مسئلہ مہدی

سوال: چند حضرات نے جو نہایت دین دار اور مخلص ہیں تجدید و احیائے دین کی ان سطور کے متعلق جو آپ نے امام مہدی کے متعلق تحریر فرمائی ہیں،احادیث کی روشنی میں اعتراضات پیش فرمائے ہیں جنہیں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔یہ میں اس احساس کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ دعوت اقامت دین کے پورے کام میں شریعت کی پابندی ضروری ہے،پس لازم ہے کہ ہر وہ چیز جو آپ کے قلم سے نکلے، عین شریعت کے مطابق ہو اور اگر کبھی کوئی غلط رائے تحریر میں آئے تو اس سے رجوع کرنے میں کوئی تامل نہ ہونے پائے۔

1) امام مہدی کے متعلق جو سطور آپ نے ص۳۱ تا ۳۳ میں تحریر فرمائی ہیں وہ ہمارے فہم کے مطابق احادیث کے خلاف ہیں۔اس سلسلے میں میں نے ترمذی اور ابو داؤد کی تمام روایات کا مطالعہ کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض روایات کے راوی ضرور خارجی یا شیعہ ہیں،لیکن ابو داؤد ترمذی وغیرہ کے ہاں ایسی صحیح احادیث بھی موجود ہیں جن کے راوی ثقہ اور صدوق ہیں اور وہ آپ کی رائے کی تصدیق نہیں بلکہ تردید کرتی ہیں۔ مثلاً ابوداؤد کی روایت ملاحظہ ہو۔

حد ثنا محمد بن المثنیٰ…… عن ام سلمۃ زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال یکون اختلاف عند موت خلیفہ فیخرج رجل من اھل المدینۃ ھاربا الیٰ مکۃ فیاتیہ ناس من اھل مکۃ فیخرجو نہ، وھو کارہ فیبا یعونہ بین الرکن والمقام……(کتاب المہدی)

اس روایت سے لے کر اخیر تک روایت ملاحظہ ہو، تمام راوی ثقہ ہیں۔ نیز بہیقی کی بھی ایک روایت مشکوٰۃ کی کتاب الفنن میں تحریر ہے:

عن ثوبان قال اذارأیتم الرأیات السودقد جاءت من قبل خراسان فاتوھا فان فیھا خلیفۃ اللہ المھدی۔

مندرجہ بالا احادیث سے آپ کے اس بیان کی تردید ہوتی ہے کہ المہدی کو اپنے موعود ہونے کی خبر نہ ہوگی۔ خصوصاً یہ الفاظ ملاحظہ ہوں۔

وجب علیٰ کل مومن نصرہ اوقال اجابتہ

نیز ترمذی کی ایک رویت کے یہ الفاظ بھی دیکھیے:

قال فیجئ الیہ الرجال فیقول یا مہدی! اعطنی اعطنی! قال فیحشی لہ فی ثوبہ ما استطاع ان یحملہ

(۲)جناب نے فرمایا ہے کہ مہدی موعود جدید ترین طرز کا لیڈر ہو گا…… وغیرہ!آپ کے ان الفاظ کی کوئی سند احادیث میں نہیں ہے۔ اگر ہو تو تحریر فرمائیں۔ جو لوگ آپ کے برعکس خیالات رکھتے ہیں ان کی واقعاتی دلیل یہ ہے کہ اب تک جتنے مجددان امت گزرے ہیں وہ عموماً صوفیائے اکرم کے طبقے میں ہوئے ہیں۔

(۳) جناب کی ان سطور سے کہ وہ جدید ترین طرز کا لیڈر ہوگا، یہ شبہ کیا جارہا ہے کہ آپ خود امام مہدی ہونے کا دعویٰ کریں گے۔

(۴)کتاب ’’علامات قیامت‘‘ (موئفہ مولانا شاہ رفیع الدین صاحب و مترجمہ مولوی نور محمد صاحب) میں امام مہدی کے متعلق مسلم و بخاری کے حوالے سے چند روایات درج ہیں، لیکن تحقیق کرنے پر مسلم و بخاری میں مجھے ایسی کوئی حدیث نہ مل سکی۔ اسی کتاب میں ایک روایت یہ بھی درج ہے کہ بیعت مہدی کے وقت آسمان سے یہ ندا آئے گی کہ ’’ھذا خلیفۃ اللہ المھدی فاستمعو الہ واطیعوا‘‘۔ اس روایت کے متعلق آپ کی تحقیق کیا ہے؟

جواب:(۱)امام مہدی کے متعلق جو احادیث مختلف کتب حدیث میں مروی ہیں ان کے متعلق میں اپنی تحقیق کا خلاصہ اس سے پہلے عرض کر چکا ہوں۔ جو لوگ امام مہدی کے متعلق کسی روایت کو ماننے کے لیے اتنی بات کو کافی سمجھتے ہیں کہ وہ حدیث کی کسی کتاب میں درج ہے، یا تحقیق کا حق ادا کرنے کے لیے صرف اس مرحلہ تک پہنچ سکتے ہیں کہ راویوں کے متعلق یہ معلوم کر لیں کو وہ ثقہ ہیں یا نہیں، ان کے لیے یہ درست ہے کہ اپنا وہی عقیدہ رکھیں جو انہوں نے روایات میں پایا ہے۔ لیکن جو لوگ ان روایات کو جمع کرکے ان کا باہمی مقابلہ کرتے ہیں اور ان میں بکثرت تعارضات پاتے ہیں، نیز جن کے سامنے بنی فاطمہ اور بنی عباس اور بنی امیہ کی کشمکش کی پوری تاریخ ہے اور وہ صریح طور پر دیکھتے ہیں کہ اس کشمکش کے فریقوں میں سے ہر ایک کے حق میں متعدد روایات موجود ہیں اور راویوں میں سے بھی اکثر و بیشتر وہ لوگ ہیں جن کا ایک نہ ایک فریق سے کھلا ہوا تعلق تھا، ان کے لیے یہ بہت مشکل ہے کہ ان روایات کی ساری تفصیلات کو صحیح تسلیم کر لیں۔خود آپ نے جو احادیث نقل کی ہیں ان کے اندر بھی ’’رأیات السود‘‘یعنی کالے جھنڈوں کا ذکر موجود ہے، اور تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ کالے جھنڈے بنی عباس کا شعار تھے۔ نیز یہ بھی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کی احادیث کو پیش کرکے خلیفہ مہدی عباس کو مہدی موعود ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اب اگر کسی کو ان چیزوں کے ماننے پر اصرار ہے تو وہ مانے اور ’’تجدید و احیائے دین‘ میں جس رائے کا میں نے اظہارکیا ہے اس کو رد کردے۔ کچھ ضروری نہیں ہے کہ ہر تاریخی، عملی اور فقہی مسئلہ میں میری ایک بات سب لوگوں کے لیے قابل تسلیم ہو۔ اور یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ ان مسائل میں میری کوئی تحقیق کسی کو پسند نہ آئے تو اصل دین کی سعی اقامت میں بھی میرے ساتھ تعاون کرنا اس کے لیے حرام ہوجائے۔آخر یہ کوئی نئی بات تو نہیں ہے کہ حدیث، تفسیر، فقہ وغیرہ علوم میں اہل علم کی رائیں مختلف ہو تی ہوں۔

(۲)میں نے یہ بات جو کہی ہے کہ مہدی موعود جدید ترین طرز کا لیڈر ہوگا، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ڈاڑھی منڈوائے گا،کوٹ پتلون پہنے گا، اور اپٹوڈیٹ فیشن میں رہے گا۔ بلکہ اس سے میرا مطلب یہ ہے کہ وہ جس زمانے میں بھی پیدا ہوگا، اس زمانے کے علوم سے، حالات سے اور ضروریات سے پوری طرح واقف ہوگا، اپنے زمانے کے مطابق علمی تدابیر اختیار کرے گا اور ان تمام آلات و مسائل سے کام لے گا جو اس کے دور میں سائنٹیفک تحقیقات سے دریافت ہوئے ہوں۔یہ تو ایک صریح عقلی بات ہے جس کے لیے کسی سے سند کی ضرورت نہیں ہے۔اگر نبی ﷺ اپنے زمانے کی تدابیر مثلاً خندق، دبابہ، منجنیق وغیرہ استعمال فرماتے تھے تو کوئی وجہ نہیں کہ آئندہ کسی دور میں جو شخص حضور اکرمﷺ کی جانشینی کا حق ادا کرنے اٹھے گا وہ ٹینک اور ہوائی جہاز سے،سا ئنٹیفک معلومات سے اور اپنے زمانہ کے احوال و معاملات سے بے تعلق ہوکر کام کرے گا کسی جماعت کے حصول مقصد اور کسی تحریک کے غلبہ کا فطری راستہ ہی یہی ہے کہ وہ قوت کے تمام جدید ترین وسائل کو قابو میں لائے اور اپنا اثر پھیلانے کے لیے جدید ترین علوم و فنون اور طریقہ ہائے کار کو استعمال کرے۔

(۳) یہ ارشاد کہ ا س سے شبہ کیا جارہا ہے کہ ’’ تو خود امام مہدی ہونے کا دعویٰ کرے گا۔‘‘ اس کے جواب میں بجز اس کے میں کچھ عرض نہیں کر سکتا کہ اس قسم کے شبہات کا اظہار کرنا کسی ایسے آدمی کا کام تو ٰنہیں ہوسکتا جو خدا سے ڈرتا ہو، جسے خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری کا احساس ہو اور جس کو اللہ تعالیٰ کی یہ ہدایت بھی یاد ہو کہ ’’اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّز اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ‘‘ جو حضرات اس قسم کے شبہات کا اظہار کرکے بندگان خدا کو جماعت اسلامی کی دعوت حق سے روکنے کی کوشش فرما رہے ہیں، میں نے ان کو ایک ایسی خطرناک سزا دینے کا فیصلہ کر لیا ہے جس سے وہ کسی طرح رہائی حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اور وہ سزا یہ ہے کہ انشاء اللہ میں ہر قسم کے دعوؤں سے اپنا دامن بچائے ہوئے اپنے خدا کی خدمت میں حاضر ہوں گا اور پھر دیکھوں گا یہ حضرات خدا کے سامنے اپنے ان شبہات کی اور ان کو بیان کرکر کے لوگوں کو حق سے روکنے کی کیا صفائی پیش کرتے ہیں۔

(۴) کتاب علامات قیامت میں جس روایت کا ذکر ہے، اس کے متعلق میں نفیاً یا اثباتاً کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اگر وہ صحیح ہے اور فی الواقع حضور اکرمﷺ نے یہ خبر دی ہے کہ مہدی کی بیعت کے وقت آسمان سے ندا آئے گی کہ’’ھذا خلیفۃ اللہ المھدی فاستمعو الہ واطیعوا‘‘ تو یقیناً میری وہ رائے غلط ہے جو تجدید و احیائے دین میں ،میں نے ظاہر کی ہے۔لیکن مجھے یہ توقع نہیں ہے کہ حضور اکرمﷺ نے یہ بات فرمائی ہوگی۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی نبی کی آمد پر بھی آسمان سے ایسی ندا نہیں آئی۔ خود نبی کریمﷺ جو آخری نبی تھے اور نوع انسانی کے لیے جن کے بعد کفر و ایمان کے فیصلہ کا کوئی دوسرا موقع آنے والانہ تھا۔آپ کی آمد پر بھی ایسی کوئی ندا آسمان سے نہ سنی گئی۔ مشرکین مکہ مطالبہ کرتے ہی رہے کہ آپ کے ساتھ کوئی فرشتہ ہونا چاہئے جو ہمیں خبر دار کرے کہ آپ خدا کے نبی ہیں یا اور کوئی صریح بات ایسی ہونی چاہئے جس سے یقینی اور غیر مشتبہ طور پر ہمیں آپ کا نبی ہونا معلوم ہو جائے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سارے مطالبوں کو رو فرما دیا اور انہیں قبول نہ کرنے کی یہ وجہ بھی متعدد مقامات پر قرآن میں ظاہر کردی کہ حقیقت کو بالکل بے نقاب کردینا جس سے عقلی آزمائش وامتحان کا کوئی موقع باقی نہ رہے، حکمت خداوندی کے خلاف ہے۔ اب یہ کیسے باور کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی اس سنت کو صرف امام مہدی کے معاملے ہی میں بدل دے گا اور ان کی بیعت کے وقت آسمان سے منادی کرائے گا کہ لوگو! یہ ہمارا خلیفہ مہدی ہے اس کی سنو اور اطاعت کرو!‘‘

(ترجمان القرآن۔ رجب ۶۵ھ۔ جون۴۶ء)