جماعت اسلامی کے متعلق چند شبہات

سوال: جماعت اسلامی کی دعوت پر کچھ سنجیدہ اصحاب کی طرف سے حسب ذیل اعتراضات کئے گئے ہیں براہ کرم اپنے جوابات سے آگاہ فرمائیں۔

۱۔ جماعت اسلامی کی تحریک سے مسلمانوں میں ایک نیا فرقہ بن جائے گا۔ اس خطرے کا کیا سدباب کیا گیا ہے؟

۲۔ یہ تحریک محمد بن عبدالوہاب نجدی ہی کی تحریک ہے۔ جب آپ کے ساتھ اچھی خاصی جمعیت ہوجائے گی تو آپ کا رویہ بھی ابن عبدالوہاب کی طرح کا ہوگا۔

۳۔ آپ بزرگان دین کا احترام بھی نہیں کرتے۔ سلف کے جن حضرات نے بڑی بڑی خدمات انجام دی ہیں ان کی کارگزاریوں پر آپ قلم پھیر دینا چاہتے ہیں اور خود کو ان سے بہتر کام کرنے کا اہل پاتے ہیں۔

۴۔ آپ ارکان جماعت اسلامی کے سوا باقی سب مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں۔‘‘

جواب: ۱۔ میں اپنی حد تک انتہائی احتیاط کر رہا ہوں، اور میرے رفقاء بھی خدا کے فضل سے اس معاملے میں چوکنےہیں کہ ہماری یہ جماعت مسلمانوں میں ایک نیا فرقہ نہ بننے پائے۔ اگرچہ ہم سے اختلاف کرنے والوں میں ایک گروہ یہ دلی خواہش رکھتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح ہم سے اس نوعیت کو کوئی غلطی سرزد ہوجائے، تاکہ اصلاح کی بہت سی پچھلی کوششوں کی طرح ہماری اس کوشش کو بھی خاک میں ملایا جا سکے، لیکن الحمدللہ ہمارے اندر وہ بیماریاں موجود نہیں ہیں، جن کی بنا پر نئے فرقے بنا کرتے ہیں۔ ہم اس فتنہ سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔ جہاں تک ہمارے بس میں ہے ہم اس خطرے کا سدباب کر رہے ہیں۔ لیکن شیطان کی شرارتوں کا ایسا کامل سدباب کہ اسے کسی طرح گھس آنے کا موقع نہ ملے، انبیاء علیہم السلام بھی نہ کرسکے تو ہم کیا چیز ہیں کہ اس میں پوری طرح کامیاب ہونے کا دعویٰ کرسکیں۔بندے کا کام اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ اپنی حدـ امکان تک کوشش کرے اور آگے کے لئے اللہ سے دعا مانگے۔

۲۔ ہمارے لٹریچر اور کام کو دیکھنے کے بعد اگر کوئی شخص اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ یہ ابن عبدالوہاب نجدی کی تحریک ہے یا آگے چل کر وہی کچھ بن جائے گی تو وہ اپنی رائے کا مختار ہے۔ ہم کسی شحص کو رائے رکھنے کے اختیار سے محروم نہیں کرسکتے۔ اور ہمارے پاس اس قسم کی فضول بحثوں کے لئے وقت بھی نہیں ہے۔

۳۔ میں تمام بزرگان دین کا احترام کرتا ہوں، مگر پرستش ان میں سے کسی کی نہیں کرتا، اور انبیاءؑ کے سوا کسی کو معصوم بھی نہیں سمجھتا۔ میرا طریقہ یہ ہے کہ میں بزرگان سلف کے خیالات اور کاموں پر بے لاگ تحقیقی و تنقیدی نگاہ ڈالتا ہوں۔ جو کچھ ان میں حق پاتا ہوں اسے حق کہتا ہوں اور جس چیز کو کتاب و سنت کے لحاظ سے یا حکمت عملی کے اعتبار سے درست نہیں پاتا اس کو صاف صاف نادرست کہہ دیتا ہوں۔ میرے نزدیک کسی غیر نبی کی رائے یا تدبیر میں خطا پائے جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی عظمت بزرگی میں کوئی کمی آئی ہے۔ اس لئے میں سلف کی بعض رایوں سے اختلاف کرنے کے باوجود ان کی بزرگی کا بھی قائل رہتا ہوں اور میرے دل میں ان کا احترام بھی بدستور باقی رہتا ہے۔ لیکن جو لوگ بزرگی اور معصومیت کو ہم معنی سمجھتے ہیں اور جن کے نزدیک اصول یہ ہے کہ جو بزرگ ہے وہ خطا نہیں کرتا اور جو خطا کرتا ہے وہ بزرگ نہیں ہے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بزرگ کی رائے یا طریقہ کو نادرست قرار دینا لازمی طور پر یہ معنی رکھتا ہے کہ ایسا خیال خاطر کرنے والا ان کی بزرگی کا احترام نہیں کرتا اور ان کی خدمات پر قلم پھیرنا چاہتا ہے، پھر وہ اس مقام پر بھی نہیں رکتے، بلکہ آگے بڑھ کر اس پر یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ان سے بڑا سمجھتا ہے۔ حالانکہ علمی معاملات میں ایک شخص کا دوسرے کی رائے سے اختلاف کرنا اس بات کو مستلزم نہیں ہے کہ وہ جس سے اختلاف کر رہا ہو، اس کے مقابلے میں اپنے آپ کو بڑا بھی سمجھے اور اس سے بہتر بھی۔ امام محمدؒ اور امام ابویوسفؒ نے بکثرت معاملات میں امام ابو حنیفہؒ کی رائے سے اختلاف کیا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ اختلاف یہی معنی رکھتا ہے کہ وہ مختلف معاملات میں اپنی رائے کو صحیح اور امام صاحب کی رائے کو غلط سمجھتے تھے، لیکن کیا اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ یہ دونوں حضرات امام ابو حنیفہؒ کے مقابلہ میں اپنے آپ کو افضل سمجھتے تھے؟

۴۔ یہ الزام کہ ہم ارکان جماعت اسلامی کے سوا باقی سب مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں، اگر ہماری ان تمام تحریرات کو پڑھنے کے بعد بھی لگایا گیا ہے جو ہم نے اس الزام کی تردید میں بار بار لکھی ہیں تو اس کا کوئی جواب صبر کے سوا نہیں ہے۔ آخر سارے معاملات کا فیصلہ اسی دنیا میں تو نہیں ہوجانا ہے، کوئی عدالت آخرت میں بھی تو قائم ہوگی۔

(ترجمان القرآن۔ رجب ۶۵ھ۔ جون۴۶ء)