تحریک اقامت دین کے بارے میں چند سوالات

سوال: جماعت اسلامی کی شرکت کو اپنے لئے لازمی سمجھ لینے کے باوجود مجھے چند شبہات اپنے دل میں کھٹکتے محسوس ہو رہے ہیں۔ اگر ممکن ہوتو اپنی بصیرت سے ان الجھنوں کو صاف کر دیجئے۔ شبہات یہ ہیں۔

(۱) آپ اپنی تحریروں کے ذریعے برسوں سے اقامت دین کی دعوت دے رہے ہیں۔ دو سال سے جماعت بھی قائم ہے۔ بقول آپ کے اس تحریک کے مزاج کے مطابق بہت تھوڑے آدمی ملے ہیں اور جو ملے ہیں ان میں وہ صفات بہت کم ہیں جن صفات کے آدمیوں کی ضرورت ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ یہ صفات لوگوں میں کیسے پیدا ہوا کرتی ہیں۔ جہاں تک امت کی تاریخ کا تعلق ہے، خلافت راشدہ کے بعد اقامت دین کی منظم تحریک کبھی بر وئے کار آئی ہی نہیں۔ مجددین نے زبان و قلم یا جسم سے جو کیا، ذاتی طور پر کیا۔ شاید پورے اسلامی دور میں صرف حضرت سید احمد بریلوی کے زیر َعلم ایک منظم جہاد اس مقصد کے لئے کیا گیا۔ میں ان کے رفقاء کے عزم و عمل پر غور کرتا ہوں تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان میں وہ والہانہ اور مجنونانہ جذبہ و جوش کیسے پیدا ہوا۔کسی جماعت میں وہ نشہ کیسے چڑھا کرتا ہے جب وہ اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کردینا ہی اپنا عزیز فرض سمجھنے لگتی ہے؟ کیا یہ سب کچھ تحریر کی اور تقریری دعوت و تفہیم سے ہوجاتا ہے یا محض عمدہ اور صحیح لٹریچر فراہم کردینے سے؟ میرا یہ خیال ہے کہ یہ سب چیزیں ذہنی اصلاح تو کر دیتی ہیں لیکن جنون عمل پیدا کرنے والی کوئی اور ہی چیز ہوتی ہے۔

جب ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ عہد کرکے اس کا حق ادا نہیں کرتے اور خلوص و ایثار کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا تو خود بخود یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس جذبہ کو کیسے پیدا کیا جاسکتا ہے؟ میں آپ کا لٹریچر پڑھ کر اور قرآن حکیم کا مطالعہ کرکے خود اپنے اندر یہ خواہش پاتا ہوں کہ میرے عمل میں انقلاب ہو۔ لیکن جس چیز کی ضرورت محسوس کرتا ہوں وہ پیدا نہیں ہوتی۔ معلوم نہیں وہ کو ن سی طاقت ہے جو اس ضرورت کو پورا کرتی ہے مگر اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ جب تک جماعت اسلامی میں یہ طاقت نمودار نہ ہوگی، شرکائے جماعت میں ایثار و عمل کا مطلوبہ جذبہ پیدا نہ ہوگا اور تحریک ٹھنڈی پڑجائے گی۔

(۲) ایک الجھن اقامت دین کی راہ کے نشانات اور مراحل کے متعلق پیدا ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں جس طرح کے مراحل دئے گئے ہیں۔ ان میں جس طرح کی رہنمائی ہوتی گئی اور جس طرح کی غیبی نصرت و تائید کا ظہور ہوتا گیا، ان سب میں ذات ِرسول اور وحی کی رہنمائی موجود تھی۔ اب یہ کون بتائے گا کہ ہمارے راستے کے مراحل کون کون سے ہیں اور ان کو کس کس طرح عبور کرنا ہے؟

(۳) صحابہ کی زندگی کو دیکھئے تو تعجب ہوتا ہے کہ چھوٹے بڑے اونچے نیچے، محتاج اور غنی مصیبتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک وسیع خاندان کے رشتہ میں پروئے گئے تھے۔ ایک کی تکلیف سب کی تکلیف ہوتی تھی اور ایک کا فاقہ سب کا فاقہ ہوتا تھا۔ ایک کا بوجھ اٹھانے کے لئے سب کے بازو حرکت میں آجاتے تھے مگر ہمارا حال کیا ہے؟ اگر ہمارے بچے فاقہ کشی کر رہے ہیں اور ہم فکر معاش میں بد حواس ہو رہے ہیں تو ہم ان رفیقوں کے ساتھ کیسے چل سکتے ہیں جو ان مشکلات کی تلخیوں سے نا آشنا ہیں۔ کبھی کبھی اس الجھن میں پڑجاتا ہوں کہ وہ زندگی جو عہد رسالت و صحابہ کے اندر پیدا ہوگئی تھی۔ اس عہد کے لئے خاص تو نہ تھی کبھی یہ خیال گزرتا ہے کہ اس زندگی کی فطرت ہی ایسی ہے کہ یہ عام نہیں ہوسکتی۔ میں سوچتا ہوں کہ ہمیں اپنے جذبہ رفاقت کو اتنا زور دار بنانا چاہئے کہ جماعت ایک خاندان کی شکل اختیار کر جائے اور جماعت کے استحکام کے لئے یہ ایک لازمی چیز ہے۔

جواب:(۱) اس مسئلہ میں خود برسوں غور کرتا رہا ہوں اور آخر کار اس مختصر سے فقرے نے جو عام طور پر مسلمانوں کی زبانوں پر چڑھا ہوا ہے مجھے مطمئن کردیا، یعنی ’’السعی منی ولا تمام من اللہ‘‘ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم جس بات پر مامور ہیں وہ صرف یہ ہے کہ مختلف راہوں میں سے اس راہ کو اپنے لئے منتخب کر لیں جسے صراط مستقیم کہا گیا ہے، اور اپنی تمام ممکن سعی و جہد اس پر چلنے میں صرف کردیں۔ اس کے بعد اسباب کی فراہمی اور راہ نوردی کی قوت اور مشکلات راہ کی تسہیل، یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی توفیق پر منحصر ہے۔ میں اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ اگر بڑے پیمانے پر سعی کرنے اور بلند درجے پر پہنچنے کی توقع نہ ہو تو ہم صحیح راہ کو چھوڑ کر کسی ایسی غلط راہ کی طرف چل پڑیں جس میں کچھ بڑےاور بلند درجے کا کام کیا جاسکتا ہو۔ ہمیں بہرحال صحیح کام کرنا ہے،خواہ وہ بڑے پیمانے پر ہو یا چھوٹے پیمانے پر۔

یہ تو اس معاملے کا ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ جن غیر معمولی اخلاقی قوتوں کی اس کام کے لئے ضرورت ہے اور جیسی موثر شخصیت یا شخصیتیں اس کام میں جان ڈالنے کے لئے ضروری ہیں وہ بہر حال حجروں میں پیدا نہیں ہوسکتیں بلکہ اس راہ کی عملی جدوجہد کےنتیجے ہی میں پیدا ہوا کرتی ہیں۔ ابھی اس سعی کی ابتداء ہے اور آزمائش کے لمحات بہت کم آئے ہیں، اس وجہ سے اس سعی کے مردم ساز اثرات آپ کے سامنے آتے جائیں گے، آپ دیکھیں گے کہ جو لوگ اللہ سے گہرا تعلق رکھنے والے نہیں ہیں وہ کسی نہ کسی امتحان پر اپنی کمزوری کے خود شکار ہوجائیں گے اور راستے سے ہٹ جائیں گے، اور جن لوگوں کا فی الواقع اللہ سے تعلق ہوگا وہ نہ صرف یہ کہ ایک ایک امتحان کے موقع پر کامیاب ہوں گے بلکہ ہر امتحان ان کی سیرت میں ایک نئی طاقت پیدا کردے گا۔ ان کے اندر کی بہت سی کھوٹ نکال دے گا اور بالاخر وہ زر خالص بن جائیں گے۔ پھر رفتہ رفتہ انہی لوگوں میں پارس کی سی خصوصیات پیدا ہو جائیں گی کہ جو ان سے چھو گیا وہ سونا بن گیا۔

بہرحال میں اس معاملے میں مطمئن ہوچکا ہوں کہ اس کام کو شروع کرنے سے پہلے مکمل شخصیت یا شخصیتوں کے موجود ہونے کی شرط لگانا غلط ہے۔ یہ شرط کبھی متحقق نہیں ہوسکتی۔ بلکہ اس کے برعکس صحیح یہ ہے کہ ایک مرتبہ خلوص نیت کے ساتھ یہ کام شروع کردیا جائے تو رفتہ رفتہ یہی کام خود مکمل شخصیتیں بناتا چلا جاتا ہے اور جتنا جتنا یہ اپنی تکمیل کے مراحل کی طرف بڑھتا ہے اتنی ہی بلند تر شخصیتیں اس کے کارکنوں میں سے ابھرتی چلی آتی ہیں۔ سمندر کی موجوں سے لڑنے کے لئے آپ ایسے آدمی کبھی نہیں لاسکتے جو سمندر کے اندر اترنے سے پہلے اس کی موجوں سے لڑنے کی قوت فراہم کرچکے ہوں۔ یہ قوت تو بہرحال سمندر میں کودنے اور موجوں سے لڑنے ہی سے پیدا ہوسکتی ہے۔ جو کمزور ہیں وہ اسی سمندر میں ڈوب مرتے ہیں اور جن کے دست و بازو میں اللہ نے قوت پیدا کی ہے وہ تھپیڑے کھا کھا کر اور موجوں سے لڑ لڑ کر بالاخر پیراکوں کے پیراک بن جاتے ہیں۔

(۲) اقامت دین کی راہ کے مراحل مقرر نہیں ہے۔ بلکہ ان مراحل کو جدوجہد اور وہ حالات جو جدوجہد کے دوران میں پیش آئیں، اور وہ بصیرت جو اسلام کی روح کو سمجھنے والے رہنما کے اندر ہوتی ہے، یہ سب چیزیں مل جل کر معین کرتی ہیں۔ انبیاء علیہم السلام کی زندگیوں میں ہم کو یہی نظر آتا ہے کہ سب کے سب ایک ہی قسم کے مراحل سے نہیں گزرے ہیں۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام اور نبیﷺ اور دوسرے انبیاء کی زندگیوں کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے۔ دراصل جو چیز درکار ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے سامنے مقصد معین ہو اور ہمارے اندر وہ حکمت موجود ہو جو اس مقصد تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے اور انبیاء علیہم السلام کے طریق کار کو اچھی طرح سمجھ کر عملاً جدوجہد شروع کردیں۔ پھر جو جو مراحل سامنے آتے جائیں گے ان میں سے ہر مرحلے کے تقاضوں کو ہم اپنی حکمت سے سمجھتے جائیں گے اور اللہ کے بھروسے پر ان کے لئے مناسب تدابیر اختیار کرتے جائیں گے۔

رہا آپ کا یہ خیال کہ پہلے تو وحی کی رہنمائی کام کرتی تھی اس لئے صحیح وقت پر صحیح تدبیر اختیار کرلی جاتی تھیں، مگر اب کیا ہوگا؟ تو اس کا جواب قرآن مجید میں دے دیا گیا ہے کہ ’’وَ الَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَاط‘‘ (سورۃ العنکبوت ۶۸)وہ خدا جو پہلے رہنمائی کرتا تھا وہی اب بھی رہنمائی کرنے کے لئے موجود ہے۔ اس کی رہنمائی سے فائدہ اٹھانے والے موجود ہونے چاہئیں۔ ہمارے اندر اگر ایک دو آدمی بھی ایسے موجود ہیں جو قرآن کی روح اپنے اندر جذب کر چکے ہوں، اور جماعت میں کم از کم ایک معتدبہ اکثریت ایسے لوگوں کی موجود رہے جو قلب سلیم کی نعمت سے بہرہ ور ہوں اور صحیح و غلط رہنمائی میں امتیاز کر سکتے ہوں اور جن میں صحیح رہنمائی کے لئے سمع واطاعت کا مادہ موجود ہو، تو انشاء اللہ خدا کی رہنمائی بھی ہمیں ہر مرحلے پر حاصل ہوگی اور ہم اس کی رہنمائی سے فائدہ بھی اٹھا سکیں گے۔

(۳) صحابہ کی جماعت کے متعلق جو نقشہ تذکروں میں کھینچا گیا ہے اس میں ایک حد تک تو مبالغہ ہے اور ایک حد تک حقیقت ہے۔ پھر جو حقیقت ہے وہ بھی پوری طرح اس وقت برسرکار آئی تھی جب ایک طویل مدت کی جدوجہد نے ان کے اندر باہمی رفاقت کی اسپرٹ پیدا کردی تھی۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ جو خصوصیات ان کے اندر نبیﷺ جیسے زبردست رہنما کی رہنمائی سے چودہ پندرہ سال کی مسلسل تربیت کے بعد پیدا ہوئی تھیں، انہیں ہم پہلے ہی مرحلہ پر موجود دیکھنا چاہتے ہیں۔ پھر مدینہ طیبہ میں صحابہ کے درمیان رفاقت کی جو اسپرٹ تھی اس میں بہت بڑا دخل ان کی یکجائی کا بھی تھا۔ منتشر طور پر عرب کے مختلف حصوں میں جو لوگ پھیلے ہوئے تھے ان کے ساتھ وہ رفاقت ممکن نہیں تھی جو مدینہ میں سمٹ آنے والے لوگوں کے ساتھ تھی۔ مگر یہاں ابھی تک ہماری اجتماعی زندگی سرے سے بنی ہی نہیں ہے۔ منتشر افراد ملک کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں جو ابھی ایک دوسرے سے آشنا نہیں۔ ان کے اندر آخر رفاقت کی وہ شان کیسے پیدا ہوسکتی ہے جو صرف یکجائی زندگی ہی میں ممکن ہے؟

میں چاہتا ہوں کہ جو لوگ ہمارے ہم خیال ہیں وہ عہد صحابہ کو مجرد کرامتوں اور معجزات کی اسپرٹ میں سمجھنے کے بجائے فطری اسباب کے مطابق سمجھنے کی کوشش کریں۔ ورنہ ہر وہ چیز جو اس دور میں پیدا ہوئی تھی اس کے متعلق ہم چاہیں گے کہ بس وہ چشم زدن میں کرامت کے طور پر رونما ہوجائے اور جب وہ اس طرح رونما نہ ہوسکے گی تو ہمارے دل ٹوٹ جائیں گے۔ اس ذہنیت کے ساتھ ہم کبھی ان فطری اسباب کو فراہم کرنے کی کوشش کریں گے ہی نہیں جن سے وہ کیفیات یا کم ازکم اس نوعیت کو کیفیات پیدا ہوسکتی ہیں۔ ملئے اور مل کر کام کیجئے اور مل کر اس راہ میں مصیبتیں اُٹھائے۔ پھر اس طرز کی رفاقت کا ظہور نہ ہو تو البتہ آپ کو حق ہے کہ اس خدمت کی انجام دہی کے لئے معجزہ کی شرط لگائیں اور پھر اپنے خدا سے مطالبہ کریں کہ اگر یہ خدمت ہم سے لینا چاہتا ہے تو معجزے صادر کرے۔

اس سلسلے میں سوچنے والے اکثر جو غلطیاں کرتے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اس کام میں جن جن چیزوں کی کمی محسوس کرتے ہیں ان کا ذکر کچھ اس انداز سے کرنے لگتے ہیں گویا ان ساری کمیوں کو پورا کرنا اور تمام ضروری چیزوں کو مہیا کردینا کسی اور کا کام ہے اور خود ان پر اس باب میں کوئی فرض عائد نہیں ہوتا۔ حالانکہ درحقیقت یہ کسی ایک شخص کا انفرادی کاروبار نہیں ہے بلکہ ہم سب کا مشترک کام ہے اور اس میں کوئی شخص بھی محض چند کاموں کی نشان دہی اور چند چیزوں کی ضرورت ظاہر کرکے اپنے فرض سے سبکدوش نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ خود اس کمی کو پورا کرنے اور اس چیز کو مہیا کرنے میں اپنے حصہ کی خدمت انجام نہ دے جس کی ضرورت وہ بیان کر رہا ہے۔

(ترجمان القرآن۔ جمادی الاول و ثانی ۶۳ھ۔ مئی جون ۴۴ء)