ہمہ گیر ریاست میں تحریک اسلامی کا طریق کار

سوال:یہ بات تو اب مزید استدلال کی محتاج نہیں رہی کہ ایک مسلمان کے لئے بشرطیکہ وہ اسلام کا صحیح شعور حاصل کرچکا ہو، صرف ایک ہی چیز مقصد زندگی قرار پاسکتی ہے، اور وہ ہے حکومت الہیہ کا قیام۔ ظاہر ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لئے صرف وہی طریق کار اختیار کیا جاسکتا ہے جو اس کی فطرت سے عقلاً مناسبت رکھتا ہو۔ اور جو اس کے اصلی داعیوں نے عملاً اختیار کیا ہو۔ حکومت الہٰی کے نصب العین کے داعی انبیاء کرام ہیں۔ اس لئے طریق کار بھی وہی ہے جو انبیاء کا طریق کار ہو۔
انبیاء کی زندگیوں پر نظر ڈالتے ہوئے ہمیں فی الجملہ دو قسم کے پیغمبر دکھائی دیتے ہیں۔ ایک تو وہ جن کی دعوت کے ظہور کے وقت اسٹیٹ ایک منظم اور موثر طاقت کی حیثیت سے سوسائٹی میں کار فرما نظر آتا ہے۔ اور اکثر حالات میں وہ ایسا اسٹیٹ ہوتا ہے جس میں اقتدار اعلیٰ کلی طور پر شخص واحد میں مرکوز ہوتا ہے۔ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام۔

دوسرے وہ جن کا واسطہ ایک ایسی سوسائٹی سے پڑتا ہے جس میں اسٹیٹ ابھی بالکل ابتدائی حالت میں تھا اور زیادہ سے زیادہ سرقبیلی (Patrichal) قسم کا اسٹیٹ تھا۔ جیسے خاتم النبینﷺ۔

دونوں صورتوں میں طریق کار کا اختلاف نمایاں ہے، جو غالباً اسی سیاسی اختلاف احوال کا نتیجہ ہے۔

لیکن جتنی جامعیت اور ہمہ گیری اسٹیٹ نے اب حاصل کرلی ہے اور جس طرح اس نے آج کل فرد کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اور جتنی منظم و موثر اور مضبوط طاقت، فکری اور عملی حیثیتوں سے اس نے اب اختیار کر لی ہے، اس کی مثال شاید پچھلی تاریخ میں نہ مل سکے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہی طریق کار جو تقریباً غیر ریاستی (Stateless) سوسائٹی یا حد سے حد سرقبیلی حکومت میں کامیاب طور پر استعمال کیا گیا اب بھی اس قسم کی کامیابی کا ضامن ہوسکتا ہے! کیا آج کل کے بدلے ہوئے حالات میں اسی مقصد کے لئے کام کرنے والی پارٹی کو اپنا فنِ انقلاب انگیزی کافی حد تک بدلنا پڑے گا؟

خاتم النبینﷺ کو کسی منظم اسٹیٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس کے برعکس حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے ایک منظم اسٹیٹ تھا۔ چنانچہ انہوں نے جب قوت متسلطہ (Sovereign Power) کو اقتدار منتقل کرنے پر آمادہ پایا تو اجعلنی علٰی خزائن الارض کہہ کر اقتدار سنبھال لیا اور اس طرح اپنا مشن پورا کرنے کے لئے پہلے کے قائم شدہ اسٹیٹ کو استعمال میں لے آئے۔ موجودہ زمانے کا اسٹیٹ حضرت یوسف علیہ السلام کے عہدکے اسٹیٹ سے کہیں زیادہ جامعہ، ہمہ گیر اور منظم ہے۔ اس کا اُکھیڑ کر ایک نیا اسٹیٹ وجود میں لانے کے لئے جو انقلاب بھی ہوگا اس کا راستہ خون کے لالہ زاروں سے ہو کر گزرے گا۔ جیسا کہ بالشویک روس میں ہوا۔اور یہ بھی معلوم ہے کہ اسلام محض توڑ پھوڑ قسم کا انقلاب نہیں چاہتا۔ بلکہ اس کا پروگرام کچھ زیادہ نازک ہے۔ ان حالات میں تو زیادہ موزوں طریقہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ بجائے کلی انقلاب کے جتنا کچھ اقتدار حاصل ہوسکے اسے قبول کرکے کام کو آگے بڑھایا جائے۔ اگر اس پوزیشن کو قبول کرلیا جائے تو نہ صرف یہ کہ ملک کی موجودہ مسلمان جماعتوں کے خلاف کوئی کاروائی درست نہیں ہوگی۔ بلکہ تائید بھی ضروری ہوجائے گی۔

یہ بات واضح کرنے کی ضرورت نہیں کہ اقتدار سے مراد سول سروس کے مناصب نہیں، جیسا کہ کسی نواب صاحب نے ترجمان کی ایک اشاعت میں یوسف علیہ السلام کے سلسلہ میں فرمایا ہے، بلکہ ایک منظم جماعت کی جدوجہد کے بعد جماعتی حیثیت سے قوت حاکمہ (Sovereing Power)سے اختیارات لے کر اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنا مراد ہے۔

جواب: بلاشبہ ایسی حالت میں جبکہ غیر اسلامی اسٹیٹ ہمہ گیر ہو اس حالت کی بہ نسبت جب کہ فاسد سماجی نظام بالکل ابتدائی نوعیت کا ہو، بہت کچھ فرق واقع ہوجاتا ہے اور اس کے لحاظ سے طریق کار میں کم ازکم صورت کے لحاظ سے تغیر کرنا ضروی ہے۔ لیکن اصولی حیثیت سے طریق کارمیں کسی تغیر کی ضرورت نہیں ہے۔ اصولی طریق کار یہی ہے کہ پہلے ہم اپنی دعوت پیش کریں گے۔ پھر ان لوگوں کو جو ہماری دعوت پر لبیک کہیں، منظم کرتے جائیں گے۔ پھر اگر رائے عام کی موافقت سے یا حالات کی تبدیلی سے کسی مرحلے پر ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ موجود الوقت دستوری طریقوں ہی سے نظام حکومت کا ہمارے ہاتھوں میں آجانا ممکن ہو اور ہمیں توقع ہو کہ ہم سوسائٹی کے اخلاقی، تمدنی اورسیاسی و معاشی نظام کو اپنے اصول پر ڈھال سکیں گے تو ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانے میں کوئی تامل نہ ہوگا۔ اس لئے کہ ہمیں جو کچھ بھی واسطہ ہے اپنے مقصد سے ہے نہ کہ کسی خاص طریق کار (Method) سے لیکن اگر پر امن ذرائع سے جو اقتدار (Substance of Power) ملنے کی توقع نہ ہو تو پھر ہم عام دعوت جاری رکھیں گے اور تمام جائز شرعی ذرائع سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش کریں گے۔

(ترجمان القرآن۔ رمضان، شوال ۶۴ھ۔ ستمبر، اکتوبر ۴۵ء)