قرآن وحدیث اور سائنٹیفک حقائق

سوال: قرآن وحدیث میں بہت سے ایسے امور بیان ہوئے ہیں جنہیں زمانہ حال کی تحقیقات غلط قرار دیتی ہیں۔اس صورت میں قرآن وحدیث کو مانیں یا علمی تحقیق کو؟مثلاً

الف۔قرآن کہتا ہے کہ نوع انسانی آدمؑ سے پیدا ہوئی، بخلاف اس کے علمائے دور حاضر کا دعویٰ یہ ہے کہ انسان حیوانات ہی کےکنبے سے تعلق رکھتا ہے اور بندروں اور بن مانسوں سے ترقی کرتے کرتے آدمی بنا ہے۔

ب۔ قرآن کا دعویٰ یہ ہے کہ آفتاب حرکت کرتا ہے مگر سائنس کہتی ہے کہ نہیں، آفتاب ساکن ہے۔

ج۔اسی طرح بادلوں میں جو کڑک اور چمک ہوتی ہے، اس کے متعلق اسلام کی رائے یہ ہے کہ یہ بادلوں کو ہنکاتے ہوئے فرشتوں کے کوڑے چمکتے اور آواز نکالتے ہیں، حالانکہ زمانہ حال کی تحقیق یہ کہتی ہے کہ رعد اور برق کا ظہور بادلوں کے ٹکرانے سے ہوتا ہے۔

د۔’’کانا دجال‘‘ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کہیں مقید ہے تو آخر وہ کونسی جگہ ہے۔ آج تو دنیا کا کونہ کونہ انسان نے چھان مارا ہے۔ پھر کیوں کانے دجال کا پتہ نہیں چلتا؟

جواب: مجھے تو اپنی پچیس سالہ علمی تحقیق و تفتیش کے دوران میں آج تک ایک مثال بھی ایسی نہیں ملی ہے کہ سائنٹیفک طریقہ سے انسان نے کوئی حقیقت ایسی دریافت کی ہو جو قرآن کے خلاف ہو۔ البتہ سائنس دانوں یا فلسفیوں نے قیاس سے جو نظریے قائم کیے ہیں ان میں سے متعدد ایسے ہیں جو قرآن کے بیانات سے ٹکراتے ہیں۔ لیکن قیاسی نظریات کی تاریخ خود اس بات پر شاہد ہے کہ ایک وقت جن نظریات کو حقیقت سمجھ کران پر ایمان لایا گیا دوسرے وقت وہی نظریات ٹوٹ گئے اور آدمی ان کے بجائے کسی دوسری چیزکو حقیقت سمجھنے لگا۔ ایسی ناپائیدار چیزوں کو ہم یہ مرتبہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ قرآن کے بیانات سے ان کی پہلی ٹکر ہوتے ہی قرآن کو چھوڑ کر ان پر ایمان لے آئیں۔ ہماراایمان اگر متزلزل ہو سکتا ہے تو صرف اس صورت میں جب کہ کسی ثابت شدہ حقیقت سے، یعنی ایسی چیز سے جو تجربہ و مشاہدہ سے ثابت ہوسکتی ہو، قرآن کا کوئی بیان غلط قرار پائے۔ مگر جیسا کہ اوپر لکھ چکا ہوں، ایسی کوئی چیز آج تک میرے علم میں نہیں آئی ہے۔

اب فرداً فرداً ان چیزوں کے متعلق کچھ عرض کردوں جنہیں آپ نے مثال میں پیش کیا ہے:

الف۔ ڈارون کا نظریہ ارتقاء اس وقت تک محض نظریہ ہے، ثابت شدہ حقیقت نہیں علی گڑھ، جہاں سے آپ یہ خط لکھ رہے ہیں۔ ایک علمی مرکز ہے۔ وہاں اس نظریہ پر ایمان لانے والوں کی اچھی خاصی تعداد آپ کو ملے گی۔ آپ خود انہی سے پوچھ لیجئے کہ یہ نظریہ ہے(Theory)یا واقعہ(Fact)؟ اگر ان میں سے کوئی صاحب اسے واقعہ قرار دیں تو ذرا ان کا اسم گرامی مجھے بھی لکھ بھیجئے۔

ب۔ علی گڑھ میں فلکیات(Astronomy)جاننے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ ذرا ان لوگوں سے پوچھیےکہ کیا واقعی آفتاب ساکن ہے؟ اگر ایسے کوئی صاحب مل سکیں تو ان کے نام نامی سے بھی علمی دنیا کو ضرور مطلع کرنا چاہئے۔ غالباًآپ ابھی تک انیسویں صدی کی سائنس کو سائنس سمجھ رہے ہیں جبکہ آفتاب متحرک نہ تھا۔ موجودہ سائنس کا آفتاب تو اچھی خاصی تیزی کے ساتھ حرکت کر رہا ہے۔

ج۔ قرآن مجید کی کوئی آیت میرے علم میں ایسی نہیں ہے جس میں کہا گیا ہو کہ بادلوں میں چمک اور کڑک بجلی کے بجائے فرشتوں کے کوڑے برسانے سے ہوتی ہے۔ اس کے برعکس قرآن مجید میں بارش کا جو عمل(Process) بیان کیا گیا ہے وہ بالکل ٹھیک ٹھیک موجودہ زمانہ کی سائنٹیفک تحقیقات کے مطابق ہے اور اتنا جدید(Up to Date) ہے کہ پچھلی صدی کے وسط تک جو معلومات انسان کے پاس بارش کے متعلق تھیں ان کی بنا پر بعض لوگوں کو ان آیات کی تفسیر میں سخت پریشانی آتی تھی جن میں بارش کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔

د۔ یہ ’’کانا دجال‘‘ وغیرہ تو افسانے ہیں جن کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ ان چیزوں کو تلاش کرنے کی ہمیں کوئی ضرورت بھی نہیں۔ عوام میں اس قسم کی جو باتیں مشہور ہوں۔ ان کی کوئی ذمہ داری اسلام پر نہیں ہے اور ان میں سے کوئی چیز اگر غلط ثابت ہوجائے تو اس سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔

(ترجمان القرآن۔ رمضان، شوال۶۴ھ؍ ستمبر، اکتوبر۴۵ء)