مہر غیر مؤجل کا حکم

سوال:اگر بوقت نکاح زر مہر کی صرف تعداد مقرر کردی گئی اور اس امر کی تصریح نہ کی گئی ہو کہ یہ مہر معّجل ہے یا مؤجل تو آیا اس کو معّجل قرار دیا جائے گا یا مؤجل؟ اس مسئلہ سے استفتاء کیا گیا مگر جواب مختلف آئے۔ مثلاًچند جوابات یہ ہیں:

مولانا محمد کفایت اللہ صاحب ودیگر علماء دہلی:

’’اگر مہر میں مؤجل کی تصریح بھی ہو مگر اجل مجہول بحالت فاحشہ ہو تو مہر معّجل ہوجاتا ہے اور جبکہ معّجل یا مؤجل کا لفظ استعمال نہ کیا جائے بلکہ واجب الادا کا لفظ لکھ دیا جائے تو یہ بھی معّجل ہوگا کیونکہ بغیر ذکر اجل کے مؤجل نہیں ہو سکتا۔ (در مختار)الااذا اجھل الاجل جھالتہ فاحشۃ فیحب حالا غایہ وان کانت جھالۃ متفا حشۃ کالی اکمیسرۃ الٰی ھبوب الریح الٰی ان تمطر السماء فالاجل لا یثبت ویجب المھر حالا۔ وکذ افی غایۃ البیان۔(ردالمختار)

مولانا سعید احمد صاحب مدرس مدرستہ الاصلاح سرائے میر، ضلع اعظم گڑھ!

’’مہر مؤجل اس وقت ہوگا جب بوقت عقد نکاح ادائے مہر کے لیے وقت اور تاریخ کا تعین ہو ورنہ معّجل، یہی حال تمام معاملات کا ہے۔ اگر کسی نے ایک دکان سے کوئی چیز خریدی اور بات چیت میں نقد یا تاخیر تعین وقت کا ذکر نہیں آیا تو یہ معاملہ بھی معّجل کے حکم میں ہوگا، خریدار خواہ فوراً قیمت دیدے یا بعد میں دینے کا وعدہ کرے بہر صورت معّجل میں یہ ضروری نہیں ہے کہ عوض فوراً ادا کیا جائے بلکہ صاحب حق کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ فوراً یا جب چاہے اپنے حق کا مطالبہ کرے اور معاملہ موجلہ میں اجل اور تاریخ سے پہلے مطالبہ اور تقاضے کا حق حاصل نہیں ہو گا۔اس تفصیل کی رو سے معاملہ مسئولہ میں زرمہر معّجل ہے اس لیے عورت جب چاہے اس کا مطالبہ کرسکتی ہے‘‘۔

مولانا سید سلمان ندوی

’’ زر مہر میں اگر معّجل یا مؤجل کی کوئی تفصیل نہیں ہے تو عرف کا اعتبار کیا جائے گا۔ وقایہ میں ہے والمعّجل والمؤجل ان بینا فذالک والا فالمتعارف اگر معّجل اور مؤجل دونوں بیان کردیے گئے ہیں تو جیسا بیان کیا گیا ہے ویسا ہوگا ورنہ عرف کا اعتبار ہوگا۔‘‘

مولانا عبدالرحمٰن صاحب نائب مفتی ریاست پٹیالہ ودیگر علماء۔

’’اس صورت میں عرف کا اعتبار کیا جائے گا۔(حوالہ وہی مختصر وقایہ کا ہے) اگر عرف یہ ہے کہ ایک عورت ایسے غیر مبیّن مہر کو صرف شوہر کی وفات یا طلاق ہی کے بعد حاصل کر سکتی ہے تو وہ شوہر کی وفات یا طلاق سے پہلے اسے وصول کرنے کا حق نہیں رکھتی۔‘‘

اس اختلاف کا حل کیا ہے؟ براہ کرم آپ اس پر روشنی ڈالیں۔

جواب: قرآن و حدیث کی رو سے مہر دراصل اس حق زوجیت کا معاوضہ ہے جو ایک مرد کو اپنی بیوی پر حاصل ہوتا ہے۔ قرآن میں فرمایا گیا ہے۔

وَ اُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآئَ ذٰلِکُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ۔(النساء۲۴)

ان کے ماسوا جو عورتیں ہیں، تمہارے لیے حلال کیا گیا کہ اپنے مالوں کے عوض ان سے طلب نکاح کرو۔

فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْہُنَّ فَاٰتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ فَرِیْضَۃً۔(النساء۲۴)

پس جو لطف تم نے ان سے اٹھایا ہے اس کے بدلے میں ان کے مہر بطور ایک فرض کے ادا کرو۔

وَ کَیْفَ تَاْخُذُوْنَہٗ وَ قَدْ اَفْضٰی بَعْضُکُمْ اِلٰی بَعْضٍ (النساء۲۱)

اور تم وہ مال کیسے لے سکتے ہو جب کہ تم میں سے ایک دوسرے سے اختلاط کر چکا ہے۔

ان آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مہر ہی وہ چیز ہے جس کے عوض مرد کو عورت پر شوہرانہ حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ پھر اس کی مزید تصریح وہ احادیث کرتی ہیں جو اس معنی میں نبی کریمﷺ سے مروی ہیں۔ صحاح ستہ اور دارمی اور مسند احمد میں حضور اکرمﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے:

اَحَقُّ الشُّرُوطِ ان تُوْفُوابِہِ مَااسْتَحْلَلْتُمْ بِہِ الْفُرُوْجَ۔

تمام شرطوں سے بڑھ کر جو شرط اس کی مستحق ہے کہ تم اسے پورا کرو، وہ شرط وہ ہے جس پر تم عورتوں کی شرمگاہوں کو حلال کو کرتے ہو۔

لِعَا ن کا وہ مشہور مقدمہ، جس میں نبی کریمﷺ نے زوجین کے درمیان تفریق کرائی تھی، اس کا ذکر کرتے ہوئے عبداللہؓ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ جب تفریق ہوچکی تو شوہر نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ میرا مال مجھے واپس دلوایا جائے۔ آپﷺ نے جواب میں فرمایا:

لَا مَالَ لَکَ اِنْ کُنْتَ صَدَقْتَ عَلَیْھَا فَھُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِھَا وَاِنْ کُنْتَ کَذَبْتَ عَلَیْھَا فَذٰلِکَ اَبْعَدْ لَکَ مِنْھَا۔(مسلم کتاب اللعان)

’’مال لینے کا تجھے کوئی حق نہیں ہے۔ اگر تو نے اس پر سچا الزام لگایا ہے تو اس کی شرمگاہ جو تو نے اپنے لیے حلال کی تھی اس کے معاوضے میں وہ مال ادا ہو چکا ، اور اگر تو نے اس پر جھوٹا الزام لگایا ہے تو مال لینے کا حق تجھ سے اور بھی زیادہ دور ہوگیا۔‘‘(مسلم۔کتاب اللعان)

اس سے بھی زیادہ تصریح ایک حدیث میں ہے جو امام احمد اپنی مسند میں لائے ہیں کہ:

مَنْ تَزَوَّجَ امْرأۃ بِصْداق وَنویٰ ان لا یودیہ فھو زانٍ۔

’’جس نے کسی عورت سے نکاح کیا اور نیت یہ رکھی کہ یہ مہر دینا نہیں وہ زانی ہے‘‘۔

ان تمام نصوص سے مہر کی یہ حیثیت اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ یہ کوئی رسمی ونمائشی چیز نہیں ہے بلکہ وہ چیز ہے جس کے معاوضہ میں ایک عورت ایک مرد کے لیے حلال ہوتی ہے۔ اور ان نصوص کا اقتضاء یہ ہے کہ استحلال فرج کے ساتھ ہی پورا مہر واجب الادا ہوجائے۔الّا یہ کہ زوجین کے درمیان اس کو موخر کردینے کے لیے کوئی قرار داد ہوچکی ہو۔

پس زرمہر کی ادائیگی کے معاملے میں اصل تعجیل ہے کہ نہ تاجیل۔ مہر کا حق یہ ہے کہ وہ استحلال فرج کے ساتھ بر وقت ادا ہو، اور یہ محض ایک رعایت ہے کہ اسکو ادا کرنے میں مہلت دی جائے۔ اگر مہلت کے بارے میں زوجین کے درمیان کوئی قرار داد نہ ہوئی ہو تو اعتبار اصل(تعجیل) کا کیا جائے گا نہ کہ رعایت(تاجیل اور مہلت) یہ بات شارع کے منشاء کے بالکل خلاف معلوم ہوتی ہے کہ تاجیل کو اصل قرار دیا جائے اور تاجیل و تعجیل کے غیر مصرح ہونے کی صورت میں زر مہر کو آپ سے آپ موجل ٹھہرایا جائے۔

فقہاء حنفیہ کے درمیان اس مسئلہ میں دو گروہ پائے جاتے ہیں۔ ایک گروہ کی رائے وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی۔ غایۃ البیان میں ہے:

فان کان بشرط التعجیل او مسکوتا عنہ یجب حالا ولھا ان تمتع نفسھا حتٰی یعطیھا المھر۔

اگر مہر بشرط تعجیل ہو یا اس کے بارے میں سکوت اختیار کیا گیا ہو(کہ مجعل ہے یا موجل) سو وہ فوراً واجب ہوگا اور عورت کو حق ہوگا کہ اپنے آپ کو شوہر سے روک لے جب تک وہ مہر ادا نہ کرے۔

اور شرح العنایہ علی الہدایہ میں ہے:

فان سمو المھر ساکتین عن التعجیل والتا جیل ماذا یکون حکمہ؟ قلت یجب حالا فیکون حکمہ حکم ما شرط تعجیلہ۔

پھر اگر مہر مقرر کر دیا گیا اور معّجل یا موجل کے بارے میں سکوت اختیار کیا گیا تو اس کا کیا حکم ہے؟ میں کہتا ہوں کہ وہ فوراً واجب ہوگا، اس کا حکم اس مہر کا سا حکم ہے جس کے لیے تعجیل کی شرط کی گئی ہو۔

اور اسبیجابی میں ہے:

اِن کان المھر معجلا او مسکو تاعنہ فانہ یجب حالا لان النکاح عقد معاوضۃ وقد تعین حقہ فی الذوجۃ فوجب ان یتعین حقھا وذالک بالتسلیم۔

اگر مہر معجل ہو یا اس کے بارے میں سکوت اختیار کیا گیا ہو تو وہ فوراً واجب ہوگا کیونکہ نکاح ایک عقد بامعاوضہ ہے، جب زوجہ میں شوہر کا حق متعین ہوگیا تو واجب ہوگا کہ عورت کا حق بھی متعین ہوجائے اور وہ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ مہر ادا کردیا جائے۔

رہا دوسرا گروہ، تو وہ کہتا ہے کہ اس معاملے میں عرف کا اعتبار کیا جائے گا فتاویٰ قاضی خاں میں ہے:

فان لم یبینو اقدرالمعجل ینظر الی المرأۃ والی المھرانہ کم یکون المعجل لمثل ھذہ المراۃ من مثل ھذاالمھر فیعجل ذالک ولا یتقد ربالربع والخمس بل یعتبر المتعارف۔

اگر معّجل کی مقدار واضح نہ کی گئی ہو تو دیکھا جائے گا کہ عورت کس طبقہ کی ہے اور مہر کتنا ہے اور یہی کہ ایسی عورت کے لیے ایسے مہرمیں سے کس قدر معّجل قرار دیا جاتا ہے۔ بس اتنی ہی مقدار معّجل قراردی جائے ایک چوتھائی یا پانچویں حصے کی تعیین نہ کردینی چاہئے جو رواج ہو، اس کا اعتبارکرنا چاہئے۔

اسی رائے کی تائید علامہ ابن ہمام نے فتح القدیر میں کی ہے۔ وہ لکھے ہیں:

وان لم یشترط تعجیل شئی بل سکتوا عن تاجیلہ و تعجیلہ فان کان عرف فی تعجیل بعضہ وتاخیر باقیہ الی الموت اوالمیسرۃ اوالطلاق فلیس لھا ان تحتبس الا الیٰ تسلیم ذالک القدر۔

اور اگر کسی حصہ مہر کی تعجیل کی شرط نہ کی گئی ہو بلکہ تعجیل اور تاجیل کے بارے میں سکوت اختیار کیا گیا ہو تو رواج دیکھا جائے گا۔ اگر رواج یہ ہے کہ ایک حصہ معّجل قرار دیا جاتا ہے اور باقی حصہ موت تک یا خوشحالی یا طلاق تک موخررکھا جاتاہے تو عورت صرف اتنی ہی مقدار وصول ہونے تک اپنے آپ کو شوہر سے روکنے کا حق رکھتی ہے۔

اصولی حیثیت سے دیکھاجائے تو پہلے گروہ کی رائے قرآن و حدیث کی منشاء سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے۔ لیکن دوسرے گروہ کی رائے بھی بے وزن نہیں ہے۔ ان کے قول کا مدعا یہ نہیں ہے کہ مہر کے باب میں تاجیل اصل ہے اور جب تاجیل و تعجیل کی صراحت نہ ہو تو معاملہ اصل معنی تاجیل کی طرف راجع ہونا چاہئے۔ بلکہ وہ اپنے فتوے میں ایک اور قاعدے کا لحاظ کرتے ہیں جسے شریعت میں تسلیم کیا گیا ہے اور یہ ہے کہ کسی سوسائٹی میں معاملات کے متعلق جو طریقہ عام طور پرمروج ہو اس کی حیثیت افراد کے درمیان ایک بے لکھے معاہدے کی سی ہوتی ہے، اگر اس سوسائٹی کے دو فریق باہم کوئی معاملہ طے کریں اور کسی خاص پہلو کے بارے میں بصراحت کوئی قرارداد نہ کریں تو یہ سمجھا جائے گا کہ اس پہلو میں وہ مروجہ طریقے پر راضی ہیں۔

بلاشبہ یہ قاعدہ شریعت میں مسلّم ہے اور اس لحاظ سے فقہاء کے دوسرے گروہ کی رائے بھی غلط نہیں ہے۔ لیکن قبل اس کے کہ ہم کسی خاص سوسائٹی میں اس قاعدے کو جاری کریں، ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ شریعت نے رواج کو بطور ایک ماخذ قانون (Source of Law) کے تسلیم نہیں کیا ہے کہ جو کچھ رواج ہو وہی شریعت کے نزدیک حق ہو۔ بلکہ اس کے برعکس وہ غیرمتقی سوسائٹی اور اس کے غیرمنصفانہ رواجوں کو قبول کرنے کے بجائے ان کو بدلنا چاہتی ہے اور صرف ان رواجوں کو تسلیم کرتی ہے جو ایک اصلاح شدہ سوسائٹی میں شریعت کی روح اور اس کے اصولوں کے تحت پیدا ہوئے ہوں۔ لہٰذا رواج کو بے لکھا معاہدہ مان کر مثل قانون نافذ کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ جس سوسائٹی کے رواج کو ہم یہ حیثیت دے رہے ہیں کیا وہ ایک متقی سوسائٹی ہے؟ اور کیا اس کے رواج شریعت کی روح اور اس کے اصولوں کی پیروی میں پیدا ہوئے ہیں؟ اگر تحقیق سے اس کا جواب نفی میں ملے تو اس قاعدے کو مثل قانون جاری کرنا عدل نہیں بلکہ قطعاً ایک ظلم ہوگا۔

اس نقطہ نظر سے جب ہم اپنے ملک کی موجودہ مسلم سوسائٹی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ تعلقات زن و شوہر کے معاملے میں اس نے خواہشات نفس کی پیروی اختیار کرکے اس توازن کو بہت کچھ بگاڑ دیا ہے جو شریعت نے قائم کیا تھا اور بالعموم اس کا میلان ایسے طریقوں کی طرف ہے جو شریعت کی روح اور اس کی احکام سے صریحاً منحرف ہیں۔ اسی مہر کے معاملے کو لے لیجئے جس پر ہم یہاں گفتگو کررہے ہیں۔ اس ملک کے مسلمان بالعموم مہر کو ایک رسمی چیز سمجھتے ہیں ان کی نگاہ میں اس کی وہ اہمیت قطعاً نہیں ہے جو قرآن و حدیث میں اس کو دی گئی ہے۔ نکاح کے وقت بالکل ایک نمائشی طور پر مہر کی قرارداد ہوجاتی ہے مگر اس امر کا کوئی تصور ذہنوں میں نہیں ہوتاکہ اس قرارداد کو پورا بھی کرنا ہے۔ بارہا ہم نے مہر کی بات چیت میں اپنے کانوں سے یہ الفاظ سنے ہیں کہ ’’میاں کون لیتا ہے کون دیتا ہے‘‘ گویا یہ فعل محض ضابطہ کی خانہ پری کے لیے کیا جارہا ہے۔ ہمارے علم میں 80 فیصد نکاح ایسے ہوتے ہیں جن میں مہر سرے سے کبھی ادا ہی نہیں کیا جاتا۔ زرِ مہر کی مقدار مقرر کرنے میں اکثر جو چیز لوگوں کے پیش نظر ہوتی ہے وہ صرف یہ کہ اسے طلاق کی روک تھام کا ذریعہ بنایاجائے۔ اسی طرح عملاً عورتوں کے ایک شرعی حق کو کالعدم کردیا گیا ہے اور اس بات کی کوئی پروا نہیں کی گئی کہ جس شریعت کی رو سے یہ لوگ عورتوں کو مردوں پر حلال کرتے ہیں وہ مہر کو استحلا ل فروج کا معاوضہ قرار دیتی ہے اور اگر معاوضہ ادا نہ کرنے کی نیت نہ ہو تو خدا کے نزدیک عورت مرد پر حلال ہی نہیں ہوتی۔

ہمارے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ جس سوسائٹی کا عرف اتنا بگڑچکا ہو اور جس کے رواج نے شریعت کے احکام اور اس کی روح کے بالکل خلاف صورتیں اختیار کرلی ہوں۔ اس کے عرف و رواج کو ازروئے شریعت جائز قرار دینا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے۔ جن فقہا کی عبارتیں اعتبار عرف کی تائید میں نقل کی جاتی ہیں، ان کے پیش نظر نہ یہ بگڑی ہوئی سوسائٹی تھی اور نہ اس کے خلاف شریعت رواج۔ انہوں نے جو کچھ لکھا تھا وہ ایک اصلاح شدہ سوسائٹی اور اس کے عرف کو پیش نظر رکھ کر لکھا تھا۔ کوئی مفتی مجرد ان کی عبارتوں کو نقل کرکے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہوسکتا۔ اس کا فرض ہے کہ فتویٰ دینے سے پہلے اصول شریعت کی روشنی میں ان کی عبارتوں کو اچھی طرح سمجھ لے اور یہ تحقیق کرلے کہ جن حالات میں انہوں نے وہ عبارتیں لکھی تھیں ان سے وہ حالات مختلف تو نہیں ہیں جن پر آج انہیں چسپاں کیا جارہا ہے۔

(ترجمان القرآن۔ ر جب۔ شعبان ۶۲ھ جولائی/ اگست ۴۳ء)