بہانہ جوئی کے لیے روایات کے سہارے

سوال: میں نے اپنے بعض اعزہ اور بزرگوں کی خدمت میں فریضہ اقامت دین کی اہمیت واضح کرنے کی کوشش شروع کر رکھی ہے۔ اس سلسلہ میں میرا تبادلہ خیال ایک ایسے رشتہ دار سے ہوا جو اصطلاحی علم بھی رکھتے ہیں۔ اقامت دین کے فرض کی اہمیت کے بھی منکر نہیں۔ مگر ادائے فرض کے لیے آمادہ ہوجانے کے بجائے جہلا کے سے عذرات پیش کرتے ہیں۔ ان کے پیش نظر یہ حدیث ہے کہ:

اذ ارایت شحاً مطاعاً وھویً متبعاً واعجاب کل ذی رأی برایہٖ فعلیک بخویصہ نفسک۔

اس سے استدلال کرکے وہ اپنے آپ کو ادائے فرض سے بری کرتے ہیں اور اس کو اتنی وسیع اور وزنی دلیل سمجھتے ہیں کہ اس کے مقابلہ میں ان کے نزدیک پورے قرآن اور سارے ذخیرہ حدیث کی حجت بھی غیر اہم ہے مثلاً میں نے حدیث شریف’’من رأیٰ منکم منکراً فلیغیرہ۔۔۔۔ الخ‘‘اور ’’لتاخذن ید المسئ‘‘ (الحدیث) اور ’’من احیا سنتی‘‘ (الحدیث) اور اسی طرح آیت ’’کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ۔۔۔الخ‘‘ اور ’’وَ لْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ۔۔۔ الخ‘‘ اور بالخصوص ’’ وَ اتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ۔۔۔ الخ ‘‘ سب ہی کو ان کے اطمینان کے لیے پیش کردیا اور یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ اس حدیث کا محمل یہ نہیں ہے کہ آپ فریضہ اقامت دین سے سبکدوش ہوگئے! امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تمام تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ’’شح مطاع‘‘ اور ’’ہوائے متبعِ‘‘ ان سب کے زمانوں میں برسر عمل تھی مگر انہوں نے مایوسی کو گناہ سمجھا اور سعی کی، تو کیا العیاذ باللہ وہ غلطی کے مرتکب تھے؟ اب میں آپ سے اس حدیث کی حقیقت معلوم کرنا چاہتا ہوں۔

جواب: یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ کسی پوری قوم میں یا ساری کی ساری دنیا میں’’شح مطاع‘‘ اور ’’ہوائے متبع‘‘ کے سوا اب کچھ نہیں رہا، تجربے کی ضرورت ہے نہ کہ اپنی جگہ سمجھ بیٹھنے کی۔ اگر کوئی شخص حق کی صرف لوگوں کو دعوت دے اور تبلیغ کا جو حق ہی وہ ادا کردے اور پھر تجربے سے ثابت ہو کہ کوئی بھی اپنی ہوائے نفس کی پیروی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے اور سب کے سب باطل پرستی پر مصر ہیں، تب اس حدیث کے منشا کے مطابق آدمی کے لیے یہ درست ہوسکتا ہے کہ وہ لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑے اور صرف اپنی نجات سے غرض رکھے۔ لیکن عملاً کوشش کیے بغیر پہلے ہی سے یہ سمجھ لینا کہ دعوت اور تبلیغ اور تذکیر سے کچھ حاصل نہیں ہے، محض ادائے فرض سے جی چرانے کا ایک بہانہ ہے۔ نبی کریمﷺ پر اس کی ذمہ داری ڈالنا بڑی جسارت اور سخت زیادتی ہے۔ آج اگر ہم اس حدیث کو حجت بنا کر اپنا وہ فرض ادا کرنے کی کوشش کریں جو مومن ہونے کی حیثیت سے ہم پر عائد ہوتا ہے تو دنیا میں ہم اپنے نفس کو مطمئن کرسکتے ہیں، لیکن قیامت کے روز اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کی باز پرس کے جواب میں یہ حدیث معذرت کے طور پر پیش کی اور نبی کریمﷺ نے اسی وقت ہمارے منہ پر اس کی تردید کردی کہ میرا مدعا یہ نہ تھا اور ان لوگوں نے میری حدیث سے غلط معنی نکال کر محض حیلہ بازی کی تھی تو بتائے کہ ہمارے پاس جوابدہی کے لیے کیا باقی رہ جائے گا؟

دراصل اس حدیث کا یہ منشا ہے ہی نہیں کہ بحیثیت مجموعی کسی پوری آبادی کے متعلق یہ قیاس کر لیا جائے کہ اس میں شح مطاع اور ہوائے متبع کے سوا کچھ نہیں ہے لہٰذانصیحت اور تذکیر سے کچھ حاصل نہیں، بلکہ اس کا منشا یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یا کوئی گروہ ایسا ہو جس کے سامنے دعوت حق کو ٹھیک ٹھیک طریقے سے پیش کیا جائے اور پھر اس کے رویے سے یہ معلوم ہو کہ وہ اپنی ہوائے نفس کا بندہ بنا ہوا ہے تب اس کے اوپر تذکیر میں وقت ضائع نہ کیا جائے۔یہ وہی بات ہے جو قرآن مجید میں جگہ جگہ آئی ہے کہ’’ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰہِلِیْنَ‘‘ اور ’’فَذَکِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّکْرٰی‘‘ ۔

سوال: ایک صاحب جو علم دین سے بخوبی واقف ہیں، خطبہ جمعہ میں پیغمبر خداﷺ کی اس حدیث پر کہ ’’میرے بعد ۳۰ سال خلافت ہوگی، بعد میں شاہی دور شروع ہوگا اور آخر میں امام مہدی صاحب جن کا حسب نسب یہ ہوگا تشریف لائیں گے اور خلافت قائم کریں گے۔‘‘ یوں حاشیہ آرائی کی کہ جو لوگ ظہور امام مہدی سے پہلے خلافت کے لیے جدوجہد کرتے ہیں وہ محض ڈھونگ رچاتے اور دکانداری چلاتے ہیں۔ اس حاشیہ آرائی کے متعلق رائے گرامی کیا ہے؟

جواب:اس طرح کے استدلال جو لوگ حدیث سے کرتے ہیں وہ معلوم ہوتا ہے کہ علم سے بے بہرہ ہیں اور خدا کا خوف بھی ان کے دلوں میں نہیں رہا ہے۔ نبی کریمﷺ کی پیشنگوئیوں سے اگر اسی طرح استدلال کیا جانے لگے تو انسان گمراہی کی آخری حد تک پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مثال کے طور پر ایک حدیث میں حضور اکرمﷺ نے پیشنگوئی فرمائی کہ مسلمان آخرکار یہودو نصاریٰ کے نقش قدم پر چل پڑیں گے اور جہاں جہاں انہوں نے قدم رکھا ہے یہ بھی قدم رکھیں گے، حتیٰ کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے زنا کیا ہو تو مسلمانوں میں بھی کوئی شخص اٹھے گاجو اس فعل کا ارتکاب کرے گا۔ اب اگر اس پیشنگوئی سے استدلال کرکے کوئی شخص یہودو نصاریٰ کی پیروی شروع کردے اور کہے کہ حضور اکرمﷺ خود یہ فرماگئے ہیں، لہٰذا آپ کا یہ قول تو بہر حال ہم پر صادق آنا ہی ہے تو ایسے شخص کے جاہل اور خوف خدا سے عاری اور گمراہ ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے؟ حضور اکرمﷺ نے آنے والے بدتر حالات کی جتنی خبریں بھی دی ہیں ان سے آپ ﷺ کا مدعا یہ نہ تھا کہ لوگ ان حالات پر قانع ہو کر اصلاح کی کوشش چھوڑ دیں، بلکہ اصل مدعا یہ تھا کہ لوگ پہلے سے متنبہ رہیں اور اصلاح کی فکر کریں۔

سوال: آپ فرقہ پرستی کے مخالف ہیں مگر اس کی ابتداء تو ایک حدیث سے ہوتی ہے کہ ’’عنقریب میری امت۷۲ فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے صرف ایک ناجی ہوگا، جو میری اور میرے اصحاب کی پیروی کریگا۔‘‘ (بلکہ شیعہ حضرات تو ’’اصحاب‘‘ کی جگہ’’اہل بیت‘‘ کو لیتے ہیں) اب غور فرمائے کہ جتنے فرقے موجود ہیں، سب اپنے آپ کو ناجی سمجھتے ہیں اور دوسروں کو گمراہ۔ پھر ان کو ایک پلیٹ فارم پر کیسے جمع کیا جاسکتا ہے؟جب ایسا ممکن نہیں تو ظاہر ہے کہ یہ حدیث حاکمیت غیر اللہ کے بقا کی گارنٹی ہے۔ بہت سے لوگ اسی وجہ سے فرقہ بندی کو مٹانے کے خلاف ہیں کہ اس سے حدیث نبوی کا ابطال ہوتا ہے۔

جواب: جس قسم کا سوال آپ نے کیا ہے اس پر اگر آپ خود اپنی جگہ غور کرلیتے تو آپ کو آسانی سے اس کا جواب مل سکتا تھا۔احادیث میں مسلمانوں کے اندر بہت سے فتنے پیدا ہونے کی خبر دی گئی ہے جس سے مقصود اہل ایمان کو فتنوں پر متنبہ کرنا اور ان سے بچنے کے لیے تاکید کرنا تھا، لیکن وہ شخص کس قدر گمراہ ہوگا جو صرف اس لیے فتنہ برپا کرنا یا فتنوں میں مبتلا رہنا ضروری سمجھے کہ احادیث میں جو خبر دی گئی ہے اس کا مصداق بننا ضروری ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے قرآن میں کہا گیا ہے کہ بہت سے انسان جہنمی ہیں۔ تو کیا اب کچھ لوگ جان بوجھ کر اپنے آپ کو جہنم کا مستحق بنائیں تاکہ یہ خبر ان کے حق میں سچی نکلے؟

(ترجمان القرآن۔ ربیع الثانی۶۵ھ؍ مارچ۴۶ء)