مخالفتیں اور مزاحمتیں

سوال: میں اپنے حالات مختصراً پیش کرتا ہوں مجھے بتلائے کہ کونسا طریق کار اختیار کروں کہ میرے اسلام میں فرق نہ آئے۔

(۱) ۔والدین اٹھتے بیٹھتے اصرار کرتے ہیں کہ ملازمت پر واپس چلا جاؤں۔ بحالت موجودہ وہ نہ صرف اپنا بلکہ خدا کا نافرمان بھی گردانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف ایسے وقت پر والدین کی نافرمانی جائز ہے جب وہ یہ کہیں کہ خدا کو نہ مانو۔ باقی تمام امور میں والدین کا حکم شرعی طور پر واجب التعمیل ہے۔ عنقریب وہ اعلان کرنے والے ہیں کہ نوکری پر چلا جاؤں تو بہتر ہے ورنہ میرا ان سے کوئی تعلق نہ رہ سکے گا۔ بس وہ اتنی رعایت مجھے دیتے ہیں کہ اگر میں مستقل طور پر ملازمت اختیار کرنا نہیں چاہتا تو کم ازکم سال ڈیڑھ سال اور اختیار کیے رکھوں، حتٰی کہ میرے چھوٹے بھائی بی اے کرلیں اور میری خالی جگہ کو پر کرسکیں۔ اس سلسلہ میں گناہ وہ اپنے سر لیتے ہیں۔

(۲)۔ ادھر عوام میں میری بے اثری بڑھ رہی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جس ذوق و شوق سے دوران ملازمت میں میری بات سنا کرتے تھے یا حمایت کا دم بھرا کرتے تھے اب وہ ختم ہو رہا ہے۔ بلکہ میری باتوں کا ان پر الٹا اثر ہوتا ہے۔

(۳)۔ بڑے بھائی بتلاتے ہیں کہ اگر نوکری حرام ہے تو زمینداری کونسی حلال ہے۔ ہماری زمین سرکار (ایک ریاست) نے ہمارے آباؤ اجداد کو بخشش کے طور پر دی تھی۔ وہ تو تمہارے نظریہ کی رو سے حلال آمدنی قطعاً نہیں دے سکتی۔ علاوہ بریں اسلام میں زمیندارہ سسٹم سرے سے ناجائز ہے۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے دادا نے اپنی جائیداد بروئے شریعت تقسیم نہیں کی تھی۔ ان کی وراثت صرف نرینہ اولاد میں چلی ہے اور مستورات کو محروم رکھا گیا ہے۔ پھر نوکری کو حرام کہنے کے بعد ایسی جائیداد پر کوئی شخص کیسے بسر اوقات کر سکتا ہے؟

(۴) ۔مسلمانوں کی اکثریت جہالت اور شرک میں مبتلا ہے۔ قبروں پر حاجات لے کر جانے اور نہ جانے کا سوال بہت اہمیت اختیار کیے ہوئے ہے۔ اس سلسلہ میں اگر مصلحتاً سکوت کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حق کو قبول کرنے کے ساتھ لوگ شرک کرنے کی گنجائش کو بھی بحال رکھیں یوں بھی مصلحت اندیشی تابکے ، آخر بھانڈا پھوٹتا ہے اور لوگوں کو معلوم ہوا۔ کر رہتا ہے کہ ہم قبروں پر جاکر حاجات طلب کرنے کے خلاف ہیں۔جہاں یہ بات کھلی بس فوراً ہی آدمی کو وہابی کا سرٹیفکیٹ ملا اور کسی کو وہابی قرار دینے کے بعد لوگ اس کی بات سننے پر آمادہ ہی نہیں ہوتے بلکہ اس سے بدکنے لگتے ہیں کہ کہیں یہ بلوریں عقائد کے اس محل پر پتھر نہ پھینک مارے جس کی تعمیر میں ان کے آباؤ اجداد نے پسینے بہائے ہیں اور جس کی حفاظت میں عمریں گزار دی گئی ہیں۔ میں بھی اسی خدشہ کا ہدف بن رہا ہوں۔

جواب:آپ کا عنایت نامہ ملا۔ آپ اب اسی مرحلہ پر پہنچ گئے ہیں جس سے میں نے آپ کو یہاں پہلے ہی آگاہ کردیا تھا۔ میں اس معاملہ میں آپ سے یہ نہیں کہوں گا کہ آپ کیا رویہ اختیار کریں۔ اس کا فیصلہ آپ کو بالکل اپنے قلب و ضمیر کی آواز پر کرنا چاہئے اور اپنی ہمت کا جائزہ لے لینا چاہئے۔ بہرحال جو فیصلہ بھی آپ کریں ٹھنڈے دل سے کریں اور خدا سے دعا مانگتے رہیں کہ آپ کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس کے بعد پسپائی کی نوبت آئے۔ پسپا ہونے سے اقدام نہ کرنا زیادہ بہتر ہے۔

فیصلے کو آپ کے اپنے ضمیر پرچھوڑنے کے بعد میں صرف ان دلائل کا جواب دیے دیتا ہوں جو آپ کے مقابلہ میں پیش کیے جاتے ہیں۔

(۱) ۔عذاب و ثواب کوئی کسی کا نہیں اٹھا سکتا۔ ہر شخص اپنے عذاب و ثواب کا خود حامل ہے۔ میرے کہنے سے اگر آپ کوئی گناہ کریں تو میں کہنے کا گناہگار ہوں گا اور آپ کرنے کے گناہگار ہوں گے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کےکرنے کا گناہ بھی کہنے والے کی طرف منتقل ہوجائے۔ اور آپ اس وجہ سے چھوڑ دیے جائیں کہ آپ نے دوسرے کے کہنے پر گناہ کیا تھا۔

(۲)۔ والدین کی فرمانبرداری صرف اسی حد تک ہے جس حد تک ان کی فرمانبرداری سے خالق کی نافرمانی لازم نہ آتی ہو۔ اگر وہ کسی معصیت کا حکم دیں تو ان کی اطاعت کرنا صرف یہی نہیں کہ فرض نہیں ہے بلکہ الٹا گناہ ہے۔

(۳)۔جس فعل کو آپ خود معصیت سمجھتے ہیں اسے ڈیڑھ یا دو سال تک صرف اس لیے کرتے رہنا کہ خاندان کا ایک اور فرد آپ کے بجائے اس معصیت کے لیے تیار ہوجائے،بالکل ایک غلط فعل ہے۔ اگر آپ اپنے عقیدہ میں صادق ہیں تو آپ کی یہ دلی خواہش ہونی چاہئے کہ نہ صرف آپ خود اس سے بچیں بلکہ خدا کا ہر بندہ اس سے محفوظ رہے۔

(۴)۔ یہ کہنا غلط ہے کہ اسلام میں زمینداری سرے سے ناجائز ہے۔ البتہ ہندوستان میں زمینداری کی بعض شکلیں ایسی ضرور رائج ہیں جو جائز نہیں ہیں۔ اگر شرعی طریقہ پر آپ زمینداری کریں اور ناجائز فائدے اٹھانے سے بچیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

(۵)۔ جو جائیداد کسی شخص کو آباؤ اجداد سے ملی ہو اس کی سابق تاریخ دیکھنے کا شریعت نے اسے مکلف نہیں کیا۔ اس معاملے میں قرآن کا قانون گزشتہ پر گرفت نہیں کرتا بلکہ حال اور مستقبل کی اصلاح ہی پر اکتفا کرتا ہے۔ اس کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ جب وہ جائیداد اس کی ملکیت میں آئے ،اس وقت سے وہ اس میں شرعی طریقےپر تصرف کرے اور سابق میں جن لوگوں نے اس کو غلط طریقے سے حاصل کیا تھا اور اس میں غلط تصرفات کیے تھے ان کے معاملہ کو خدا پر چھوڑدے۔ البتہ اگر کوئی چیز آپ کے قبضہ میں ایسی ہو جس کے بارے میں آپ کو متعین طور پر معلوم ہو کہ اس میں فلاں فلاں لوگوں کے غصب شدہ حقوق شامل ہیں اور وہ لوگ بھی موجود ہوں، نیز ان کا حصہ بھی متعین طور پر معلوم ہو تو اپنی حد تک ان کے حقوق واپس دیجئے۔

(۶)۔ ملازمت کے زمانہ میں آپ کے ذاتی اور خاندانی اثر کی بدولت جو لوگ آپ کا اثر قبول کر رہے تھے وہ حقیقت میں دین کی دعوت سے متاثر نہیں ہو رہے تھے۔ بلکہ وہ جاہ و مال کے بت کی پوجا کر رہے تھے۔ اور آئندہ بھی اگر آپ اس پوزیشن پر رہیں تو یہ دھوکہ نہ کھائیے گا کہ لوگوں کو آپ خدا پرست بنا رہے ہیں۔ سچے خدا پرست تو وہی لوگ ہوں گے جو آپ کی دنیوی پوزیشن کو دیکھ کر نہیں بلکہ آپ کی دعوت کی سچائی اور آپ کے تقویٰ کو دیکھ کر متاثر ہوں گے۔ میرے نزدیک تو آپ صحیح معنوں میں دعوت حق کےداعی اسی وقت بنیں گے جب تمام اعزازات آپ سے چھن جائیں، زمین آپ کو جگہ دینے سے انکار کر دے اور وہ سب جو کل تک آپ کے سامنے جھکے پڑتے تھے، آپ کو رد کرنے اور آپ سے منہ پھیرنے پر اتر آئیں۔ یہ صورت حال ہے تو بہت خطرناک لیکن اس راہ میں یہی کچھ مفید ہے۔ اگر خدا نے آپ کو اتنی طاقت دی کہ آپ اسے برداشت کرنے کے قابل ہوجائیں تو اس کا حقیقی فائدہ آ پ کو آگے چل کر معلوم ہوگا اور اسی وقت آپ کو اللہ تعالیٰ جھوٹے رفیقوں کی رفاقت سے بچا کر سچے رفیق بہم پہنچائے گا۔

(۷)۔ عوام کے عقائد پر خواہ مخواہ باوّــل وہلہ ضرب لگانے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ لیکن اپنے عقائد پر پردہ ڈالنے کی بھی ضرورت نہیں۔ ’’وہابیت‘‘ کے الزام سے بچنے کا اہتمام نہ کیجئے۔ لوگوں نے در حقیقت مسلمان کے لیے یہ دوسرا نام تجویز کیا ہے۔ وہ گالی مسلمان کو دینا چاہتے ہیں لیکن مسلمان کہہ کر گالی دیں تو اپنا اسلام خطرہ میں پڑتا ہے اس لیے وہابی کہہ کر گالی دیتے ہیں۔ اس حقیقت کو جب آپ سمجھ جائیں گے تو پھر وہابی کے خطاب سے آپ کو کوئی رنج نہ ہوگا۔ جو عقائد اور جو اعمال مشرکانہ ہیں ان سے بہرحال پرہیز کیجئے اور توحید کو اس کے اصلی تقاضوں کے ساتھ بے تکلف بیان کیجئے۔ شرک اور مشرکانہ باتوں سے پرہیز اور توحید اور مقضیاتِ توحید کی پابندی اگر وہابیت ہے تو خدا اپنے ہر بندے کو وہابی ہونے کی توفیق فرمائے اور غیر وہابی ہونے سے بچائے۔

سوال: صوبجاتی اجتما ع سے واپس آنے پر میں یکایک ان پریشانیوں میں مبتلا ہوگیا ہوں جو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھیں۔ آپ کی شدید مصروفیات کا علم رکھنے کے باوجود ان احوال کا تفصیلی تذکرہ آپ ہی کے اس ارشاد کی بنا پر کر رہا ہوں کہ اس نوعیت کے امور سے آپ کو پوری طرح مطلع رکھنا ضروری ہے۔ خیر تو۱۹ اکتوبر کو والد مکرم کا جو گرامی نامہ موصول ہوا ہے وہ لفظ بلفظ درج ذیل ہے۔

’’برخو دار نور چشم…… بعد دعائے ترقی درجات کے واضح ہو کہ اب تو خود مختار ہوگئے ہو، ہماری سرپرستی کی ضرورت نہیں، کیونکہ ہم مکان پر بیمار پڑے ہیں اور تم کو جلسوں کی شرکت لازم اور ضروری۔ اب اللہ کے فضل سے نوکر ہوگئے ہو۔ ہم نے اپنی تمام کوششوں سے تعلیم میں کامیاب کرایا اور اس کا نتیجہ پالیا۔ عالم باعمل ہوگئے۔کہ باپ کا حکم ماننا ظلم اور حکم خدا کے خلاف قرار پایا۔ اوروں کا حکم ماں باپ سے زیادہ افضل! خیر تمہاری کمائی سے ہم نے اپنی ضعیفی میں بڑا آرام پالیا۔ آئندہ ایک پیسہ بھی ہم نہیں لینا چاہتے۔ جو تمہارا جی چاہے کرو اور جہاں چاہو رہو، خواہ سسرال میں یا کسی اور جگہ۔ البتہ ہم اپنی صورت اس وقت تک نہیں دکھلانا چاہتے جب تک جماعت سے استعفیٰ نہ دے دو۔ تم نے برابر اس مراق میں (یعنی تحریک اسلامی کی خدمت میں) سب تعلیم کا کام خراب کردیا۔ مگر ہمارا نصیحت کرنا بیکار ہے۔ بس یہ واضح رہے کہ ہمارے سامنے نہ آنا۔ ہمارا غصہ بہت خراب ہے۔ فقط۔‘‘

والد مکرم کے اس خط کا جواب راقم الحروف نے یہ لکھ دیا۔

’’محترمی! کل آپ کا گرامی نامہ بدست…… موصول ہوا۔ اسے دیکھ کر اور آپ کی بیماری کا حال معلوم کرکے بڑا افسوس ہوا۔ یقین جانئے مجھے خبر تک نہ تھی کہ آپ بیمار ہیں۔ نہ آپ نے کوئی خط لکھا نہ مجھے کسی اور ذریعہ سے حال معلوم ہوورنہ میں یقیناً وہاں نہ جاتا۔ یہ ایک عذر شرعی تھا جس کی بنا پر سفر ملتوی کیا جاسکتا تھا۔

والدین کے احسانات اور ان کی مہربانیوں کا کون انکار کر سکتا ہے۔ پھر آپ نے تو اعلیٰ تربیت کی اور دینی تعلیم سے آراستہ کیا۔ اسی تعلیم سے مجھے یہ یقین حاصل ہوا کہ دین کو دنیا میں غالب کرنا، خدا کے کلمہ کو بلند کرنا، دنیا میں اسلام کا سکہ چلانا اور اس کے لیے کوشش کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ میں نے گردوپیش کی دنیا پر نظر ڈالی۔ مجھے ایک ہی جماعت اس مقصد کے لیے صحیح طریقے اور اصلی، بہترین ڈھنگ سے کام کرتی ہوئی نظر آئی اور وہ جماعت ’’جماعت اسلامی‘‘ ہے۔ اس لیے اگر مجھے دین کی دنیا میں غالب کرنے کے لیے کوشش کرنی ہے تو اس سے منسلک رہنا ضروری ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ دین کے غلبہ کی کوشش اگر مسلمان کی زندگی کا مقصد نہیں تو پھر اور کیا مقصد ہے!

والدین کا حکم ماننا ضروری! ان کی اطاعت فرض! لیکن کہاں تک، جب تک خداور رسول کے حکم کے خلاف نہ ہو۔ اگر دین کو غالب کرنا ضروری ہے تو وہ کیا یونہی آرام سے بیٹھے ہوئے، بے انتھک کوشش کیے ہوئے ہوسکتا ہے؟ کیا یہ کوئی بہت سہل کام ہے؟ کیا دین کے لیے اتنی قوت اور اتنا وقت بھی صرف نہیں کرنا چاہئے جتنا ہم اپنے پیٹ کے لیے کرتے ہیں؟ کیا یہ کام تنہا ایک آدمی کے کرنے کا ہے؟ بہرحال دین کے لیے جس جماعت میں بھی رہ کر کام کیا جائے گا اس میں وقت بھی صرف ہوگا، مال بھی خرچ کرنا ہوگا، تکلیف بھی ہوگی، کچھ دنیاوی کاموں کا حرج بھی ہوگا، اور کسی نہ کسی قوت سے تصادم کا ڈر بھی ہوگا اور آپ پھر منع فرمائیں گے۔ پھر للہ! آپ ہی بتائے کہ اس کام کی ا ور کیا صورت ہوسکتی ہے؟ آپ کی سرپرستی سے محروم ہوجانا میری انتہا ئی بدنصیبی ہے۔ لیکن یہ تو خیال فرمائے کہ آپ کس چیز سے مجھے منع فرما رہے ہیں، ذرا غور تو کیجئے، کہیں یہ حکم خدا کے خلاف تو نہیں ہے۔

قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُنِ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖط وَ اللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ(۲۴سورہ التوبہ)

ترجمہ: اے نبیﷺ! فرمادیجئے کہ اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارے خاندان، تمہارے وہ اموال جو تم نے محنت سے کمائے ہیں اور تمہاری وہ سوداگری جس میں گھاٹا پڑجانے سے تم ڈرتے ہو اور تمہاری مرغوب آرام گاہیں تمہیں اللہ، اس کے رسول اور اس کی راہ میں سرتوڑ کوشش کرنے کے مقابلے میں محبوب تر ہوں تو انتظار کرو اس گھڑی کا کہ اللہ کا فیصلہ صادر ہوجائے اور یاد رکھو کہ اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں بخشتا۔

میں سخت حیرت اور انتہائی افسوس کے ساتھ دیکھ رہا ہوں کہ دین کے غلبہ کے لیے جو کوشش میں کر رہا ہوں اس پر آپ ناراض ہیں۔ آخر آپ ہی فرمائے کہ اس صورت میں میرا فرض کیا ہے؟ مندرجہ بالا آیت کو ملحوظ رکھ کر سوچئے۔

حاضر ہونے کو جی چاہتا ہے مگر آپ کے عتاب سے خائف ہوں دیکھئے آپ کیا اجازت فرماتے ہیں۔‘‘

یہ جواب اس پس منظر کی بنا پر لکھا گیا تھاکہ والد صاحب وقت کی اضاعت، صرف مال اور خوف قوت متسلّطہ کی بنا پرجماعت میں کام کرنے سے منع کرتے ہیں نیز یہ کہ ان کے اشارے پر…… سے ایک بہت مدلل قسم کا طویل و عریض خط آیا تھا جس کا ماحصل یہ تھا کہ بہرحال حق و اسلام جماعت اسلامی میں منحصر نہیں؟، تنہا کام کیجئے یا کسی اور جماعت میں رہ کر۔

والد محترم کی طرف سے مجھے ابھی تک منقولہ بالا عریضہ کا جواب نہیں ملا ہے۔اندریں حالات مناسب ہدایات سے مستفید فرمائے۔

جواب: آپ نے والد کے عتاب پر جو جواب دیا ہے وہ بہت معقول ہے۔ مسلمان کی زندگی ایک نہایت متوازن زندگی کا نام ہے جس میں تمام حقوق و فرائض کا مناسب لحاظ ہونا چاہئے اور کسی حق یا فرض کی اضاعت نہ ہونی چاہئے، الاـیہ کہ ایک حق کو دوسرے حق پر اس حد تک قربان کیا جائے جس حد تک ایسا کرنا شرعاً ضروری ہو۔ والدین کا حق خدا کے حق کے بعد سب سے بڑا حق ہے۔ لیکن بہرحال خدا کے حقوق کے بعد ہی، اس پر مقدم کسی طرح نہیں ہے۔ پس یہاں خدا کا حق ادا کرنے کے لیے والدین کے حق میں کوئی کمی کرنا بالکل ناگزیر ہو تو وہاں موقع و محل کو ٹھیک ٹھیک ملحوظ رکھتے ہوئے صرف اس حد تک کمی کی جائے اور ساتھ ساتھ ان کے عتاب اور خشم کو نہایت تحمل اور تواضع کے ساتھ برداشت کیا جائے۔ ان کی سختی کے مقابلے میں اُف تک نہ کیجئے۔ مگر جس چیز کو آپ اپنی دینی بصیرت کے مطابق دین سمجھتے ہیں اس سے والدین کو خوش کرنے کے لیے بال برابر بھی نہ ہٹئے۔ اولاد پر والدین کی خدمت، اطاعت اور ادب فرض ہے لیکن ان کی خاطر ضمیر کی قربانی فرض نہیں ہے خصوصاً اس ضمیر کی جو دین کی روشنی سے منور ہو چکا ہے۔

اس معاملے میں آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسوہ حسنہ کی پیروی کرنی چاہئے۔ نبیﷺ کے زمانہ میں بھی متعدد صحابہ کرام کو یہ مشکل پیش آچکی ہے۔ اس وقت حضورﷺ کی رہنمائی میں صحابہ کرام نے اپنے والدین کے ساتھ جو راہ حق میں کسی نہ کسی طرح مزاحم ہو رہے تھے جو طرز اختیار کیا اس کو ملحوظ رکھیے۔

سوال: ہمارے ہاں کے ایک نوجوان رکن جماعت اپنے بڑے بھائی کی زیر سرپرستی تجارت کر رہے ہیں۔ لین دین میں احکام شریعت کی پابندی اور وقت پر نماز پڑھنے کے لیے چلے جانے کی بنا پر ان کے بڑے بھائی سخت برہم ہیں اور ان پر سختی کررہے ہیں،اب تک ان کے کئی خطوط میرے نام آچکے ہیں جن میں انہوں نے لکھا ہے کہ ’’تیری (یعنی راقم الحروف کی) وجہ سے میرا بھائی خراب ہوگیا ہے، اس پر دیوانگی طاری ہے۔ کاروبار میں اسے کوئی دلچسپی نہیں رہی، رات دن تیرا وظیفہ پڑھتا ہے، تو شیطان ہے، انسان کی شکل میں ابلیس ہے، ماں باپ اور اولاد میں بھائیوں میں جدائی ڈالتا ہے، میرے بھائی سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھ، اس کے نام نہ خط لکھ نہ سہ ماہی اجتماع میں شرکت کی دعوت دے بلکہ اس کو جماعت سے خارج کردے ورنہ……؟ اس سلسلہ میں مناسب ہدایت سے سرفراز کیجئے۔

جواب: جہاں خاندان کے لوگ جاہلیت میں مبتلا ہوں اور راہ راست پر چلنے میں اپنے بھائی بندوں کی مزاحمت کرتے ہوں وہاں تو فی الواقع جدائی ڈالنا ہی ہمارا کام ہے۔ ایسے اعزہ و اقربا اور دوستوں سے اہل ایمان کو ملانا نہیں بلکہ توڑنا اور کاٹنا ہی ہمارے پیش نظر ہے۔ لہٰذا جو الزام ہمارے رفیق کے بھائی نے آپ پر لگایا ہے اس کی تردید کی ضرورت نہیں بلکہ صاف صاف اعتراف کی ضرورت ہے اور بہت نرمی کے ساتھ ان کو اس بات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر وہ اس جدائی کو میل اور موافقت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو خدا پرستی اور دینداری میں مزاحم ہونے کے بجائے مددگار اور ساتھی بننے کی کوشش کریں ورنہ ہم اور ہمارا رفیق اپنے طرز عمل پر قائم رہیں گے اور آپ کو اختیار ہے کہ جو سلوک آپ کا نفس ہمارے ساتھ کرنا چاہتا ہے وہ کرے۔

البتہ یہ خیال رکھیے کہ آپ کی طرف سے کوئی بات ضد یا اشتعال دلانے والی نہ ہو، بلکہ صبر و تحمل کے ساتھ اس شخص کے نفس کی اصلاح کرنے کی کوشش کیجئے، جس کو جاہلیت کے غلبہ نے اس حد تک پہنچادیا ہے کہ وہ اس آیت کا مصداق بن گیا ہے:

اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یَنْہٰی(۹) عَبْدًا اِذَا صَلّٰی(۱۰) (سورۃ العلق)

درحقیقت یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے گروہ میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جن کو نماز کی پابندی گوارا تک نہیں ہے۔ خود پابندی کرنا تو درکنار دوسرا اگر ایسا کرتا ہے تو اس پر بھی بگڑتے ہیں۔ ایسے مسلمانوں کی حالت پر اگر کبھی ہم تلخ تنقید کرجاتے ہیں تو ہمیں خارجیت کا طعنہ دیا جاتا ہے۔

سوال: ’’میں بغرض تعلیم اسی سال…… چلاگیا تھا۔ ڈاڑھی رکھ کر گھر واپس آیا تو تمام دوست و احباب نے تنگ کرنا شروع کردیا۔ حتٰی کہ خود والد مکرم بھی بہ شدت مجبور کر رہے ہیں کہ ڈاڑھی صاف کرا دو کیونکہ اس کی وجہ سے تم بوڑھے معلوم ہوتے ہو۔ اگر اصرار سے کام لو گے تو ہم تم سے کوئی تعلق نہ رکھیں گے۔ گھر سے نکلنے پردوست بہت تنگ کرتے ہیں۔ اس لیے مجبوراً خانہ نشینی اختیار کرلی ہے۔ لیکن ستم تو یہ ہے کہ اب چند اصحاب کی طرف سے یہ پیغام ملا ہے کہ اگر آٹھ یوم میں ہمارا مطالبہ پورا نہ کیا گیا یعنی ڈاڑھی نہ منڈوائی تو تمام برادری سے متفقہ بائیکاٹ کرایا جائے گا۔ بڑی عمر میں بشوق رکھ لینا مگر اب رکھو گے تو زبردستی سے کام لیا جائے گا۔ میں ڈاڑھی کو پابندی احکام شریعت میں بہت ممد پاتا ہوں۔ مثلاً مجھے سینما بینی کا شوق تھا مگر اب ڈاڑھی رکھنے کے بعد سینما ہال میں جانے سے شرم معلوم ہوتی ہے۔ لیکن جب مخالفین کے دلائل سنتا ہوں تو کبھی کبھی یہ شبہ ہوتا ہے کہ شاید یہ لوگ ٹھیک کہتے ہیں۔ مگر پھر یہ جذبہ کام کرنے لگ جاتا ہے کہ چاہے پوری دنیا میری مخالفت پر اتر آئے۔ میرے رویے میں کوئی تبدیلی نہ ہوگی، للہ میری رہنمائی کیجئے تاکہ مجھے اطمینان نصیب ہو۔‘‘

جواب: جب آپ نے سنت رسول سمجھ کر یہ کام کیا ہے تو پھر کسی کے اعتراض و مخالفت کی پروا نہ کیجئے اور سب سے کہہ دیجئے کہ یہ ڈاڑھی رہنے کے لیے آئی ہے، جانے کے لیے نہیں، اس کے ہوتے اگر آپ میرے ساتھ تعلقات رکھ سکتے ہیں تو رکھیے اور آپ کے لیے سنت رسولﷺ اس قدر ناقابل برداشت ہے کہ اس کی وجہ سے مجھ سے تعلقات رکھنا ناگوار ہے تو بخوشی قطع تعلق کر لیجئے، میرے لیے خدا و رسولﷺ کافی ہیں۔

(ترجمان القرآن۔ رجب، شعبان ۶۴ھ۔ جولائی، اگست ۴۵ء)