قرار دیا ہوگا۔

رہا تیسرا ’’جھوٹ‘‘ تو وہ دراصل ان مہمل افسانوں میں سے ایک ہے جو بائبل میں انبیا علیہم السلام کے نام پر گھڑے گئے ہیں۔ بائبل کی کتاب پیدائش میں یہ واقعہ ایک جگہ نہیں بلکہ دو جگہ بیان کیا گیا ہے۔ پہلا واقعہ مصر کا ہے اور وہ بائبل کے الفاظ میں یہ ہے:

’’اس نے اپنی بیوی سارہ سے کہا کہ دیکھ میں جانتا ہوں کہ تو دیکھنے میں خوبصورت عورت ہے اور یوں ہوگا کہ مصری تجھے دیکھ کر کہیں گے کہ یہ اس کی بیوی ہے، سو وہ مجھے تو مار ڈالیں گے مگر تجھے زندہ رکھ لیں گے۔ سو تو یہ کہہ دینا کہ میں اس کی بہن ہوں… مصریوں نے اس عورت کو دیکھا کہ وہ نہایت خوبصورت ہے … اور وہ عورت فرعون کے گھر میں پہنچائی گئی … پر خداوند نے فرعون اور اس کے خاندان پر ابرہام کی بیوی کے سبب سے بڑی بلائیں نازل کیں، تب فرعون نے ابرہام کو بلا کر اس سے کہا کہ یہ تو نے مجھ سے کیا کیا ؟ تو نے مجھے کیوں نہ بتایا کہ یہ تیری بیوی ہے؟ تو نے یہ کیوں کہا کہ وہ میری بہن ہے؟اسی لیے میں نے اسے لیا کہ وہ میری بیوی بنے۔‘‘(باب ۱۲، آیات ۱۱ تا ۲۰)

لطف یہ ہے کہ خود بائبل ہی کے بیان کے مطابق اس وقت حضرت سارہ کی عمر 65 سال تھی۔ اس کے بعد دوسرا واقعہ فلسطین کے جنوبی علاقے کا بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے:

’’ابرہام نے اپنی بیوی سارہ کے حق میں کہا کہ وہ میری بہن ہے اور جرار کے بادشاہ ابی ملک نے سارہ کو بلوایا لیا۔ لیکن رات کو خدا ابی ملک کے پاس خواب میں آیا اور اسے کہا کہ دیکھ تو اس عورت کے سبب سے جسے تو نے لیا، ہلاک ہوگا کیوں کہ وہ شوہر والی ہے… اور ابی ملک نے ابرہام کو بلا کر اس سے کہا کہ تو نے ہم سے یہ کیا کیا اور مجھ سے تیرا کیا قصور ہوا کہ تو مجھ پر اور میری بادشاہت پر ایک گناہ عظیم لایا؟‘‘(باب ۲۰، آیات ۲ تا 16)

بائبل کے اپنے بیان کی رو سے اس وقت حضرت سارہ کی عمر ۹۰ سال تھی۔ یہ دونوں قصے خود بتا رہے ہیں کہ یہ سراسر جھوٹے ہیں اور ہم کسی طرح یہ باور نہیں کرسکتے کہ نبیﷺ نے اس کی تصدیق فرمائی ہوگی۔

اب ایک شخص یہ سوال کرسکتا ہے کہ اگر یہ تینوں باتیں ازروئے درایت غلط ہیں تو اہل روایت نے ان احادیث کو اپنی کتابوں میں درج ہی کیوں کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ درایت کا تعلق احادیث کے نفس مضمون سے ہے، اور روایت کا تعلق تمام تر سند سے۔ اہل روایت نے جو خدمت اپنے ذمہ لے لی تھی، وہ دراصل یہ تھی کہ قابل اعتماد ذرائع سے نبیﷺ کے عہد سے متعلق جتنا مواد ان کو بہم پہنچے، اسے جمع کردیں۔ چنانچہ یہ خدمت انہوں نے انجام دے دی۔ اس کے بعد یہ کام اہل درایت کا ہے کہ وہ نفس مضمون پر غور کرکے ان روایات سے کام کی باتیں اخذ کریں۔ اگر اہل روایت خود اپنی اپنی فہم کے مطابق درایت کا کام بھی کرتے اور مضامین پر تنقید کرکے ان ساری روایتوں کو رد کرتے جاتے، جن کے مضمون ان کی انفرادی رائے میں مناسب نہ ہوتے، تو ہم اس بہت سے مواد سے محروم ہوجاتے جو مجموعہ احادیث مرتب کرنے والوں کے نزدیک کام کا نہ ہوتا اور دوسرے بہت سے لوگوں کے نزدیک کام کا ہوتا۔ اس لیے یہ عین مناسب تھا کہ اہل روایت نے زیادہ تر تنقید اسناد تک اپنے کاموں کو محدود رکھا اور تنقید مضامین کی خدمت انجام دینے والوں کے لیے معتبر اسناد سے بہم پہنچایا ہوا مواد جمع کردیا۔

(۱۳) یہ حدیث بخاری کتاب، بدء الخلق، باب ’’خیر مال المسلم غنم یتبع بھا شف الجبال‘‘ اور کتاب احادیث انبیا، باب ’’ما قال اللہ تعالیٰ واتخذ اللہ ابراھیم خلیلاً‘‘ میں آئی ہے۔ اس مضمون کی تمام احادیث کو جمع کرنے سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ نبیﷺ نے ’’وزع‘‘ کو موذی جانوروں میں سے قرار دیا تھا اور بعض روایات کی رو سے یہ بھی فرمایا تھا کہ دوسرے موذی جانوروں کی طرح اسے بھی مار دیا جائے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ کی صحیح ترین روایت جو بخاری میں آئی ہے، اس میں وہ فرماتی ہیں:

ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال الوزع الفویسق ولم اسمعہ امر بقتلہ۔
نبیﷺ نے وزع کو فویسق (موذی) فرمایا۔ مگر میں نے نہیں سنا کہ آپﷺ نے اسے مار ڈالنے کا بھی حکم دیا ہو۔

دوسری ایک روایت جو مسند احمد اور ابن ماجہ میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے، اس میں مار دینے کا بھی ذکر ہے اور حضرت ابراہیمؑ پر آگ پھونکنے کا بھی، مگر جیسا کہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے۔ والذی فی الصحیح اصح یعنی صحیح بخاری والی روایت ہی زیادہ صحیح ہے۔

پھر بخاری کی اس روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ وزعم سعد بن ابی وقاص ان النبیﷺ امر بقتلہ۔ یعنی ’’سعد بن ابی وقاص کا دعویٰ یہ تھا کہ حضورﷺ نے اسے مار ڈالنے کا حکم دیا‘‘۔ لیکن اس روایت میں یہ تصریح نہیں ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص سے یہ بات کس نے سنی۔ دارقطنی میں یہ روایت اس طرح ہے کہ عن ابن شھاب عن ابی وقاص۔ مگر ابن شہاب نے حضرت سعدؓ کو نہیں دیکھا۔ اس لیے یہ روایت منقطع ہے۔

آخر میں ام شریک کی روایت آتی ہے جس میں مار ڈالنے کے حکم کی بھی تصریح ہے اور اس وجہ کی بھی کہ یہ جانور حضرت ابراہیمؑ پر آگ پھونکتا تھا۔ ممکن ہے اس میں دو چیزیں خلط ملط ہوگئی ہوں۔ ایک اس جانور کا موذی ہونا جو صحیح ترین روایت کی رو سے حضورﷺ نے فرمایا تھا۔ دوسرے اس کے بارے میں آگ پھونکنے کا وہ قصہ جو عوام میں مشہور تھا۔ تاہم اگر صحیح بات وہی ہو جو ام شریک والی روایت میں آئی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گرگٹ کی پوری نسل کواس لیے ما دیا جائے کہ اس کے ایک فرد نے حضرت ابراہیمؑ پر آگ بھڑکائی تھی۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک موذی جانور ہے اور اس کو دوسرے موذی جانوروں کی طرح انسان سے دشمنی ہے۔ چنانچہ سارے جانوروں میں سے یہی وہ جانور تھا کہ جب حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈالا گیا تو اس نے اس آگ کو پھونکنے کی کوشش کی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ گرگٹ کی پھونک میں آگ بھڑکانے کی طاقت کہاں سے آئی۔ اس لیے حدیث میں سرے سے یہ کہا ہی نہیں گیا ہے کہ وہ آگ اس کے بھڑکانے سے بھڑکتی تھی۔

(۱۴) یہ روایت، مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب سترۃ المصلیٰ میں ہے۔ اس میں امام مسلم نے وہ پورا مواد جمع کیا ہے جو ستر کے مسئلے سے متعلق ان کو معتبر سندوں سے پہنچا تھا اور اس کے سارے پہلو ہمارے سامنے رکھ دیے ہیں۔ اس کی کسی ایک روایت کو لے کر نتیجہ نکال بیٹھنا صحیح نہیں ہے بلکہ ساری روایتوں پر ایک جامع نگاہ ڈالنے ہی سے آدمی صحیح نتیجہ اخذ کر سکتا ہے۔ اصل بات جو ان احادیث سے معلوم ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ نبیﷺ نے نمازی کو اپنے آگے سترہ رکھنے کا حکم دیا تھا اور اس کی وجہ سمجھاتے ہوئے یہ بیان کیا تھا کہ اگر آدمی سترہ رکھے بغیر نماز کے لیے کسی کھلی جگہ کھڑا ہوجائے گا تو عورتیں، کتے، گدھے سب اس کے سامنے سے گزریں گے۔ اس بات کو سن کر بعض لوگ اس مسئلے کو یوں بیان کرنے لگے کہ عورت، کتے اور گدھے کے گزرنے سے نماز قطع ہوجاتی ہے۔ یہ باتیں جب حضرت عائشہؓ کو پہنچیں تو انہوں نے فرمایا: ’’ان المرأۃ لدابۃ سوء (پھر تو عورت بڑی بری جانور ہوئی) عدلتمونا بالکلاب والحمر (تم لوگوں نے تو ہم کو گدھوں اور کتوں کے برابر کر دیا)، ان النبیﷺ کان یصلی من اللیل وانا معترضۃ بینہ وبین القبلۃ کا عتراض الجنازہ (نبیﷺ تو رات کو نماز پڑھتے تھے اور میں ان کے اور قبلے کے درمیان جنازے کی طرح پڑی ہوتی تھی)۔

(۱۵) اس مضمون کی روایات بخاری نے کتاب بدء الخلق اور کتاب الطب میں نقل کی ہیں۔ نیز ابن ماجہ، نسائی، ابو داؤد اور دارقطنی میں بھی یہ موجود ہیں۔ بعض شارحین نے اسے حدیث کے الفاظ کو ٹھیک ان کے لغوی معنی میں لیا ہے اور اس کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ فی الواقع مکھی کے ایک پر میں زہر اور دوسرے میں اس کا تریاق پایا جاتا ہے، اس لیے جب یہ کسی کھانے پینے کی چیز میں گرجائے تو اسے ڈبو کر نکالا جائے اور بعض نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ نبیﷺ دراصل اس بے جا غرور کا علاج کرنا چاہتے تھے جس کی بنا پر بعض لوگ دودھ کے پیالے یا سالن کی اس پوری رکابی سے ہاتھ اٹھالیتے ہیں جس میں مکھی گری ہو، اور پھر یا تو اسے پھینک دیتے ہیں، یا اپنے خادموں کو کھانے کے لیے دے دیتے ہیں۔ اس طرح کے لوگوں کا غرور توڑنے کے لیے آپﷺ نے فرمایا کہ مکھی اگر تمہارے کھانے میں گرجائے تو اسے ڈبو کر نکالو اور پھر اس کھانے کو کھاؤ۔ اس کے ایک پر میں بیماری ہے یعنی کبرو غرور کی بیماری جو اسے دیکھ کر تمہارے نفس میں پیدا ہوتی ہے اور دوسرے پر میں اس کا تریاق۔ یعنی اس کبروغرور کا علاج جس کی وجہ سے تم ایسے کھانے کو پھینک دیتے ہو یا اپنے خادموں کو کھلاتے ہو۔ اس معنی کی تائید وہ احادیث بھی کرتی ہیں جن میں نبیﷺ نے برتن میں تھوڑا سا کھانا چھوڑ کر اٹھ جانے کو نا پسند فرمایا ہے اور حکم دیا ہے کہ اپنی رکابی کو صاف کرکے اٹھو۔ اس حکم کی وجہ بھی یہی ہے کہ جو شخص اس طرح برتن میں کچھ چھوڑ کر اٹھتا ہے، وہ گویا یہ چاہتا ہے کہ یا تو اس بقیہ کھانے کو پھینک دیا جائے یا اسے کوئی دوسرا کھائے۔

آخری سوال جو آپ نے بخاری کے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہونے کے بارے میں کیا ہے۔ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ یقینی ذریعے سے تو ہم کو کتاب اللہ پہنچی ہے، کیوں کہ اسے ہزاروں آدمیوں نے بتواتر نقل کیا ہے۔ مگر اس کے بعد جس کتاب کے مندرجات ہم کو معتبر ترین سندوں سے پہنچے ہیں، وہ بخاری ہے کیوں کہ دوسری تمام کتابوں کی بہ نسبت اس کتاب کے مصنف نے سندوں کی جانچ پڑتال زیادہ کی ہے۔ یہ صحت کا حکم صرف اسناد سے متعلق ہے اور یقیناً بالکل صحیح ہے۔ رہی مضامین کی تنقید بلحاظ درایت، تو اس کے متعلق میں اوپر ارشارہ کر چکا ہوں کہ یہ کام اہل روایت کے فن سے بڑی حد تک غیر متعلق تھا، اس لیے یہ دعویٰ کرنا صحیح نہیں کہ بخاری میں جتنی احادیث درج ہیں، ان کے مضامین کو بھی جوں کا توں بلا تنقید قبول کرلینا چاہیے۔

اس سلسلہ میں یہ بات بھی جان لینے کی ہے کہ کسی روایت کے سنداً صحیح ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کا نفس مضمون بھی ہر لحاظ سے صحیح اور جوں کا توں قابل قبول ہو۔ ہم کو خود اپنی زندگی میں بار ہا اس کا تجربہ ہوتا رہتا ہے کہ ایک شخص کی گفتگو کوجب سننے والے دوسروں کے سامنے نقل کرتے ہیں تو صحیح روایت کی کوشش کرنے کے باوجود ان کی نقل میں مختلف قسم کی کوتاہیاں رہ جاتی ہیں۔ مثلاً کسی کو پوری بات یاد نہیں رہتی اور وہ اس کا صرف ایک حصہ نقل کرتا ہے۔ کسی کی سمجھ میں بات اچھی طرح نہیں آئی، اس لیے وہ ناقص مفہوم ادا کرتا ہے۔ کوئی دوران گفتگو کسی وقت پہنچتا ہے اور اس کو معلوم نہیں ہوتا کہ پہلے کیا بات ہو رہی تھی۔ اس طرح کے متعدد نقائص ہونے کی وجہ سے بسا اوقات نیک نیتی اور صداقت کے باوجود قائل کی بات اپنی صحیح صورت میں نقل نہیں ہوتی اور ایسا ہی معاملہ حالات اور افعال کی رودادیں بیان کرنے میں بھی پیش آیا کرتا ہے۔ کبھی ان نقائص کو دوسری روایتیں رفع کر دیتی ہیں اور سب کو ملا کر دیکھنے سے پوری تصویر سامنے آجاتی ہے، اور کبھی ایک ہی روایت موجود ہوتی ہے (جسے اصطلاح علم حدیث میں غریب کہتے ہیں) اس لیے وہ نقص علم روایت کی مدد سے رفع نہیں کیا جاسکتا اور درا یت سے کام لے کر یہ رائے قائم کرنی پڑتی ہے کہ اصل بات کیا ہوسکتی تھی یا یہ کہ یہ بات اپنی موجود صورت میں قابل قبول ہے یا نہیں، یا یہ کہ نبیﷺ کے مزاج اور انداز گفتگو سے یہ چیز مناسبت رکھتی ہے یا نہیں۔ اس حد تک حدیث میں تحقیق کرنے کی صلاحیت جن لوگوں میں نہ ہو، انہیں اول تو حدیث کی کتابیں پڑھنی ہی نہیں چاہئیں، یا پڑھیں تو کم ازکم ان کو فیصلے صادر نہ کرنے چاہئیں۔

(ترجمان القرآن، محرم و صفر ۱۳۷۲ھ، اکتوبر و نومبر ۱۹۵۲ء)