بعض تفسیری اشکالات کے جوابات

سوال: تفہیم القرآن (جلد چہارم) کے مطالعہ کے بعد درج ذیل باتیں وضاحت طلب رہ گئی ہیں۔ براہ کرم رہنمائی فرما کر ممنونِ احسان فرمائیے۔ جزاک اللہ۔

۱۔ سبا آیت ۱۴، ح ۲۴، صفحہ ۱۹۰۔ حضرت سلیمان ؑ کا مردہ جسم عصا کے سہارے اتنی مدت کھڑا رہا کہ گھن نے عصا کو کمزور کردیا اور جنوں کو (اور یقیناً انسانوں کو بھی) ان کے انتقال کا علم نہ ہوا… یہ بات بعید از قیاس ہے۔ اور قرآن اسے کسی معجزے کے طور پر پیش نہیں کر رہا ہے… کیا جنوں (اور دیگر عمائد سلطنت) میں اتنی عقل بھی نہ تھی کہ حضرت سلیمان ؑ جو بولتے چالتے، کھاتے پیتے، مقدمات کے فیصلے سناتے، فریادیں سنتے، احکام جاری کرتے، عبادت کرتے، حاجات سے فارغ ہوتے تھے اتنی دیر (بلکہ مدت) سے ساکت و صامت کیوں کھڑے ہیں؟ کیا زندگی کے ثبوت کے لیے صرف کھڑا رہنا کافی ہے؟ اور پھر آپ کے اہل و عیال؟ کیا انہیں بھی انتقال کا پتہ نہیں چلا (جو نا ممکن ہے) یا انہی نے یہ ایک ترکیب نکالی تھی؟

مفسر محترم نے جس بات کو صاف اور صریح فرمایا ہے وہ خود ایک پہیلی ہے۔

۲۔ سورۂ احقاف آیت ۲۹، حاشیہ ۳۵۔ جِنّ مکی دور ہی میں ایمان لے آئے تھے لیکن انہوں نے رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کے دور مصائب میں کسی طرح کی کوئی مدد نہیں کی، نہ اس کے بعد کسی جہاد میں حصہ لیا۔ کیا سارا قرآن (اوامر و نواہی) جس طرح انسانوں کے لیے واجب الاطاعت ہے جنوں کے لیے بھی اسی سرح اس پر عمل لازم نہیں؟ کیا صلوٰۃ، صوم، زکوٰۃ، اور جہاد (بالمال و بالنفس) جنوں پر بھی فرض نہیں تو استثناء کی بنیاد کیا ہے؟ اور اگر فرض ہے تو جنوں نے کب اور کیسے ان پر عمل کیا؟

(ب) اس سورۂ سے پتا چلتا ہے کہ جن اتفاقی طور پر ایمان لے آئے اور انہوں نے اپنے طور پر اپنے ساتھیوں کو اسلام کی دعوت دی … اگر حضورﷺ انسانوں کی طرح جنوں کے لیے بھی مبعوث تھے تو آپ نے جنوں کو خود دعوت کیوں نہ دی؟ ان کی دینی تربیت کے لیے کیا اہتمام اور کیا انتظام فرمایا؟ اور ان کے لیے شرعی احکام کی نوعیت کیا ہے؟ قرآن مجید کی معاشرتی تعلیمات جنوں کے لیے بھی اسی طرح واجب ہیں جیسے انسانوں کے لیے، یا ان کے احکام مختلف ہیں؟

۳۔ سورۂ ص ٓ، ح ۳۶ صفحہ ۳۳۷ قوی سند کے باوجود حدیث مشتبہ ہوسکتی ہے ( اور ہے) تو حدیث کی صحت کا معیار کیا رہا؟ صرف عقل سلیم؟ اگرچہ چند واقعات ہی سہی۔

۴۔ سورۂ شوریٰ، آیت ۲۳، ح ۴۱ صفحہ ۵۰۱ مفسر محترم نے اپنی رائے محفوظ رکھی ہے۔ ’’قربیٰ‘‘ کے سلسلے میں واضح فیصلہ ضروری تھا۔ ایک طبقہ کی تفریق کی اصل بنیاد یہی ہے۔

۵۔ صفحہ ۲۸۹ (طبع اول) آیت ۵۶، سورۂ الصّٰٓفّٰت، ح ۳۶ … تشبیہ دینے والے (خدا) کے لیے تو تشبیہ کے دونوں ارکان (مشبہ و مشبہ بہ) مشہود ہیں۔۔ رہے انسان، تو انہوں نے شیطان کے سر نہیں دیکھے تو زقوم کے شگوفے تو دیکھ رکھے ہیں۔ مشبہ بہ کی مناسبت سے مشبہ کے متعلق کچھ نہ کچھ تصور قائم کیا جاسکتا ہے … لہٰذا اسے ’’تخیلی تشبیہ‘‘ قرار دینا موزوں نظر نہیں آتا … اس سلسلے میں جو مثالیں مفسر محترم نے پیش کی ہیں وہ اس لیے غیر متعلق ہیں کہ ان کے بیان کرنے والے انسان ہیں جنہوں نے واقعی ان چیزوں کو نہیں دیکھ رکھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تو شیطان اور اس کا سر دیکھ رکھا ہے۔

۶۔ درست مثال کیا ہے؟ اندھیری نگری چوپٹ راج کہ چوپٹ راجہ؟ (صفحہ ۱۷۴)

۷۔ “سخت برا فروختہ ہوا اور اس کے چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا”(ص ۱۸۳) برا فروختہ یعنی بھڑک اٹھنا، غصے میں آنا یا شرمندہ یا خوف زدہ ہونا؟

جواب: قرآن مجید میں جو بات جس طرح لکھی گئی ہے میں نے اسی طرح اس کو بیان کردیا ہے۔ اس پر جو سوالات آپ نے اٹھائے ہیں ان کا جواب قرآن مجید میں موجود نہیں ہے اور میں اپنی طرف سے کوئی بات گھڑ کر قرآن مجید میں داخل نہیں کرسکتا۔

۲۔ جِنوں کے ایمان لانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسانوں کے درمیان کفرو ایمان کی کشمکش میں وہ شریک ہوں۔ خود ان کے اندر بھی کافر اور مومن جِنوں کے درمیان کشمکش ہے اور اس میں انسان حصہ نہیں لیتے۔

(ب) جِن اتفاقی طور پر ہی ایمان نہیں لائے تھے۔ انسانوں میں جو انبیاء آئے ہیں ان پر ایمان لانے کے جِن بھی مکلّف ہیں۔ البتہ یہ تفصیل ہمیں نہیں معلوم کہ ان کے لیے شرعی احکام کیا تھے اور ان کی تربیت کا کیا انتظام تھا۔

۳۔ قوی سند کے باوجود حدیث کے متن میں کوئی ایسی بات ہوسکتی ہے جو اس کی صحت کے بارے میں شبہ پیدا کرنے والی ہو۔

۴۔سورہ شوریٰ آیت ۲۳ کی تشریح میں نے اپنی حد تک تو پوری وضاحت سے کردی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس سے آپ کو اطمینان نہ ہوا ہو۔

۵۔اگر آپ اس بات پر مطمئن ہیں کہ شیطان کے سر زقوم جیسے ہی ہیں اور انہی سے زقوم کو تشبیہ دی گئی ہے تو آپ یہ تفسیر کرسکتے ہیں۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔

۶۔ اردو میں محاورہ کے طور پر اندھیری نگری چوپٹ راجہ ہی بولا جاتا ہے۔

۷۔ رَبَاالرَّجُلَ رَبُوَۃٌ کا مطلب سانس پھولنا بھی ہے، اور خجالت میں مبتلا ہونا بھی۔ لیکن میں نے حضرت ابن عباسؓ کے اس فقرے کو ملحوظ رکھ کر ترجمہ کیا ہے کہ بندۂ خدا اگر تصویر ہی بنانی ہے تو درختوں کی بنا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس شخص کو تصویر کی حرمت کا حکم ناگوار ہوا تھا اور وہ مصوری پر اصرار کرنا چاہتا تھا۔

(ترجمان القرآن، جنوری ۱۹۷۶ء)